جلسہ، جلوس، احتجاج اور ہڑتال: اظہار رائے کی آزادی


نو مئی دو ہزار تئیس کے بعد سے پاکستان میں عوامی اجتماعات اور اظہار رائے پر ایک مخصوص انداز سے پابندی لگائی جا چکی ہے، اگر کہا جائے کہ حکومتی اور اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر جماعتیں، گروہ ہی اپنے جلسے، جلوس اور بیان دے سکتے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔

ایک دور تھا جب مولانا فضل الرحمان، مریم نواز اور بلاول بھٹو اسلام آباد میں جلسے کرنے آتے تھے تو اس وقت کے وزیر اعظم کہا کرتے تھے کہ ہم آپ کو خیمے اور کھانا دیں گے، جس کی مثال مولانا فضل الرحمان کے اسلام آباد کے جی نائن میں ہونے والے جلسے دیکھی گئی۔

آئیے ایک نظر حالیہ چند دنوں کے جلسوں پر ڈالتے ہیں، سات ستمبر کو جمعیت علما اسلام فضل الرحمان گروپ نے لاہور کے تاریخی مینار پاکستان کے سائے میں قادیانیوں سے متعلق قانون سازی کے 50 سال مکمل ہونے پر یوم الفتح منایا، جس میں سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے رات کو بارہ بجے بعد اپنا خطاب ختم کیا، لیکن کسی بھی انتظامیہ، ڈی سی یا مجسٹریٹ کی جانب سے یہ رقعہ جاری نہیں کیا گیا کہ جناب مولانا آپ جلسہ فوری ختم کریں، آپ کا این او سی سات ستمبر کا تھا آٹھ ستمبر کا نہیں، آپ نے فوری جلسہ ختم نہیں کیا تو سخت کارروائی ہوگی، اور یہ کہ آئی پنجاب، لاہور پولیس کو حکم دیا کہ اگر مولانا کے لوگ منتشر نہیں ہوتے ہیں ان کے خلاف کارروائی کریں اور زبردستی پنڈال کو خالی کروایا جائے۔

مولانا کے پنجاب کے دارالحکومت میں ہونے والے جلسے کے لیے نہ ہی کسی ریڈ زون کو سیل کیا گیا، نہ ہی کہیں پر ایف سی کو تعینات کیا گیا، یہاں تک نہ ہی موبائل سروس اور انٹر نیٹ کو بند کیا گیا، نہ ہی وفاقی وزیر اطلاعات ٹی وی پر سامنے آئے کہ جے یو آئی قانون کی خلاف ورزی کر رہی ہے اور اس خلاف ورزی پر انتظامیہ کارروائی کا مکمل حق رکھتی ہے۔

چلیے یہ تو ذکر ہوا صرف ایک جلسے کا، اب آپ کو کراچی لیے چلتے ہیں، جہاں ایم کیو ایم نے مہنگائی کے خلاف احتجاج کیا، لیکن انتظامیہ کی جانب سے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی، پیپلز پارٹی آئے روز جلسے کرتی ہے کوئی کچھ نہیں کہتا، تھوڑا پیچھے ہی چلتے ہیں، جب راولپنڈی میں جماعت اسلامی نے دھرنا دیا، جس کی اجازت تک نہ تھی لیکن وہاں تو حکومت نے دھرنے والوں سے معاہدہ کیا کہ لیاقت باغ میں دھرنا دیں۔

اب تھوڑا سا ذکر پی ٹی آئی کے 8 ستمبر کے جلسے کا ذکر کرتے ہیں، جس کی راہ وہ تمام رکاوٹیں ڈالی گئیں جو انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے ممکن تھا، ڈی سی اسلام آباد نے کمال نوکری کا حق ادا کیا، ٹویٹ داغی کہ سات بجے تک پی ٹی آئی جلسہ ختم کردے نہیں تو سخت کارروائی ہوگی، پھر مجسٹریٹ کا حکم نامہ بھی باہر آیا، جس کے بعد پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے درمیان کشیدگی بھی ہوئی، پولیس نے شیلنگ کی اور لوگوں کو منتشر کرنے کی کوششیں کی۔

آخری میں یہی افسوس کیا جا سکتا ہے کہ جب ایک ملک ہو اور قانون کا اطلاق مختلف تو پھر حالات کا اندازہ لگ جاتا ہے کہ کیا ہونے جا رہا ہے، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سوشل میڈیا سے لے کر انفرادی سطح پر بھی پابندیاں لگائی جا چکی ہیں، جس طرح سیاسی جماعتوں کے احتجاج اور جلسے جلوس کو تنگ نظری سے دیکھا جا رہا ہے، انھیں انتشاری یا کسی ملک دشمنی سے جوڑ جا رہا ہے تو کسی صورت عقلمندانہ فیصلہ نہیں ہے۔

بلوچستان کی صورتحال اور خیبر پختونخوا کے قبائل علاقوں میں عوام کو پرامن احتجاج کے حق سے روک کر دیکھ لیا گیا ہے، آج وہاں کے حالات پر حکومتی افراد خود کہتے ہیں کہ بہت خراب ہیں۔ کچھ سبق ہمیں ایران، بھارت میں ہونے والے انتخابات اور بنگلہ دیش کے سٹوڈنٹس کے احتجاج سے مل سکتا ہے، اگر ہم کچھ سبق حاصل کرنا چاہئیں۔

خدارا پاکستان کو اس دن سے بچا لیں جب آپ لوگوں کو کہیں پرامن احتجاج آپ کریں، ریاست کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائیں، اور لوگ آپ کی یہ بات بھی سنے کو تیار نہ ہو۔ یہ کچھ تلخ بات لگتی ہے لیکن کیا کروں دنیا کی تاریخ بڑی ظالم ہے وہ مجبور کرتی ہے کہ یہ باتیں کی جائیں، بتایا جائے کہ انقلاب فرانس کی اصل وجہ بھوک و افلاس ہوگی لیکن زبان بندی کو لوگوں نے برداشت نہیں کیا تھا۔ آج پاکستان کے پاس وقت ہے کہ وہ لوگوں کو بولنے دے، انھیں اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے دیں، اگر حکمران طبقے نے اسے روکنے کی کوششیں جاری رکھی تو کچھ برا ہونے سے پھر کوئی نہیں روک سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments