سقوط ڈھاکہ: ذمہ دار تھا کون


عمران خان نے اسی سال اپنی ایک ٹویٹ میں سقوط ڈھاکہ کا ذکر کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ مجیب اور یحییٰ میں سے ’غدار تھا کون؟‘ اس نے ٹویٹ میں شامل ویڈیو میں یحییٰ کو غدار قرار دیا اور پاکستانی فوج پر حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے سنگین جنگی جرائم کے الزامات لگائے ہیں۔ میں اس موضوع پر اس سے پہلے چار مضامین لکھ چکا ہوں جن میں میں سے پہلے میں یحییٰ کو غدار کہنے اور فوج پر الزامات لگانے کو عمران کے ممکنہ مقصد یعنی موجودہ فوجی قیادت کو دباؤ میں لانے کا ایک حربہ کہا ہے۔ اور پھر اگلے مضامین میں سانحہ کے دیگر پہلوؤں (جن کا ذکر عمران کی ٹویٹ میں نہی ہے ) یعنی سیاسی کشمکش، مارشل لاء پالیسیوں اور علاقائی تناظر کی روشنی میں بھٹو، ایوب اور انڈیا کے کردار کا احاطہ کرنے کی کوشش، تاریخ کے مطالعہ کی روشنی میں کی ہے اور اس ضمن میں پڑھی کتب کے ریفرنس دیے ہیں۔

اس غرض سے اپنی دانست میں کیے وسیع مطالعہ کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے پیچیدہ اور طویل پس منظر رکھنے والے معاملے میں غدار کون کی بجائے ذمہ دار کون ہی کا سوال ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں غداری کا سوال اس لئے بھی نہی بنتا کہ یحییٰ کو غدار کہنا اسی وقت میں مجیب کو بھی غدار کہنے کے مترادف ہے چونکہ یحییٰ سے اس وقت کی دیگر فوجی اور سیاسی قیادت کی شکایت ہی مجیب یا بنگالیوں کو حد سے زیادہ رعائتیں دینے کی تھی۔ بہرحال سانحہ میں مرکزی رول رکھنے والے کرداروں کی ذمہ داری کا ایک ایک کر کے تعین کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے جو سقوط ڈھاکہ کے تمام تاریخی عوامل کو پیش نظر رکھ لینے کے بعد کی جائے۔

لیکن پہلے غداری کو بھی سمجھنا چاہیے کہ جب کسی پر یہ الزام لگایا جاتا ہے تو اس کا معنی اور اس سے مقصود کیا ہوتا ہے۔ کیا بعد میں غلط ثابت ہوئی حکومتی پالیسی چاہے عسکری ہو یا سویلین غداری گنی جا سکتی ہے؟ اس ضمن میں کیا ایوب کا پاکستان میں مارشل لاء لگانا یا بھٹو کا قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے انکار یا مجیب کے انڈیا کے ساتھ خفیہ رابطے اور چھ نکات پر لچک نا دکھانا غداری گنا جا سکتا ہے؟ اور کیا یحییٰ کا مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دینا غداری تھا؟ بظاہر کسی کو غدار قرار دے دینے کا مقصد تو یہ ہی ہے کہ اس کو جلا وطنی یا سزائے موت دے دی جائے اور چونکہ یحییٰ کے مرنے کے بعد ایسا ممکن نہی تو عمران کے مطابق اس کو پاکستان کی تاریخ میں اب بطور غدار گنا جانا چاہیے۔

جنرل یحییٰ پر دو الزامات ہیں ؛ پہلا مجیب کو اقتدار منتقل نا کرنا یا خود اقتدار میں رہنے کی خواہش رکھنا اور دوسرا اپنی کمان میں ہوئے مشرقی پاکستان کے فوجی آپریشن میں معصوم بنگالیوں کا قتل اور ریپ۔ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ نے بھی یحییٰ کی اپنے اقتدار کو کسی بھی طرح طوالت دینے کی نیت کی طرف ہی اشارہ کیا ہے۔ لیکن میرے خیال میں اس کی نیت کی بجائے اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ اس امر میں کوئی شک نہی چھوڑتا کہ اس نے ممکن حد تک سیاسی مفاہمت کرانے کی کوشش کی تھی۔ جہاں تک مشرقی پاکستان میں بدامنی پر قابو پانے کے لئے شروع کیے گئے آپریشن کا تعلق ہے تو سب سے بڑے الزام کے بارے میں سرمیلا بوس اپنی کتاب میں لکھتی ہے کہ ’پاکستان کی فوج پر جینوسائیڈ کے الزامات میں کوئی حقیقت نہیں اور اگر مشرقی پاکستان میں اقوام متحدہ کی تعریف کے مطابق کوئی جینوسائیڈ ہوا تو وہ مکتی باہنی کی طرف سے تھا جس نے چن چن کر نان بنگالیوں کو قتل کیا‘ ۔

شیخ مجیب کے بارے میں پاکستان میں آج تک ایک رومانوی تصور موجود ہے کہ وہ پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتا تھا اور اس بات میں حقیقت ہو سکتی ہے مگر یہ بھی کسی کی (خفیہ) نیت پر تبصرہ ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت کے پاکستان میں پچھلی دہائیوں کی حکومتی پالیسیاں بنگالی لیڈرشپ کو اس بات پر قائل کر چکی تھیں کہ اب خود مختاری ہی ان کا احساس محرومی ختم کرے گی اور یہ تصور نیا تھا بھی نہیں بلکہ اس کی بنیاد تو انیس سو چالیس کی قرارداد لاہور میں ہی موجود تھی۔ مجیب نے اپنے چھ نکات کو الیکشن سے پہلے تو خود ہی ایک سیاسی حربہ کہا تھا لیکن الیکشن میں غیر متوقع کامیابی نے اس کی پوزیشن میں لچک اس حد تک ختم کر دی کہ وہ یحییٰ سے آخری مذاکرات کے دوران اپنی گاڑی پر بنگلہ دیش کا جھنڈا لگا کر آتا تھا جبکہ اس سب سے پہلے اس کے انڈیا سے پوشیدہ تعلقات تو حکومت کے علم میں تھے ہی۔

ذوالفقار علی بھٹو کا رویہ انیس سو ستر کے الیکشن نتائج کے بعد سب سے زیادہ غیر لچک دارانہ تھا۔ بھٹو نے مغربی پاکستان میں پنجاب اور سندھ میں اکثریتی اور صوبہ سرحد سے صرف ایک سیٹ جیتی تھی جو تعداد بہرحال وفاق میں حکومت بنانے کے لئے ناکافی تھی۔ مجیب کے پاس البتہ واضح عددی برتری تھی اور مغربی پاکستان کی دوسری چھوٹی پارٹیاں عوامی لیگ سے اتحاد میں بھی شامل ہونے کو تیار تھیں۔ بھٹو کے لئے حکومت نا بنا سکنے یا اس کا حصہ نا ہونے میں ایک مسئلہ اپنی نوزائیدہ سیاسی پارٹی کی بقا کا بھی تھا جس کے ارکان کا پارٹی چھوڑ کر حکومتی اتحاد میں جا ملنے کا بہت امکان تھا۔ یہی اندیشہ بھٹو کی اس دھمکی کے پیچھے تھا کہ میری پارٹی کا کوئی رکن اگر قومی اسمبلی کے بلائے اجلاس میں شرکت کے لئے ڈھاکہ گیا تو میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔ اسی طرح کی اس کی ایک کوشش مجیب کو شرکت اقتدار کے لئے راضی کرنے کی تھی یا یہ مطالبہ کہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں دو علیحدہ حکومتیں اور وزیراعظم مقرر کر دیے جائیں۔

جنرل ایوب نے ایک سیاسی بحران کے درمیان اقتدار تو سنبھالا مگر اس کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھ دینے والا کہا جا سکتا ہے۔ انیس سو چھپن کے آئین میں بنگالی زبان کو سرکاری حیثیت مل گئی اور مشرقی پاکستان کی لیڈر شپ اس آئین پر متفق ہو چکی تھی جس کے تحت دو سال میں پہلے عام انتخابات کا انعقاد ہونا تھا۔ ایوب نے اس آئین کو ختم کیا اور جمہوریت کے مروجہ طریقہ کار سے ہٹ کر بنیادی جمہوریتوں کے سسٹم کا نفاذ کیا جس نے بنگالیوں میں محرومی کے احساس کو پہلے سے بھی بہت بڑھا دیا۔ حالانکہ اس دور میں متعارف ہوئے پانچ سالہ اقتصادی منصوبوں نے مشرقی پاکستانیوں کی فی کس آمدنی بڑھائی مگر انیس سو پینسٹھ میں پہلے متنازع الیکشن اور پھر انڈیا سے جنگ جس میں ملک کا دفاع صرف مغربی پاکستان تک ہی محدود تھا نے مجیب کے لیے چھ نکاتی مطالبہ کرنے کا موقع بنا دیا۔

جہاں تک مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں انڈیا کے کردار کا تعلق ہے تو ایک دشمن ملک سے کسی موقع کا فائدہ اٹھا لینے کی توقع ہی رکھنی چاہیے۔ انڈیا نے مشرقی پاکستان میں پاکستان کی فوج سے سرنڈر کروا کر ایک روایتی دشمن کو ہزیمت سے دوچار تو کر دیا لیکن اس عمل کے دوران بنگالی لیڈرشپ کو نظر انداز کر کے اور بعد میں مجیب اور عوامی لیگ کی سیاست پر اثر انداز ہو کر اپنے لئے ایسی مخالفت بھی پیدا کر لی جس کے اثرات بنگلہ دیش کی سیاست پر آج بھی پڑ رہے ہیں۔ تازہ واقعہ میں بنگلادیشی سٹوڈنٹس نے عوامی لیگ کی حکومت کو سٹریٹ پاور سے ختم کر دیا ہے اور پورے ملک سے مجیب کی نشانیاں جیسے تصویریں مٹا اور مجسمے توڑ دیے گئے ہیں۔

اب اگر اس سانحہ کے کرداروں کے تاریخی مقام کا ایک جائزہ لیا جائے تو شیخ مجیب شاید بنگلہ دیش میں اپنی وہ حیثیت کھو دے گا جو عوامی لیگ کی حکومت اسے دیتی آئی ہے مزید برآں آنے والی نئی حکومتی پالیسی میں متوقع تبدیلیاں انڈیا کے لئے بھی ایک بڑا سیٹ بیک ہو سکتی ہیں۔ جبکہ ادھر پاکستان میں فیلڈ مارشل ایوب جو کچھ دہائیوں پہلے تک بھی مقبول تھا اب زیادہ تر بھلا دیا گیا ہے۔ ذوالفقار بھٹو کی پارٹی اب کچھ عرصہ سے سندھ تک محدود ہے، اس کی نیشنلائزیشن پالیسی اور آئینی ترمیموں کا نقصان پاکستانی اب تک اٹھا رہے ہیں اور شاید اس کا عدالتی قتل ہی اب تک اس کے ذکر کو قائم رکھے ہے ورنہ وہ بھی ماند پڑ جاتا۔ جبکہ جنرل یحییٰ کا دوبارہ ذکر عمران کی ٹویٹ ہی کا مرہون منت ہے ورنہ اس کی ذات سے بھی کوئی ایسا کارنامہ نہیں جڑا جسے یاد رکھا جائے۔

عمران کی ٹویٹ سے تحریک پائے میرے مضامین کے سلسلے کا یہ آخری مضمون ہے۔ سقوط ڈھاکہ کی ذمہ داری کے تعین کی اس کوشش میں مجھے تو سب ہی کم و بیش برابر کے حصہ دار لگے، کسی ایک کو عمران کی طرح غدار یا ذمہ دار قرار دے دینا کسی مقصد کو حاصل کرنے میں تو مددگار ہو سکتا ہے لیکن انصاف نہیں۔ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ نے بھی یحییٰ، مجیب، بھٹو اور ان کے حواریوں کو مختلف حوالوں سے ذمہ دار ٹہرایا ہے اور کسی ایک شخص پر سانحہ کی پوری ذمہ داری نہیں ڈالی۔ میں نے سقوط ڈھاکہ کا تفصیلی جائزہ لینے کے دوران مندرجہ ذیل کتابوں کو بھی پڑھا ہے۔

آ ہسٹری آف بنگلہ دیش؛ و لم وین شینڈل
پاکستان وارز این آلٹرنیٹو ہسٹری؛ طارق رحمان
پاکستان آ گیریزن سٹیٹ؛ اشتیاق احمد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments