افریقہ کے چہرے پر خوشی کے آثار ماضی کے غم مٹا سکیں گے؟


چین افریقہ تعاون فورم کا سربراہی اجلاس 4 سے 6 ستمبر 2024 تک بیجنگ میں منعقد ہوا جس میں بر اعظم افریقہ کے 50 سے زائد ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں اقوام متحدہ کے سیکٹری جنرل انتونیو گوتریس کے علاوہ کئی بین الاقوامی اور افریقی تنظیموں، میڈیا کے نمائندوں اور سفارتی حلقوں نے شرکت کی۔ اس اجلاس کے دوران چین کے صدر شی جن پھنگ نے کئی افریقی ممالک کے سربراہان اور افریقی یونین کے صدر سے بھی ملاقاتیں کیں اور چین افریقہ تعلقات کی جامعیت اور افادیت پر تبادلہ خیال کیا۔ اپنے انعقاد کے حوالے سے اور بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں یہ ایک کامیاب اجلاس تھا لیکن اس اجلاس میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے اور مستقبل کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس اجلاس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔

چین کے صدر نے افتتاحی اجلاس میں ایک اہم تقریر میں جہاں کئی نکات کا ذکر کیا وہیں ماضی کی کامیابیوں کے بعد مستقبل کے لئے لائحہ عمل کا بھی اعلان کیا۔ یہ اعلان چین افریقہ تعلقات کو مزید جہتوں میں مضبوط کرنے اور نئی بلندیوں تک لے جانے کا اعلان تھا۔ چینی صدر نے واضح الفاظ میں کہا کہ 2.8 ارب کی آبادی والے فریقین کے تعلقات میں عوام کی طاقت کو متحد کرنا ہو گا تا کہ جدیدیت کی راہ پر چل کر دونوں جانب کے عوام خوشحالی کے ثمرات سے مستفید ہو سکیں اور آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں۔

افریقی فریق کی جانب سے بھی اس اجلاس کی اہمیت کو ملاقاتوں انٹرویوز اور تقاریر میں اجاگر کیا گیا۔ چند افریقی ممالک کے سربراہان نے چینی وزیر خارجہ کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس بھی کی جس میں چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ افریقہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بین الاقوامی اتفاق رائے قائم ہو نا چاہیے۔ انہوں نے کئی تجاویز بھی پیش کیں اور اس بات پر خوشی کا اظہار بھی کیا کہ چین کے افریقہ کے ساتھ تعلقات کے بعد دنیا نے افریقہ کے ساتھ تعلقات کی ایک نئی شکل دیکھی ہے۔

یہ نئی شکل کیا ہے؟ افریقہ کے ماضی کو دیکھیں تو یہ بر اعظم کئی دہائیوں سے سامراجیت اور استعماریت کا شکار رہا ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتوں نے اس خطے کو اپنے مقاصد اور اپنی ترقی کے لئے استعمال کیا لیکن یہاں زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی اور ترقی کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیا۔ بیجنگ میں موجود کئی افریقی ممالک کے سربراہان نے بارہا ایک بیان دہرایا کہ چین کے ساتھ افریقہ کے تعلقات باہمی دوستی اور احترام کی بنیاد پر ہیں اور چین کی جانب سے صحت، تعلیم، روزگار، توانائی اور زراعت کے شعبوں میں کی جانے والی مدد سیاسی شرائط سے منسلک نہیں۔ اتنے بڑے براعظم میں شامل اتنے سارے ممالک کے سربراہان کا یہ بیان تاریخ میں ہونے والی ان زیادتیوں کا سادہ سا شکوہ ہے جو بڑی طاقتوں کی افریقہ کے لیے پالیسیوں میں شامل تھیں۔

بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ چین کے افریقہ کے لئے نظریے کی قبولیت اس لئے اتنی سادہ اور آسان ہے کیوں کہ ان ممالک میں ہونے والی بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو ان ممالک کے باشندے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ایک رائے یہ بھی سامنے آ رہی ہے کہ حالیہ دنوں میں امریکہ نے بھی افریقہ کے لئے اپنی نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے جو چار نکات پر مبنی ہے لیکن اسے ایک ری ایکٹو پالیسی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

خود چینی اور افریقی حکام بھی اس دلیل کے حق میں ہیں کہ جس طرح چین نے افریقہ کے ساتھ تعلقات کو دیکھا ہے اس طرح ماضی میں کسی بڑے اور ذمہ دار ملک نے نہیں دیکھا اور شاید یہی وقت ہے کہ اب دنیا افریقہ کو کسی مقبوضہ اور وسائل سے بھرپور مفادات کے علاقے کے طور پر نہیں بلکہ ایک ایسے خطے کے طور پر دیکھ رہی ہے جہاں انسانوں کی ضروریات کی مانگ اور ان کے تقاضے موجود ہیں۔

دنیا کو شاید اسی رویے کی ضرورت ہے جو اس وقت چین کا افریقہ کے ساتھ ہے۔ غریب پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے احساس محرومی اور ضروریات کی عدم دستیابی میں انہیں وہ مواقع میسر آئیں جہاں وہ اپنی خصوصیات اور اپنے ترقی کے راستے کا ادراک کرسکیں اور اس پر چل سکیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس مقصد میں چین کی طرح کے کسی ایک بڑے ملک پر ساری ذمہ داری نہیں عائد کی جا سکتی بلکہ سب نے اخلاص کے ساتھ اپنا اپنا حصہ ادا کرنا ہو گا اور زمین کے اس بڑے خطے اور ایک بڑی آبادی والے علاقے کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments