مذہبی شدت پسندی کے سامنے سپریم کورٹ کی پسپائی
سپریم کورٹ ’فتح‘ کرنے کے بعد مولانا فضل الرحمان نے جمعہ کو ’یوم تشکر‘ اور 7 ستمبر کو ’یوم فتح‘ منانے کا اعلان کیا ہے۔ آج سپریم کورٹ میں ہونے والی کارروائی نے طے کر دیا ہے کہ پاکستان میں مذہبی شدت پسندی اور تعصب کے سامنے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت بھی بند نہیں باندھ سکتی۔ آج سپریم کورٹ کے ججوں نے ہاتھ اٹھا کر مذہبی رہنماؤں کے سامنے اپنی ’ناکامی و شکست‘ قبول کی۔
اس حوالے سے دیکھا جائے تو جمعہ 23 اگست کو ’یوم تشکر‘ نہیں بلکہ ’یوم سیاہ‘ کے طور پر منانا چاہیے۔ اگرچہ ملک میں کسی سیاسی، سماجی، مذہبی یا انسانی حقوق کی تنظیم میں یہ حوصلہ نہیں ہے کہ وہ آج سرزد ہونے والی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھا سکے اور عدالت، ملاؤں اور قوم کو عقل کے ناخن لینے کا مشورہ دے سکے۔ اس لیے جمعہ کو تو ’یوم تشکر‘ ہی منایا جائے گا لیکن تاریخ میں مذہبی لیڈروں کی یک طرفہ غیر انسانی شدت پسندی اور عدالت کی بے بسی و مجبوری کو ضرور ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
حیرت ہے کہ بعض گروہ مذہب کے نام ریاست اور سکیورٹی فورسز سے جنگ آزما ہیں۔ یہ گروہ خون ریزی اور دہشت گردی کے ذریعے اپنی طاقت منوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں تقریباً روزانہ کی بنیاد پر پاک فوج کے جوان اور افسر جام شہادت نوش کرتے ہیں۔ ایک مخصوص مسلک سے تعلق رکھنے والے اس مذہبی گروہ کے ارکان اسی عقیدہ کے مدارس سے تعلیم یافتہ ہیں۔ ریاست اور حکومت نے انہیں ان کی شرانگیزی اور خوں ریزی کی وجہ سے ’فتنہ الخوارج‘ کا نام دیا ہے۔ اور ہر قیمت پر اس گروہ کا قلع قمع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ لیکن شدت پسندی کے ان ہی رویوں کو جو مذہبی انتہا پسندی قوت بخشتی ہے، اس نے آج سپریم کورٹ میں اپنی طاقت منوانے کا مظاہرہ کیا ہے۔ چیف جسٹس کے پاس آج کی کارروائی کے دوران میں علمائے کرام کی بابرکت موجودگی پر شکریہ ادا کرنے اور ان کے مشورہ نما ’احکامات‘ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ ایک موقع پر جب مذہبی عالموں کا ڈھونگ رچائے متعدد لوگ عدالت میں ہنگامہ آرائی کر رہے تھے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مولانا فضل الرحمان سے استدعا کی کہ ان لوگوں کو خاموش کروائیں۔ اس کے جواب میں مولانا نے فرمایا ’یہ آپ کی عدالت ہے، آپ کا حکم چلے گا‘۔ اس ایک فقرے سے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اور چیف جسٹس کی بے بسی کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس دوران سماعت بار بار اپنے مرحوم والد کی پاکستان کے لیے خدمات کا ذکر کرتے رہے تاکہ علمائے کرام کے دلوں میں کوئی نرم گوشہ تلاش کیا جا سکے لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ جب عوام میں اپنی دھونس جمانے کے لیے ملاؤں کے ہاتھ کوئی ہتھیار آ جاتا ہے تو وہ اسے استعمال کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ یہ موقع مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے اور نظر ثانی کے حکم نے انہیں فراہم کیا تھا اور وہ سب کچھ الٹ پلٹ کرنے سے کم پر راضی ہونے پر آمادہ نہیں تھے۔ کیوں کہ جس ملک میں مذہب فروشی ہر شعبہ زندگی سے متعلق لوگوں کا وتیرہ بن جائے، وہاں ملاّ اپنے وار میں شدت پیدا کرنے کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے پر تیار ہو گا۔ پاکستان اور دنیا بھر میں بیٹھا ہوا ہر ذی شعور آج سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران یہی مناظر دیکھ کر انگشت بدنداں تھا۔ چیف جسٹس کا یہ اعتراف شاید ہمارے عدالتی نظام کی بے بسی کا سب سے نمایاں اظہار ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں ہر نماز میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ مجھ سے کوئی غلط فیصلہ نہ کروائے۔ انسان اپنے قول و فعل سے پہچانا جاتا ہے۔ پارلیمان کی بات سر آنکھوں پر ہے۔ آئین کی 50 ویں سالگرہ پر میں خود پارلیمنٹ میں گیا۔ میری ہر نماز کے بعد ایک ہی دعا ہوتی ہے کہ کوئی غلط فیصلہ نہ ہو۔ آپ کا شکریہ کہ آپ ہمیں موقع دے رہے ہیں‘۔
چیف جسٹس پاکستان کو یہ دن اس لیے دیکھنا نصیب ہوا کیونکہ ہماری پارلیمنٹ سے عدالت تک قانون اور آئین کو نظر انداز کر کے ذاتی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر فیصلوں کی روایت قائم ہو گئی ہے۔ اگر عدالتی فیصلے قانون و آئین کی سخت تفہیم کے دائرے میں رہ کر کیے جائیں تو نہ تو ججوں کو پر زور اور شدید ریمارکس کے نام پر خود کو نمایاں کرنے کی ضرورت محسوس ہو، نہ ہی عدلیہ اس بات کی پرواہ کرے کہ میڈیا میں عدالتی کارروائی یا فیصلوں کی رپورٹنگ کیسے ہوتی ہے یا فیصلوں کے بارے میں کیا رائے قائم کی جاتی ہے۔ کیوں کہ کوئی جج نہ قانون سے بالا ہے اور نہ ہی وہ قانون سے ماورا کوئی فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔ لیکن پاکستان میں قانون و آئین کو اپنی مرضی کے مطابق سمجھانے اور اسی ذاتی تفہیم کے مطابق فیصلے کرنے کا رجحان طویل عرصہ سے رواج پا چکا ہے۔ اسی کج روی کے سبب آج ملاؤں نے سپریم کورٹ پر چڑھائی کی اور ’فتح‘ کا پھریرا لہراتے ہوئے باہر نکلے۔
زیر غور مبارک ثانی کیس سادہ معاملہ تھا۔ ایک احمدی شخص کو اپنے ہی ادارے میں 2019 کے دوران احمدی بچوں کو احمدیوں کی کتاب ’تفسیر صغیر‘ پڑھانے کے جرم میں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس پر پنجاب کے ایک ایسے قانون کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا جس میں اس ممنوعہ کتاب کی تقسیم یا اشاعت کو پنجاب قرآن شریف (ترمیم) قانون کے تحت 2021 میں جرم قرار دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ میں رہائی کی درخواست پر غور کرتے ہوئے 6 جولائی کے فیصلے میں عدالت نے مبارک ثانی کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ایک تو مبینہ جرم قانون نافذ ہونے سے پہلے یعنی 2019 میں سرزد ہوا تھا دوسرے درخواست گزار مقررہ 6 ماہ سے دو گنی مدت تک قید کاٹ چکا ہے۔ البتہ ایک احمدی کو انصاف ملنے سے پہنچنے والی ٹھیس بہت زیادہ تھی لہذا دیگر فریقین کے علاوہ پنجاب حکومت نے نظر ثانی کی اپیل دائر کردی۔ اس اپیل پر فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے عدالت نے ختم نبوت کو ایمان کی لازمی شرط قرار دیا، احمدیوں کے دونوں گروہوں کو غیر مسلم کہا البتہ فیصلہ میں لکھا کہ غیر مسلموں کو بھی ’معقول قیود‘ کے اندر ’گھر کی خلوت‘ کا حق حاصل ہے‘۔ یعنی وہ اپنے گھر یا اپنے ادارے میں اپنے عقیدے کے مطابق پرچار و تبلیغ کر سکتے ہیں۔
ملک کے سب مذہبی گروہوں کے علاوہ اسلامی نظریاتی کونسل نے البتہ یہ موقف اختیار کیا کہ احمدیوں کو یہ حق بھی نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی واحد وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ احمدیوں کو ملکی آئین غیر مسلم قرار دے چکا ہے لیکن وہ خود کو غیر مسلم نہیں مانتے بلکہ مسلمان ہونے پر اصرار کرتے ہیں۔ اس ایک نکتہ کو لے کر نہ صرف سیاسی لیڈروں اور جماعتوں پر دباؤ ڈالا گیا بلکہ سیاسی پارٹیوں اور حکومتی عہدیداروں نے بھی اس موقف کا ساتھ دیا اور سپریم کورٹ سے نظرثانی پر نظرثانی کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔ خیبر پختون خوا اسمبلی نے 24 جولائی والے فیصلے کے خلاف قرار داد منظور کی اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے آج سہ رکنی بنچ کو بتایا کہ ’اسپیکر قومی اسمبلی کا خط ملا تھا اور وزیراعظم نے بھی ہدایات دی تھیں۔ ظاہر ہے دوسری نظر ثانی تو نہیں ہو سکتی، اس لیے ضابطہ دیوانی کے تحت آپ کے سامنے آئے ہیں۔ معاملہ مذہبی ہے تو علمائے کرام کو سن لیا جائے‘۔ گویا اٹارنی جنرل ملک کی سب سے بڑی عدالت کو یہ مشورہ دے رہے تھے کہ قانون و آئین بھلا کر عدالت اس معاملہ میں علمائے کرام کی بات سنے اور مانے۔ حکومت لاچار ہے۔
جولائی کے آخر میں تحریک لبیک پاکستان نے لاہور پریس کلب کے باہر مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے نظرثانی شدہ فیصلے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی نے شعلہ بیانی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’عدالتی فیصلے کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ ہم سپریم کورٹ کے در و دیوار ہلا دیں گے‘ ۔ اسی پارٹی کے نائب امیر پیر ظہیر الحسن شاہ نے ایک قدم آگے بڑھ کر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سر کی قیمت مقرر کی اور کہا کہ ’ان کا سر لانے والے کو وہ اپنی جیب سے ایک کروڑ روپیہ انعام دیں گے‘ ۔ اس علی الاعلان اشتعال انگیزی پر وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے ایک نیم دلانہ پریس کانفرنس کی اور پولیس نے مقدمے بھی قائم کیے لیکن بعض نامعلوم افراد کے علاوہ کسی قابل ذکر لیڈر کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ اور نہ ہی یہ خبر ملی کہ چیف جسٹس کے قتل پر اکسانے والے شخص کے ساتھ ریاست نے کیا سلوک کیا ہے۔
آج کی سماعت کے دوران بھی ان دھمکیوں اور عدالت عظمی کے خلاف توہین آمیز اور اشتعال انگیز بیانات دینے پر کوئی عدالتی ریمارکس یا تبصرہ سننے میں نہیں آیا۔ چیف جسٹس نے عدالت میں پیش ہونے والے علمائے کرام سے مکالمہ کرتے ہوئے یا تحریک لبیک کے نمائندے اور وکیل سے بات کرتے ہوئے یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ انہیں کھلے عام دھمکیاں دینے اور سپریم کورٹ کو مسمار کرنے کا اعلان کرنے والے کہاں ہیں یا ان کے خلاف توہین عدالت ہی کی کارروائی شروع کر دیتے ہیں۔ آج حکومت کی طرح چیف جسٹس اور ان کی سربراہی میں بنچ کے دیگر دو ارکان کسی بھی طرح اس مشکل سے جان بچا کر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہے تھے۔ یہ راستہ مفتی تقی عثمانی کے مشورے نما حکم کو مان کر تلاش کیا گیا۔ آج کے عدالتی ’حکم‘ میں نہ صرف متنازعہ پیرے حذف کر دیے گئے ہیں بلکہ مفتی عثمانی کی یہ ہدایت بھی مان لی گئی ہے کہ ایف آئی آر میں دفعہ 295 بی و سی کے حوالے سے سپریم کورٹ اپنا حکم واپس لے اور ٹرائل کورٹ اس معاملہ میں فیصلہ کرنے میں آزاد ہو۔ آج عدالتی کارروائی اس لحاظ سے بھی یک طرفہ تھی کہ اس میں دلیل دینے اور فیصلے لکھوانے والے ’علمائے کرام‘ ہی تھے۔ فریق دوئم یعنی مبارک ثانی یا ان کے کسی وکیل کو بلانے یا سننے کی زحمت نہیں کی گئی۔
جس ملک میں چیف جسٹس کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوں اور وہ کسی بھی صورت اس مشکل سے نکلنے کے لیے بے تاب ہو، وہاں انصاف تلاش کرنا ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں گروہوں اور مافیا کی حکومت ہوگی۔ جو اپنی طاقت ثابت کردے گا، انصاف اسی کی جھولی میں آن گرے گا۔
- اسرائیل بمقابلہ ایران :جنگ کیا رخ اختیار کرے گی؟ - 11/10/2024
- پشتون جرگے پر بھی پابندی کی کوشش - 10/10/2024
- پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی سے ریاست کا اعتماد مجروح ہو گا - 09/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).