کینیڈا کے برساتی نالے، بلوچستان کے کاریز، کوہ سلیمان کے رود کوہی


طوفانی بارش تھم چکی تھی دو گھنٹے میں تین انچ سے زیادہ بارش ٹورنٹو ائر پورٹ کا ریکارڈ بنا گئی۔ اور میں چسکا لینے گھر کے سامنے سڑک پار بنے برساتی نالے سے پانی کے بنائے گئے وسیع مصنوعی تالاب کے بند پہ کھڑا نظارے کا لطف اٹھا رہا تھا۔ تالاب کے گرد اگائے گئے قدرتی ماحول دکھاتے پودے، جھاڑ جھنکاڑ، سرکنڈا قسم یا پھول دار خود رو پودے، جھاڑیاں اور بلند بالا اور چھوٹے درختوں کے اس بالکل قدرتی ماحول دکھتے وسیع علاقے میں تالاب کے کنارے اونچی نیچی بل کھاتی پگڈنڈی کا تمام نشیبی حصہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ میرے گھر کی اوپر والی منزل کی کھڑکی سے یہ پورا تالاب اور ارد گرد کا دلکش نظارہ بارش یا برف باری یا بارش کے بعد دھلا ہوا اور شدید سردی میں مکمل برف کا میدان بن چکا ناقابل بیان حد تک دلکش ہو جاتا ہے۔

میں گھوم کے ساتھ والی سڑک پر برساتی نالے کے پل پہ کھڑا دیکھنے لگا۔ یہ بظاہر چند فٹ چوڑا گہرائی میں چلتا نالہ اس وقت بارش کے شور مچاتے بپھرے پانی کی وجہ سے خاصا چوڑا تھا۔ مگر اس چھوٹے نالے کے دونوں طرف تنگ سے تنگ بھی سو فٹ جگہ چھوڑی ہوئی اور دہائیوں پرانے درختوں جھاڑیوں اور سبزہ بھرا ماحول ہے۔ یہ کٹاؤ سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہ چھوٹا سا نالہ اور اس جیسے بے شمار نالے نیاگرا سے شروع ہو کر دو تین سو کلو میٹر شمال کو پھر مشرق کو مڑتی بروس ٹریل کہلاتی ایک محفوظ سرسبز جنگل نما پٹی کے درمیانی علاقہ فولکس آف کریڈٹ اور بلیو فاؤنٹین قصبے کے پہاڑی اور چٹانی جنگلوں سے نکلتے، جنوب کو چلتے ایک دوسرے میں مدغم ہوتے چند بڑے نالوں کی صورت اختیار کرتے ٹورنٹو، مسی ساگا اور دیگر آبادیوں کے درمیان سے گزرتے جھیل اونٹاریو کی آغوش میں جا سکون پاتے ہیں۔ ٹورنٹو میں جہاں یہ بہت گہرائی میں پہنچتے ہیں بعض جگہ ان کے ساتھ ایک کلو میٹر تک بھی دونوں طرف محفوظ علاقہ جنگلوں اور قدرتی ماحول بنتے سبزہ کے درمیان پیدل اور سائیکل سواروں کے لئے پختہ پگڈنڈیاں اور باغات لئے ہے۔ یہ پگڈنڈیاں سینکڑوں کلو میٹر تک ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ قدرتی ماحول برقرار رکھتے ان کے اندر سیر اور سائیکلنگ کے لئے پگڈنڈیاں، پارک اور دوسری سیر گاہیں اور اکتوبر میں خزاں کے پتوں کی رنگ اگلتی بہار تو ہے مگر کہیں بھی ایک بالشت بھی زمین کا ٹکڑا آج تک کسی قبضہ مافیا کے ہاتھ نہیں لگ سکا۔ نہ کسی نے لگنے دیا۔

میری چند برس قبل اس تالاب کی دیکھ بھال کرتی بریپمپٹن پارکس اینڈ ہارٹیکلچر شعبہ کی ٹیم کی نگران سے گپ شپ ہو گئی تو اندازہ ہوا عوامی رفاہی راج کیا ہوتا ہے۔ یا اسلامی فلاحی ریاست کے تصور کی عملی تعبیر کا ( سوائے چند سوشل اقدار کے ) نمونہ یہاں کیسے رائج کیا گیا ہے۔ اس نالے سے موٹے پائپ کے ذریعے اس مصنوعی بنائے گئے تالاب میں پانی بھرتا ہے۔ چند مربع میٹر کا ڈیم سمجھ لیجیے، اس میں اوپر تلے چار بڑے چوکور سوراخ ہیں جو سطح کو کم زیادہ کرنے میں مدد گار ہیں۔ ڈھلوان کی طرف بند بنا تالاب اونچے کیے گئے ہیں تالاب کے ارد گرد پیدل چلنے اور سائیکل سواروں کی پگڈنڈی ہے۔ یہ پگڈنڈی تالاب کے گرد لگے خود رو جھاڑ جھنکاڑ، پودوں، سرکنڈوں سے بھرے ماحول کے درمیان سے گزرتی ہے۔ جب زیادہ برسات یا سردیوں کے بعد پگھلتی برف پانی کے ریلے لاتی ہے تو جھیل تک کی لمبائی میں دونوں طرف بنے ایسے تالاب اس پانی سے بھرتے جاتے ہیں اور یوں فلیش فلڈ یعنی اچانک آتے پانی کے ریلے یا سیلاب سے بچاؤ رہتا ہے۔

ہر طرف پھیلا سبزہ ماحولیاتی آلودگی بھی کم کرتا ہے اور سیر کرنے والوں کی روح میں تازگی اور خوشی کا سبب بنتا ہے۔ تالاب کنارے یہی جھاڑ جھنکاڑ اور سبزہ جنگلی اور آبی حیات کی پناہ گاہ اور افزائش کی جگہ اور سرما و گرما کے ابتدا میں شمال یا جنوب کو سفر کرتے پرندوں کی آرام گاہ بھی ہے۔ وہ بتا رہی تھی کہ صرف ایک تالاب کتنا کثیرالمقاصد ہے۔ یہ پورا تالاب اور ماحول سردیوں گرمیوں کے ابتدائی دنوں میں مرغابیوں، کونجوں اور دوسرے پرندوں کی پناہ گاہ بن جاتا ہے اور افزائش نسل کے موسم میں اسی مقصد کے لئے لگایا گیا جھاڑ جھنکاڑ ان کے لئے اڈے اور گھونسلے بن جاتے ہیں اور پھر بطخوں اور مرغابیوں اور دوسرے جانوروں کے بچے اٹکھیلیاں کرتے تیرتے یا اڑتے یا اڑنا سیکھتے اپنا ہی حسن اور دلکشی لئے ہوتے ہیں۔ بتاتا چلوں کہ میری رہائش کے تقریباً تین مربع کلو میٹر کے علاقے میں اسی نالے کے دائیں پانچ ایسے کثیر المقاصد تالاب، پارک اور ایک چھوٹا جنگل موجود ہے۔ چار بچوں کے پارک اور تریپن ایکڑ کا ایلڈوریڈو پارک اور اس میں سے گزرتا کریڈٹ ریور اس کے علاوہ ہیں۔ کئی کئی ایکڑ میں بنے دو مڈل کلاس تک کے سکول تمام سہولیات کے ساتھ پرائیویٹ اداروں سے بہتر تعلیم اور سہولیات سے مزین مفت تعلیم اور مفت بس سروس لئے موجود ہیں۔

پل پہ کھڑے فلاحی مملکت کا یہ رخ یاد کرتے مجھے فون کھولتے خبریں نظر آنے لگیں کہ فلاں سڑک یا چوک یا انڈر پاس یا آبادی پہ سیلابی ریلا سڑکوں کے اوپر سیلاب بنا کھڑا ہے۔ ٹریفک جام ہے یا گاڑیاں پھنسی ہیں۔ مجھے خیال آیا کہ ابھی میرا بیٹا گھر سے نکلا ہے اور ان ہی مبینہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے گزر کے جانا ہے۔ فون ملایا تو پتہ چلا اسے رستے میں کسی انڈر پاس یا سڑک پہ پانی نظر نہیں آیا نہ سڑک بند ملی۔ اس ایک دو گھنٹے میں سیور سسٹم سارا پانی سمیٹ چکا تھا۔ اور مجھے اسی صبح سوشل میڈیا پر اور ٹی وی پہ دیکھے لاہور، ملتان، پنڈی اور دیگر شہروں کے انڈر پاس، سبزی منڈی، انڈیا کے بڑے شہر بھٹنڈہ وغیرہ کی نہر بنی سڑکوں کے نظارے دیکھتے وہ دن یاد آ گئے جب اسی کی دہائی میں سرگودھا روڈ فیصل آباد بس سٹینڈ کے سامنے اپنی دکان سے بارشوں کے دوران گڑھے بنی سڑک کے اوپر سے گزرتی بند ہو چکی کاروں اور الٹے رکشوں اور پھنس چکے تانگوں کی سواریاں میرے ملازم اتار کے لاتے یا کبھی سامان اتارتی رکھتی گدھا گاڑی کار کے پاس بھجوا خواتین اور بچوں کا نکالا جاتا۔

وہیں کھڑا سوچ رہا تھا کہ ہمارے ہاں سیلاب کے بچاؤ کے مستقل انتظام یا کم از کم نقصان کو محدود رکھنے کے انتظامات کا بیڑا کس طرح غرق کیا جاتا ہے۔ اچانک جانے کہاں سے ایک لفظ ”کاریز“ میرے ذہن میں گونج اٹھا۔ تہتر سال قبل پانچویں جماعت کے جغرافیہ میں پڑھا یہ لفظ یاد کرا گیا کہ قدیم زمانے سے بلوچستان میں پہاڑوں سے اترے بارش کے پانی کو زرخیز زمینوں تک لانے کے لئے زیر زمین نالوں کا بندوبست تھا۔ کیا اسے وسیع کیا گیا کہ نہیں۔ گھر آ کے میں معلومات کی زنبیل انٹرنیٹ، گوگل وغیرہ ٹٹول رہا تھا۔ بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ اور وکی پیڈیا گوگل وغیرہ نے جو اگلا وہ ایک من حیث الجماعت خود کش قوم کے خود کو پستی کی گہرائیوں میں لے جانے کے سوا کچھ نہیں بتا رہا تھا۔

کاریز بارش کے پانی کے منبع پہاڑی علاقے کے قریب بنائے گئے ایک دوسرے سے مناسب فاصلے اور ڈھلوان کی طرف کنویں تھے جن کو زیر زمین خاصی کھلی سرنگوں کے ذریعے ایک دوسرے سے مربوط کر کے کئی کئی کلو میٹر دور تک لے جا کر آبپاشی کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ شدید گرمی میں بھی اس پانی کے اُڑ جانے یا نیچے جذب ہونے کے امکان کم تھے۔ امداد باہمی کی بنیاد پر بنائے گئے ان کاریز کا انتظام اور صفائی اور پانی کی تقسیم حصہ رسدی پہ قائم تھا۔

تین ہزار سال قبل ایران کے انجینئروں کا شروع کردہ یہ نظام بلوچستان میں کئی صدیوں قبل پہنچا اور پچاس کی دہائی میں چھ ہزار تک ان کی تعداد تھی۔ انگریزوں نے ان علاقوں کو محفوظ علاقے قرار دیتے ہوئے ارد گرد کسی ایسی تعمیر یا ٹیوب ویل پہ پابندی لگا رکھی تھی جو ان کے پانی کی روانی یا نقصان کا باعث ہوں۔ ظاہر ہے کہ زیادہ بارشوں کے زمانہ میں خاصی حد تک یہ سیلاب کی شدت میں کمی کا بھی ذریعہ تھے۔ جبکہ دوسرا ذریعہ برساتی نالے تھے۔ پھر پاکستان میں محب وطن حکومتوں اور خادمان قوم سیاستدانوں کا دور شروع ہو گیا۔ خصوصاً ستر کی دہائی شروع ہونے والے آپا دھاپی اور قبضہ گیر اور ہر ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر قربانی کے جذبہ کے نتیجہ میں یہ کاریز گھٹتے گھٹتے دو فیصد یعنی ایک سو بیس کے قریب رہ گئے۔ مستونگ ضلع میں تین سو ساٹھ میں سے تین چار اور تحصیل کردگاپ میں ایک باقی ہے۔ یہ بھی امداد باہمی سے چل رہا ہے۔ ہاں یونیسکو نے اس قدیم نظام کو اپنا لیا ہے اور ورلڈ بنک نے چند سال قبل ان کی بحالی اور دیکھ بھال کے لئے تین ارب کی امداد دی تھی ظاہر ہے یہ امداد کاریز کے موجودہ نظام کے جیب بھرو کاریز کے بڑے کنووں سے زیر زمین سرنگوں کے راستے چھوٹے کنووں کے تک پہنچتے مال چوس ذرات نے ہضم کر لی ہوگی۔ ورنہ ان کو چالو رکھنے کا مربوط نظام جدید سہولیات کے ساتھ قائم کیا جاتا۔ کیونکہ مہنگائی اور آپا دھاپی نے ان کی دیکھ بھال تباہ کر دی تھی۔ برساتی نالے تو ویسے ہی سرداروں کی زمینوں سے گزرتے ہیں۔ ملکی مفاد میں قائم رکھنے اور سیلاب محفوظ بنانے کی کیا ضرورت۔ یاد رہے ایران میں ابھی آٹھ ہزار کاریز کام کر رہے ہیں اور یونیسکو پروگرام انہیں پختہ کروا رہا ہے۔

تب مجھے دوسرا سبق رود کوہی یاد آیا کہ کوہ سلیمان سے شدید بارشوں کے دوران بارش کا پانی یک دم تیز اور اچانک سیلابی ریلے کی صورت نکلتا تھا اور موجودہ راجن پور کوٹ ادو وغیرہ کی طرف بڑھتا تھا۔ اور اس نے اپنے چند مخصوص راستے بھی بنا لئے تھے جو برساتی نالے تھے۔ اسی برسات کے شروع میں میری سوشل میڈیا پہ بنے بہت عزیز دوست کوٹ ادو کے بہت ہی فعال صحافی رضوان ظفر گورمانی سے بات ہوئی۔ ان دنوں وہ کوٹ ادو اور ملحقہ یا نزدیکی علاقوں میں آئے یا سیلاب کے خدشہ کے متعلق سوشل میڈیا پہ شیئر کر رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کچھ ماحولیاتی تبدیلی کی قدرتی آفت اور کچھ پاکستانی حکومتوں کی کرپشن کے ذریعہ قدرت کی نعمتوں سے مذاق ( جنگل کٹائی۔ ڈیم بنوانے کی بجائے اپنی کمائی وغیرہ وغیرہ ) کی وجہ سے بارشوں کی مقدار اور تیزی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ مگر یہ جو رود کوہی ہوا کرتے تھے اور زیادہ پانی سیدھا دریا میں لا پھینکتے تھے۔ ان کو بھی کچھ مزید بہتر کیا گیا۔ ہنستے آنسوؤں دکھ بھری آواز میں بولا کہ انکل کون سے رود کوہی اور کون سے برساتی نالے یا وڈیرے بلڈوزر پھیر چکے یا تعمیرات کھا گئیں۔ حکام جیبوں کی بہتری کا سوچیں یا ملک کی۔ بتاتا چلوں کہ دو ہزار دس کے بڑے سیلاب کے بعد رضوان ظفر گورمانی فلڈ ریلیف کے سلسلے میں کسی غیر ملکی این جی او سے اپنی نوجوانی کی عمر میں منسلک رہا تھا اور بہت کچھ دیکھ چکا ہے اسی وجہ سے بہت کچھ جانتا ہے۔ گوگل نے بتایا کہ تیرہ بڑے بڑے برساتی نالے تھے۔ کتنے باقی ہیں پتہ نہیں۔ اور کیا ہو رہا ہے اور ہر سال فلڈ ریلیف کے نام سے مانگی گئی خیرات یا امداد کس حد تک متاثرین تک پہنچتی ہے۔ اس کے لئے پچھلے برس کے اخبارات میں چھپی کہانیاں کافی ہیں اور میرے لئے تو وہ تصویریں کافی ہیں جن میں ایک مذہبی سیاسی جماعت کے بڑے سے جلسہ میں فرش پر بجائے دریوں کے سیلاب مہاجرین کے لئے بھیجے گئے خیمے بچھائے گئے تھے یا مختلف محکموں کے بلکہ بڑے بڑے وڈیروں کے جوان اپنے ڈالوں میں امدادی سامان لاد گھروں کو جا رہے تھے۔

آج صبح کی بڑی خبر کمراٹ میں سیلابی ریلے سے دوسرے علاقوں سے رابطہ ختم ہونے اور سیاحوں کے پھنس جانے کے علاوہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی شدید بارشوں اور سیلاب کی ہے۔ جو یقیناً عوام اور متاثرین کے لئے دکھ درد اور ملک کی تباہی میں اضافہ ہی کریں گی۔ مگر اب لمبے بوٹ نکلیں گے فضائی جائزے ہوں گے کشتیوں پہ ہیٹ اور ساتھ بیٹھے کفگیر ڈھنڈورچی سب ٹھیک ہو گیا کی خبریں نشر کریں گے۔ فوری امداد کے احکام دیتے اور نمائشی مزید خرچ کر بنائے اجتماعات میں خوراک کے بنڈل تھمانے کی ویڈیو اور فوٹو سیشن ہوں گے اور پھر ایک دن کسی ملک میں وہی فقرہ گونجے گا۔ ”میں امداد مانگنے نہیں آیا، لیکن مجبوری ہے“ اور پھر ملنے والی خیرات انہی جگہوں پہ بٹ جائے گی جہاں ہر سال پہنچتی ہے۔ اور چند ماہ بعد وہی میڈیا والے سٹوریاں چلا رہے ہوں گے فلاں فلاں یہ کھا گئے اور فلاں علاقے کے لوگ ابھی امداد کے منتظر ہیں۔

ایوب خاں کی قومی اسمبلی میں اس کے بھائی سردار بہادر خاں کا پڑھا یہ مصرعہ یاد آ رہا ہے ”ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا“

اور سوچ رہا ہوں کہ گلستان کو قعر مذلت کی جس گہرائی میں دھکیلا جا چکا ہے اس میں کب کوئی ایسی سیڑھی لگ جائے گی جو اوپر کو جاتی ہو۔ یہ قوم اپنے پہ تو رحم کرتی نظر نہیں آ رہی۔ شاید اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آ جائے اور اس سیڑھی پر اوپر آنے یا لانے والی کوئی لفٹ لگا دے۔ ہم جیسے تو بس ”اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو“ والی دعا ہی کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments