انٹر نیشنل لائلپور ہسٹری کانفرنس اور مقامی شناخت کا بیانیہ


ادب، سیاست اور تاریخ کے طالب علم کے لئے تقسیمِ ہندوستان کے پچھتر سال بعد بھی یہ سوال اہم ہے کہ ہمارا قومی بیانیہ کیا ہو؟ لہٰذا ہم اس کی تلاش میں سر گرداں ہیں۔ تقسیمِ ہندوستان کے فوراً بعد کہا گیا کہ چونکہ ہندوستان میں ہندو اکثریت میں ہیں اس لئے عین ممکن تھا کہ وہ مسلمانوں کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی حقوق غصب کر لیتے، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے الگ وطن ضروری تھا۔ اس لیے آل انڈیا مسلم لیگ نے پاکستان بنایا۔ پھر 1948 میں قراردادِ مقاصد آئی تو مجھ جیسوں کو معلوم ہوا کہ ہمیں اپنے دین اور اسلامی ثقافت کے تحفظ کے لئے الگ ملک کی ضرورت تھی۔ یوں ہم سیاسی اور اقتصادی حقوق سے دینی اور ثقافتی حقوق کے تحفظ کے بیانیے میں داخل ہو گئے۔ وہ بیانیہ جو 11 اگست 1947 ء کی قائد اعظم کی تقریر میں موجود تھا وہ کہیں تاریخ کی تاریک راہوں میں گم ہو گیا اور ہم نے ایک نئے بیانیے کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا۔

ملک کی تاریخ میں چار بار خاکی وردیوں نے شب خون مارا اور ہم بار بار قومی بیانیہ بدلتے رہے۔ اب مجھ جیسے کم علم اور سادہ لوح کو پتا ہی نہیں چلتا کہ ہمارا اصل بیانیہ کیا ہے۔ ہمیں تاریخ اس طرح پڑھائی گئی کہ عرب، افغان اور ترکوں کی تاریخ کو ہم اپنی تاریخ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اگر کوئی مجھ جیسا اپنی تاریخ، اپنے خطے میں تلاش کرنے کی کوشش کرے تو اسے نہ جانے کیا سے کیا سمجھ لیا جاتا ہے۔ مہر گڑھ، ہاکڑا، ملتان، موہنجوداڑو، ہڑپہ اور گندھارا میں اگر میں اپنی شناخت تلاش کروں تو میرے ارد گرد باریش، سفید، سبز اور سیاہ پگڑیوں والے مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں اور میں اپنے بیوی بچوں اور بوڑھے والدین کو ذہن میں لا کر سہم سا جاتا ہوں اور میری زبان گنگ ہو جاتی ہے۔

میں اس باریش مخلوق کو کیسے سمجھاؤں کہ مذہب کی تبدیلی سے قومی شناخت نہیں بدلتی۔ حملہ آور، مسلمان ہوں یا غیر مسلم، وہ حملہ آور ہوتے ہیں، وہ مال کی لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں انھیں نظریات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ لٹیروں کو کسی صورت ہیرو نہیں کہا جا سکتا۔ سونے پہ سہاگہ یہ بھی ہے کہ ہمارا تعلیمی نصاب بھی کچھ اس طرح تشکیل دیا گیا ہے کہ ایسی بات سمجھانا تو کجا اب اس کا ذکر بھی ممکن نہیں رہا۔ اگر کوئی سادہ لوح ایسی بات کہہ بھی دے تو لبرل فاشسٹ یا ایسی کوئی بدنامِ زمانہ اصطلاح کے سہارے معتوب ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ مذہبی انتہا پسند بیانیے کے خلاف تو مفتی سرفراز نعیمی اور جاوید احمد غامدی جیسے مذہبی سکالرز بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

اس ساری صورتِ حال کے باوجود ایک بات طے ہے کہ قومی شناخت، مذہبی اور طبقاتی شناخت سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ مذہب اور نسل کی کوکھ سے قوم پرستی جنم لے اور اس سے قومی شناخت قائم ہو۔ جب قومی شناخت پختہ ہو جاتی ہے تو پھر وہ مذہب سے ماورا ہو جاتی ہے اور یہ بھی ہمارے ذہن میں رہنا چاہیے کہ شناخت ادراک اور شعور کی مرہونِ منت ہوتی ہے اور اگر عوام میں قومی شناخت کا شعور ہی نہ ہو تو پھر قومی شناخت کیسی؟

میرا خیال ہے کہ شناخت کی تبدیلی درحقیقت شناخت کے بحران کی علامت ہے۔ تاریخ کا مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ جب آباد کاروں نے نو آبادیوں میں اپنی جھلک دکھائی تو مقامی لوگ خود کو نفسیاتی طور پر کم تر تصور کرنے لگے۔ مفتوح اقوام نے جب قومیت کا نظریہ اپنانا چاہا تو وہ آباد کاروں کی نقالی میں لگ گئے۔ یا مقامیوں کی قوم پرستی آباد کاروں کے ردِ عمل کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ اس کیفیت میں اس احساس نے شدت اختیار کر لی کہ وہ تہذیبی اور ثقافتی طور پر اپنے آقاؤں سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ انھیں ان کے برابر آنے کے لئے ان جیسا بننا ہو گا۔ سامراجی قوموں کے برابر آنے کی خواہش ہی محکوم یا تیسری دنیا کے ممالک کی اقوام کے شناختی بحران کا سبب ہے۔

گزشتہ دنوں فیصل آباد میں ”انٹرنیشنل لائلپور ہسٹری کانفرنس“ کا انعقاد کیا گیا جس میں دنیا بھر سے مندوبین نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں لائلپور کی تاریخ کو کھوجنے کی کوشش کی گئی اور بین الاقوامیت یا عالمگیرت کے مقابلے میں اپنی شناخت برقرار رکھنے کے لئے علاقائیت پر زور دیا گیا۔ لائلپور کی ایک سو بیس سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب اس سطح پر علاقائی اور قومی شناخت کی بات ہو رہی تھی۔ یہ کانفرنس دو دن تک جاری رہی جس میں فیصل آباد کی کمشنر سلوت سعید نے چیف گیسٹ کی حیثیت سے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا انعقاد لائلپور ینگ ہسٹورین کلب اور لائلپور لٹریری کونسل کے باہمی اشتراک سے ممکن ہوا جس میں ڈاکٹر توحید احمد چٹھہ اور مصدق ذوالقرنین کی کوشش کو داد نہ دی جائے تو بخل ہو گا۔ اس کانفرنس میں مذہبی رواداری، مابعد ہجرت صورت حال، نو آبادیاتی پنجاب میں مزاحمتی تحریکیں، لائلپور کی اشتمالی شناخت، لائلپور کی ثقافتی اور سماجی شناخت، تعلیمی رجحانات، مقامی تاریخ کو معرضِ تفہیم میں لانے کے لیے تحقیقی طریقہ کار، لائلپور میں ادبی سیاست اور لائلپور کے ادبی اور تاریخی ورثے جیسے اہم موضوعات زیرِ بحث آئے۔ کانفرنس کی خاص بات، کینیڈا، فرانس، جرمنی اور برطانیہ جیسے ممالک کی یونیورسٹیوں میں جنوبی ایشیائی مطالعات کے ماہرین کی شرکت تھی جن کے مقالات کو کتابی صورت میں شائع کیا جائے گا تاکہ بعد میں آنے والے ادب، سیاست، صحافت اور تاریخ کے طالبِ علموں کے لیے ایک حوالہ رہے۔ ڈاکٹر توحید احمد چٹھہ اگر اسے عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ لائلپور کی تاریخ میں ایک سنگِ میل ہو گا جو انھیں علمی حلقوں میں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments