لاہور کے ادبی درویش زاہد ڈار سے ملاقاتیں


محترمی و معظمی حامد یزدانی صاحب!

میری آپ کے شہر لاہور کے کئی شاعروں ’ادیبوں اور دانشوروں سے بہت سی ملاقاتیں ہوئیں لیکن منیر نیازی کی ملاقات کی طرح اکثر اوقات وہ ملاقاتیں مختصر تھیں لیکن آج میں آپ کو ایک ایسی شخصیت کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جن سے میری اسی کی دہائی میں تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں اور میں انہیں ایک ادبی درویش سمجھتا ہوں۔ اس ادبی درویش کا نام زاہد ڈار ہے۔ اگر کوئی اردو کا ادیب پاک ٹی ہاؤس اور لاہور کے ادیبوں کے بارے میں ایک کتاب لکھنا چاہے تو وہ کتاب میری درویشانہ اور طالب علمانہ رائے میں زاہد ڈار کے بارے میں باب کے بغیر نامکمل ہوگی۔

حامد یزدانی صاحب!

بعض انسانوں سے انسان چند گھنٹوں میں ہی اندر سے جڑ جاتا ہے اور بعض لوگوں سے برسوں کی ملاقات کے بعد بھی تکلفات کی دیواریں حائل رہتی ہیں۔ انسان اندر سے جڑ جائے تو ملاقاتوں کا اشتیاق بھی بڑھ جاتا ہے اور چھوٹی چھوٹی بے ربط باتوں میں بھی لطف آنے لگتا ہے۔ میں زاہد ڈار سے پہلی ملاقات میں ہی اندر سے جڑ گیا تھا۔ دوسری ملاقات کے لیے میں صبح اٹھا اور پاک ٹی ہاؤس کی طرف ایسے بڑھا جیسے ایک لوہے کا ٹکڑا مقناطیس کی طرف کشاں کشاں بڑھتا ہے۔ زاہد ڈار اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھے کسی کتاب کا سنجیدگی سے مطالعہ کر رہے تھے۔
مجھے دیکھا تو بڑے تپاک سے ملے۔ چائے کا دور چلا اور بے تکلفی بڑھی تو میرے تجسس نے اپنے پاؤں پھیلائے۔

’کیا میں آپ سے ایک ذاتی سوال پوچھ سکتا ہوں؟‘
’ضرور پوچھیں آپ ایک ماہر نفسیات ہیں آپ کے لیے میں ایک کھلی کتاب ہوں۔ ‘
میں نے پوچھا ’آپ کام نہیں کرتے تو زندگی کیسے گزارتے ہیں؟ روزانہ کا خرچ کہاں سے آتا ہے؟‘ زاہد ڈار کو شاید ایسے سوال کی توقع نہ تھی۔ چند لمحے خاموش رہے پھر کہنے لگے ‘میں اپنے آبائی گھر میں رہتا ہوں۔ میرے بہن بھائیوں نے مجھے ایک کمرہ دے رکھا ہے۔ میں اس پر قانع ہوں۔ وہ مجھے کھانا بھی دیتے ہیں اور روزانہ پچیس روپے بھی۔ وہ سب کالجوں میں پروفیسر ہیں۔

میں ہر روز پاک ٹی ہاؤس صبح دس سے گیارہ بجے اور شام پانچ سے چھ بجے آتا ہوں۔ آدھا سیٹ چائے صبح اور آدھا سیٹ چائے شام۔ ایک زمانہ تھا آدھے سیٹ کی قیمت دو روپے ہوا کرتی تھی پھر تین روپے ہو گئی اور اب چار روپے ہے۔ ایک روپیہ ٹپ دیتا ہوں۔ اس طرح پانچ روپے صبح اور پانچ روپے شام۔ گیارہ روپے روز کے سگریٹ پیتا ہوں۔ یہ ہوئے اکیس روپے۔ ہر روز کے باقی بچے چار روپے۔ ان سے مہینے میں ایک دو کتابیں خرید لیتا ہوں۔ ویسے آج کل میری جیب گرم ہے کیونکہ ’سنگ میل پبلشر‘ میری شاعری کی کتاب ’تنہائی‘ چھاپ رہے ہیں۔ نیاز احمد صاحب نے مجھے تین ہزار روپے دیے ہیں۔ اس لیے اب میں نے چند نئے کپڑے خریدے ہیں۔
ہم ابھی یہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ سعید احمد مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے چلے آئے اور چائے کا ایک اور دور چل پڑا۔

میں ایک دفعہ پھر زاہد ڈار کی ذاتی زندگی کی طرف لوٹا۔
’کیا آپ کبھی کسی عورت کے ساتھ رہے ہیں؟‘میں زاہد ڈار کی محبوبہ تنہائی سے متعارف ہونا چاہتا تھا۔ ‘نہیں کبھی نہیں۔ بیس پچیس سال پیشتر مجھے ایک عورت ملی تھی۔ وہ مجھے پسند آ گئی تھی۔ میں اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ اس کی شرط تھی کہ میں ملازمت کروں۔ چنانچہ اس عورت کی محبت کی خاطر میں نے زندگی میں پہلی بار کلرکی شروع کر دی لیکن وہ کلرکی دو تین مہینوں سے آگے نہ چل سکی۔ آخر میں نے اس عورت سے کہا ’میری زندگی کا پہلا مقصد کتابیں پڑھنا ہے اور دوسرا مقصد تم سے شادی۔ میں نے جب سے نوکری شروع کی ہے میں یکسوئی سے کتابیں نہیں پڑھ سکتا۔ چنانچہ میں نے نوکری چھوڑ دی اور اس عورت نے مجھے چھوڑ دیا۔ اب میں کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ’زاہد ڈار کی یہ باتیں سن کر سعید احمد نے چھلانگ لگائی ‘اب بھی کچھ بگڑا نہیں۔ اب بھی تم شادی کر سکتے ہو‘ ۔ ‘اکیاون برس کی عمر میں۔ ‘ زاہد ڈار نے اپنی کنپٹیوں پر سفید بالوں کو چھوا۔ اس شہر میں بہت سی پینتیس چالیس سالہ عورتیں ہیں جو شادی کرنا چاہتی ہیں وہ خود کالجوں میں پڑھاتی ہیں۔ انہیں دولت نہیں صرف شوہر چاہیے۔ سعید احمد کی باتیں سن کر زاہد ڈار سوچ میں پڑ گئے۔
’اگر ارادہ ہو تو میں تحقیق کروں۔ ‘سعید احمد نے مشورہ دیا۔ زاہد ڈار خاموش رہے۔

اتنے میں ایک دراز قد ’شلوار قمیص جیکٹ میں ملبوس لمبے لمبے بالوں والے صاحب ہاتھ میں بریف کیس لیے ہماری میز پر آ بیٹھے زاہد ڈار نے ان کا مجھ سے تعارف کروایا ’یہ ناصر زیدی ہیں۔ اسلام آباد میں رہتے ہیں۔ صدر اور وزیر اعظم کی تقریریں لکھتے ہیں۔ ناصر زیدی نے مجھے اپنا کارڈ دیا جس پر لکھا تھا

SPEECH WRITER
’آپ آج کل کیا کر رہے ہیں؟‘ میں متجسس تھا۔ کہنے لگے ’میں اسلام آباد میں پاکستانی ادیبوں کی ایک ڈائریکٹری بنا رہا ہوں۔ پھر انہوں نے مجھے ایک فارم دیتے ہوئے کہا ‘آپ بھی اس میں اپنی کتابوں کے نام لکھ دیں۔ ‘
تھوڑی دیر کے بعد بریف کیس سے نکال کر انہوں نے ایک ضخیم کتاب میرے سامنے رکھ دی۔ اس پر لکھا تھا میری “بہترین غزل” یہ کیا ہے؟‘ میں نے پوچھا ’میں اردو کے شاعروں سے ان کی بہترین غزل ان ہی کے ہاتھ سے لکھوا رہا ہوں۔ آپ جس کا نام لیں اس کی غزل اس کتاب میں ہوگی میں نے کہا۔ محسن احسان۔ انہوں نے محسن احسان کی غزل دکھا دی۔ پھر میں نے کہا۔ عارف عبدالمتین۔ انہوں نے عارف عبدالمتین کی غزل بھی دکھا دی۔ ناصر زیدی نے پوچھا۔ ‘آپ نے عارف عبدالمتین کا نام کیوں لیا‘ تو زاہد ڈار نے کہا ‘عارف عبدالمتین خالد سہیل کے چچا ہیں‘۔
’چلیں اس کتاب کے حوالے سے ہمارا ایک اور رشتہ ہو جائے گا‘ ۔ میں نے ناصر زیدی کی کتاب میں اپنے ہاتھ سے وہ غزل لکھ دی جو میں نے غالب کی زمین میں جنوبی افریقہ کے حوالے سے لکھی تھی۔

کالے جسموں کی ریاضت کا مآل اچھا ہے
حکمراں اب نظر آتے ہیں نڈھال اچھا ہے
اونچے میناروں سے دے جا کے اذان جمہور
ہر سیہ شخص جو بن جائے بلال اچھا ہے

تھوڑی دیر کے بعد محفل برخواست ہوئی اور زاہد ڈار اپنے گھر چلے گئے۔
پاک ٹی ہاؤس میں اگلی ملاقات پر میں نے زاہد ڈار سے پوچھا ‘اب آپ نظمیں نہیں لکھتے‘۔ نہیں پچھلے دس سال سے نہیں لکھیں۔ وہ کیوں؟ ’مجھے انسانی ذہن پر رحم آتا ہے۔ ‘ زاہد ڈار نے سگریٹ سلگایا۔ ‘کیا مطلب؟‘دنیا میں پہلے ہی لاکھوں اچھی کتابیں لکھی جا چکی ہیں جنہیں پڑھنے کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ ان حالات میں مزید کتابیں لکھنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ ویسے آپ نے نثری نظمیں لکھنی کب شروع کی تھیں؟

’یہ انیس سو ساٹھ کی بات ہے۔ میں اور انیس ناگی ان دنوں قریبی دوست ہوا کرتے تھے۔ مجھے روایتی قسم کی نظمیں پسند نہیں تھیں۔ میں ذاتی قسم کی نظمیں لکھنا چاہتا تھا۔ اس لیے نثری نظمیں لکھنے لگا۔ اب میں ڈائری لکھتا ہوں۔ ‘آپ ڈائری میں کیا لکھتے ہیں؟بس اپنے جذبات اور کیفیات۔ میں واقعات پر زور نہیں دیتا۔ میری زندگی میں نئے تجربات بہت کم ہوتے ہیں۔ گھر سے پاک ٹی ہاؤس اور پاک ٹی ہاؤس سے گھر۔ میں پچھلے بیس برس سے ڈائری لکھ رہا ہوں لیکن ایسا لگتا ہے میں اپنے آپ کو دہراتا رہتا ہوں۔ دس سال پہلے کی ڈائری پڑھتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے دس دن پہلے لکھی ہو۔ سنگ میل کے پبلشر نیاز احمد میری ڈائری چھاپنا چاہتے ہیں لیکن میں اپنی ڈائری کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ اس لیے نہیں چھپواتا’۔

پھر جاوید شاہین آئے اور مجھے اور زاہد ڈار کو اپنے گھر لے گئے۔ ہم نے ان کی بیوی اور بچوں کے ساتھ لنچ کھایا۔ میں نے بڑی مدت کے بعد آلو والے پراٹھے کھائے مزا آ گیا۔
پھر جاوید شاہین نے اپنی بیگم سے کہا ’زاہد ڈار کی خواہش ہے کہ آپ انہیں ایک دن گجریلا کھلائیں‘۔ ضرور کھلائیں گے یہ تو کوئی بڑی فرمائش نہیں ہے‘۔ لنچ کے بعد جاوید شاہین نے اپنی چند غزلیں اور نظمیں سنائیں۔ آپ بھی ان کی ایک نثری نظم سن لیں۔
۔
لوگوں کا نیند میں چلنا
۔
لوگوں کا نیند میں چلنا
اور دریا کی طرف جانا
میرے دل میں وہم لاتا ہے
مجھے ڈر میں گرفتار کرتا ہے
اور میں ساری رات جاگتا رہتا ہوں
ساری رات جاگتا رہتا ہوں
دریا کے ساتھ ساتھ
دیوار چنتا رہتا ہوں
اور سوچتا رہتا ہوں
کہ سارے شہر کا
ایک ہی مرض میں مبتلا ہو جانا
کھلے پانی کی طرف چل پڑنا
کس چیز کی علامت ہے؟
کیا ظاہر کرتا ہے؟
صبح ہونے پر
لوگوں سے پوچھتا ہوں
وہ حیرت سے مجھے تکتے ہیں
میری باتوں پر ہنستے ہیں
میری محنت پر رشک کرتے ہیں
پھر مجھے دکھانے پڑتے ہیں
دریا تک آئے ہوئے ان کے نقش قدم
دیواروں پر بنے ہوئے ان کے ہاتھوں کے نشاں
۔
حامد یزدانی صاحب

میری زاہد ڈار سے جب بھی ملاقات ہوتی مجھ پر ان کی شخصیت کا ایک نیا رخ اجاگر ہوتا۔ کہنے کو تو وہ ایک تنہا زندگی گزار رہے تھے لیکن ان کی تنہائی میں بھی ایک انجمن آباد تھی۔ ایک صبح پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھے سگریٹ جلاتے ہوئے کہنے لگے ‘دیکھو سہیل کتنے دن ہو گئے بارش نہیں ہوئی۔ درختوں کے پتوں پر (انہوں نے پاک ٹی ہاؤس کے باہر ایک گھنے درخت کے پتوں کی طرف اشارہ کیا) کتنی گرد جمع ہو گئی ہے۔ بارش ہوگی تو وہ دھل جائیں گے اور اچھے لگیں گے۔‘ اور میں سوچنے لگا کہ اس شہر کے درختوں کے پتوں پر ہی نہیں ’یوں لگتا ہے چہروں‘ کپڑوں اور ذہنوں پر بھی گرد جم چکی ہے جو نئے جذبوں نئے ولولوں اور نئے خوابوں کی بارش کی راہ تک رہی ہے۔ انسانوں کے چہرے دھل جائیں تو ان پر نکھار آ جاتا ہے اور ذہن دھل جائیں تو تازہ افکار کی خوشبو چاروں طرف پھیل جاتی ہے۔

حضور والا!
آئیں آج آپ کو زاہد ڈار کی کتاب۔ تنہائی۔ سے ایک نظم سناؤں۔
۔
میں ستاروں اور درختوں کی خاموشی کو سمجھ سکتا ہوں
میں انسانوں کی باتیں سمجھنے سے قاصر ہوں
میں انسانوں سے نفرت نہیں کرتا
میں ایک عورت سے محبت کرتا ہوں
میں دنیا کے راستوں پہ چلنے سے معذور ہوں
میں اکیلا ہوں
میں لوگوں میں شامل ہونا نہیں چاہتا
میں آزاد رہنا چاہتا ہوں
میں خوش رہنا چاہتا ہوں
میں محبت کے بغیر خوش نہیں رہ سکتا
میں ایک عورت کی محبت کا بھوکا ہوں
میں ایک عورت کی محبت نہیں پا سکا
میں تنہائی سے نکلنے کا راستہ نہیں پا سکا
میں دکھ میں مبتلا ہوں
میں ایک عورت کو سمجھنے سے قاصر ہوں
میں خاموشی کی آوازوں کو سمجھ سکتا ہوں
۔
حامد یزدانی صاحب!

لاہور کے ادبی درویش زاہد ڈار جو انیس سو چھتیس میں پیدا ہوئے تھے دو ہزار اکیس میں پچاسی برس کی عمر میں اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی نظمیں اردو ادب کے لیے خوبصورت تحفے ہیں اور ریختہ ویب سائٹ میں آج بھی محفوظ ہیں۔

قبلہ و کعبہ!

آپ کا تو لاہور شہر سے ایک خصوصی رشتہ اور گہرا تعلق ہے۔ وہ شہر آپ کے دل میں بستا ہے۔ آپ کی ضرور لاہور کے بہت سے شاعروں ادیبوں اور دانشوروں سے تفصیلی ملاقاتیں ہوئی ہوں گی۔ آپ اپنی کسی ادبی دوستی کے بارے میں کچھ تفصیل سے بتائیں تا کہ ادبی محبت ناموں کا یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہے۔

آپ کا مداح
خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 726 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments