فلائٹ 93 کی ہائی جیکنگ کی سنسنی خیز واردات: وہ مسافر طیارہ جو امریکی پارلیمان کو تباہ کر سکتا تھا
ریحان فضل - بی بی سی ہندی
فلائٹ 93 اپنے مقررہ وقت سے 40 منٹ لیٹ تھی اور یونائیٹڈ ایئر لائنز کا بوئنگ 757 نیویارک انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے رن وے پر کھڑا اپنے ٹیک آف کا انتظار کر رہا تھا۔
فرسٹ کلاس کی چھ قطاروں میں چار عرب نژاد شہری بیٹھے تھے جن کے پاس صرف ون وے ٹکٹ تھا یعنی انھوں نے واپسی کا ٹکٹ نہیں خریدا ہوا تھا۔
انھوں نے ایک رات قبل عربی میں تحریر کردہ ایک دستاویز کا مطالعہ کیا تھا جس میں انھیں ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنے آپ کو تمام ’فتنوں سے دور رکھیں، خود کو جدوجہد کے لیے تیار کریں، اور اللہ کی راہ میں جان دینے کے اپنے عہد کو یاد رکھیں۔‘
مصنف ٹام میک ملن اپنی کتاب ’فلائٹ 93: دی سٹوری آف دی آفٹرمیتھ اینڈ دی لیگیسی آف امریکن کریج‘ میں لکھتے ہیں: ’اتنی باریک بینی سے اس منصوبے پر تیاری کے باوجود القاعدہ نے اس امکان پر غور نہیں کیا تھا کہ پرواز میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے۔ یہ افراد جس منصوبے پر عمل پیرا تھے وہ سب سے پہلے سنہ 1996 میں افغانستان کے پہاڑوں میں بنایا گیا تھا اور اگلے کئی سالوں میں اس میں مختلف قسم کی تبدیلیاں کی گئیں تھیں۔‘
ہائی جیکنگ کے لیے جن چار پروازوں کا انتخاب کیا گیا تھا وہ سب اس صبح 7.45 اور 8.10 کے درمیان ٹیک آف کرنے والی تھیں۔
یہ بھی طے پایا تھا کہ جہاز کے ٹیک آف کے 15 منٹ بعد ہی ہائی جیکنگ شروع ہو جائے گی۔
اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق اور وقت پر ہوتا تو چاروں طیارے ایک ایک کر کے بڑی بڑی عمارتوں سے ٹکرا جاتے اور امریکی سیاست دانوں اور عسکری قیادت کو سوچنے کا وقت بھی نہ ملتا۔
طیاروں کو کاک پٹ میں دخل اندازی کے بارے میں مطلع کیا گيا
نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ کے ریکارڈ کے مطابق ٹھیک صبح 8:41 بج کر 49 سیکنڈ پر، ایئر ٹریفک کنٹرولر نے فلائٹ 93 کے کیپٹن جیسن ڈال اور فرسٹ آفیسر لیروئے ہومر کو بتایا کہ وہ رن وے فور سے ٹیک آف کر سکتے ہیں۔
ایک منٹ بعد فرسٹ کلاس میں اپنے سیٹوں پر بیٹھے عرب نژاد زیاد الجراح، احمد الحزنوی، احمد النعمی اور سعید الغامدی نے اپنے آپ کو مشن کے لیے تیار کیا۔
تاریخ 11 ستمبر 2001 تھی اور دن تھا منگل کا۔
بالآخر چند ہی سیکنڈ میں فلائٹ 93 فضا میں تھی۔ طیارہ تقریباً خالی تھا۔ 182 مسافروں کی گنجائش والے طیارے میں کل 33 مسافر بیٹھے تھے۔
اسی دن صبح ٹھیک 8:40 بجے ایک طیارہ 500 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرا گیا۔ اس نے فلک بوس عمارت کی 93ویں اور 99ویں منزل کے درمیان ایک بہت بڑا سوراخ بنا دیا۔
ابھی لوگ سمجھ ہی پا رہے تھا کہ کیا ہوا ہے کہ 17 منٹ بعد یا 9:03 بجے پر دوسرا طیارہ جنوبی ٹاور سے ٹکرایا اور امریکی انتظامیہ کو احساس ہوا کہ امریکہ حملے کی زد میں ہے۔
صبح 9:19 بجے یونائیٹڈ فلائٹ ڈسپیچر ایڈ بیلنگر نے علاقے میں اڑنے والے 16 طیاروں کو پہلی وارننگ ان الفاظ میں جاری کی گئی: ’کاک پٹ میں کسی قسم کی دخل اندازی سے ہوشیار رہیں۔ نیویارک میں دو طیارے ٹریڈ سینٹر کی عمارت سے ٹکرا گئے ہیں۔‘
پرواز کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ فلائٹ 93 کو یہ پیغام صبح 9:24 پر موصول ہوا۔ صبح 9.26 بجے کیپٹن ڈال نے بیلنگر کو جواب دیا: ’ایڈ کنفرم لیٹسٹ میسیج۔‘
ٹھیک دو منٹ بعد یعنی 9:28 منٹ پر فلائٹ 93 کے کاک پٹ کے دروازے کے باہر ایک شور سنائی دیا جس کی آواز ایئر ٹریفک کنٹرولر نے بھی سُنی۔
- گیارہ ستمبر 2001 کو امریکہ میں کیا ہوا تھا؟
- ’نائن الیون کا ذمہ دار خود امریکہ‘،خالد شیخ کا اوباما کو خط
- نائن الیون حملوں کے 19 سال: القاعدہ اس وقت کہاں ہے اور کتنی طاقتور ہے؟
- جب نائن الیون حملوں کا منصوبہ ساز ’میرے ہاتھ آتے آتے رہ گیا‘
فلائیٹ 93 میں موجود اور سروں پر سرخ سکارف پہنے چاروں ہائی جیکر تیزی سے اپنی نشستوں سے اٹھ گئے۔ وہ 9:28 بجے پر کاک پٹ میں داخل ہوئے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ اسی لمحے جہاز 30 سیکنڈ کے مختصر وقت میں 680 فٹ تک کی بلندی کھو بیٹھا۔
اُسی وقت، کلیولینڈ کے ایئر ٹریفک کنٹرول نے سنا، ’مے ڈے۔۔۔ گِٹ آوٹ آف ہیئر’ (یہاں سے نکل جاؤ) 30 سیکنڈ بعد یہی جملہ تین بار سنا گیا، ’یہاں سے نکل جاؤ۔‘
پس منظر میں جدوجہد کی مدھم آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ یہ ممکن ہے کہ ڈال یا ہومر نے دانستہ طور پر مائیکروفون کا بٹن دبا رکھا تھا تاکہ ایئر ٹریفک کنٹرول روم میں موجود لوگ یہ سُن سکیں کہ طیارے کے کاک پٹ میں کیا ہو رہا ہے۔
مچل زوکوف اپنی کتاب ’فال اینڈ رائز دی سٹوری آف 9/11‘ میں لکھتے ہیں: ’اگلے 90 سیکنڈز میں کلیولینڈ ایئر ٹریفک کنٹرولر جان ورتھ نے طیارے سے رابطہ کرنے کی سات کوششیں کیں لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ کچھ دیر بعد انھیں اس کی وجہ معلوم ہوئی۔‘
نو بج کر 31 منٹ پر ایک نامعلوم شخص نے بھاری سانس لیتے ہوئے عجیب لہجے میں بولنا شروع کیا۔
یہ پیغام جہاز میں بیٹھے مسافروں کے لیے تھا لیکن ایئر ٹریفک کنٹرول والوں نے بھی اسے سُنا۔
پیغام تھا: ’خواتین و حضرات۔ کپتان کو سنیں۔ برائے مہربانی بیٹھ جائیں اور بیٹھے رہیں۔ طیارے میں بم موجود ہے۔‘
یہ آواز چار میں سے ایک ہائی جیکر زیاد الجراح کی تھی جو اس وقت تک فلائٹ 93 کا کنٹرول سنبھال چکے تھے۔
اناڑیوں کی طرح جہاز کو نیچے لایا گیا
اب جراح نے فلائٹ 93 کا رخ واشنگٹن کی طرف موڑ دیا۔ وہ صبح نو بج کر 39 منٹ پر طیارے کو 40 ہزار فٹ کی بلندی پر لے گئے۔ اس کے بعد انھوں نے جہاز کو کسی اناڑی پائلٹ کی طرح نیچے لانا شروع کر دیا۔
اس سے پہلے، صبح 9 بج کر 33 منٹ پر کاک پٹ میں موجود ایک خاتون کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا: ’پلیز، پلیز، پلیز۔۔۔ پلیز، پلیز مجھے تکلیف نہ دیں۔۔۔ اوہ خدایا۔‘
تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ آواز ممکنہ طور پر فرسٹ کلاس میں تعینات خاتون کریو ممبر ڈیبی ویلش یا وانڈا گرین کی تھی۔ 9/11 حملوں سے متعلق یہی کہا جاتا ہے کہ اس حملے میں چاروں جہازوں پر قبضے یا ہائی جیکنگ کے لیے پہلے جہاز کے عملے میں شامل خواتین پر تشدد سے کیا گیا۔
نو بج کر 35 منٹ پر ایک خاتون کی آواز دوبارہ سنائی دی کہ ’میں مرنا نہیں چاہتی۔ ایک ہائی جیکر، غالباً غامدی السید کی آواز سنائی دی، ‘سب کچھ ٹھیک ہے۔ میں نے ختم کر دیا۔‘
یہ وہ لمحہ تھا کہ جس کے بعد عملے کی اُن خاتون رکن کی کوئی آواز نہیں سنی دی۔ عین مُمکن ہے کہ انھیں قتل کر دیا گیا ہو۔
میں نے فضا سے زمین پر کام کر کے اپنے رشتہ داروں سے رابطہ کیا
9 بج کر 39 منٹ پر جراح نے ایک مرتبہ پھر اعلان کرنے کی کوشش کی۔
اس بار ان کے آواز پہلے سے زیادہ پُر اعتماد تھی۔ جراح کی اس دوسری کوشش یعنی اس اعلان کو اس مرتبہ ائیر ٹریفک کنٹرول نے بھی سُنا، ’آپ سب سے اس وقت جہاز کا کپتان مخاطب ہے، اور میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ سب اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے رہیں۔ ہمارے پاس اس جہاز پر بم ہے اور ہم واپس ایئرپورٹ کی جانب جا رہے ہیں، ہمارے کُچھ مطالبات ہیں۔ تو برائےِ مہربانی آپ خاموش رہیں۔‘
یونائیٹڈ ایئر لائنز کے طیارے میں موجود مسافروں اور عملے کو ’ویریزون‘ ایئر فونز نامی خصوصی فون کی مدد سے زمین پر رابطے کی سہولت فراہم کی گئی۔
جہاز کے ہائی جیک ہونے کے 30 منٹ کے اندر، جہاز میں سوار 12 مسافروں نے جہاز میں مختلف مقامات پر نصب ایئرفونز کی مدد سے زمین پر 35 فون کالز کیں مگر ان میں سے 20 کو تو فوری طور پر منقطع کر دیا گیا لیکن 15 کالز پر مسافروں کا زمین پر رابطہ ہو گیا۔
ان کالز کی مدد سے بہت حد تک یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ اس وقت فلائٹ 93 پر ہو کیا رہا تھا۔ سب سے پہلے ساڑھے 9 بجے ٹام برنیٹ نے کیلیفورنیا میں اپنی اہلیہ سے رابطہ کیا۔
اپنی کتاب ’دی اونلی پلین ان دی سکائی‘ میں گیریٹ ایم گراف لکھتے ہیں کہ ’ڈیانا نے پوچھا ’ٹام، کیا آپ ٹھیک ہیں؟‘ ٹام نے جواب دیا ’نہیں، میں ٹھیک نہیں ہوں۔ میں ایک ایسے طیارے پر ہوں جسے ہائی جیک کر لیا گیا ہے۔ ہائی جیکروں نے ایک شخص کو چاقو مارا ہے اور اب بتا رہے ہیں کہ طیارے میں ایک بم نصب ہے۔ تم بغیر کوئی وقت ضائع کیے انتظامیہ سے رابطہ کرو اور انھیں اس بارے میں آگاہ کرو۔‘
مسافروں کو جہاز کے عقبی حصے میں منتقل کر دیا گیا
ہوائی جہاز کے عملے کی خاتون رکن سینڈی بریڈشا نے سب سے پہلے یونائیٹڈ ایئرلائنز کو اس بارے میں آگاہ کیا۔ 9 بج کر 35 منٹ پر انھوں نے سان فرانسسکو کے مینٹیننس آفس میں 33ویں رو میں لگے فون سے مینجر سے رابطہ کیا اور کہا کہ ’حملہ آوروں نے کاک پٹ پر قبضہ کر لیا ہے۔ باقی تمام مسافروں کو طیارے کے عقبی حصے میں لایا گیا ہے۔‘
سینڈی چھ منٹ تک لائن پر رہیں۔ مینجر کے مطابق اُن کی آواز حیرت انگیز طور پر بہت پُرسکون تھی۔
ٹام میک ملن لکھتے ہیں کہ ’اس دوران مارک بنگھم نے اپنی والدہ کو فون کیا ’میں مارک بنگھم ہوں۔ وہ شاید اتنا دباؤ میں تھے کہ انھوں نے اپنا پورا نام لے لیا۔ انھوں نے کہا کہ ’میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں۔ میں اس وقت سان فرانسسکو جانے والے ہوائی جہاز میں ہوں۔ تین افراد نے طیارے کو ہائی جیک کر لیا ہے اور اب یہ جہاز اور ہم سب مسافر بھی انھیں کے رحم و کرم پر ہیں۔ ان ہائی جیکروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس بم ہے۔‘
مارک کی والدہ ایلس نے ان سے پوچھا، ’مارک، وہ کون لوگ ہیں؟ مارک نے اس سوال کا جواب نہیں دیا، لیکن کہا کہ آپ کو مجھ پر یقین کرنا چاہیے۔ میں جو بھی کہہ رہا ہوں بالکل درست ہے۔‘
طیاروں کو فوری طور پر لینڈ کرنے کو کہا گیا
تاہم دوسری جانب جیسے ہی کلیولینڈ ایئر ٹریفک نے زیاد الجراح کا اعلان سُنا فوراً جواب دیا گیا کہ ’ٹھیک ہے، یونائیٹڈ 93 ہماری بات کا جواب دیں۔ ہم یہ جان چُکے ہیں کہ آپ کے پاس اس فلائٹ میں بم ہے۔ کیا آپ ہمیں سُن سکتے ہیں ہمیں جواب دیں۔ یونائیٹڈ 93 جواب دیں۔‘ لیکن ائیر ٹریفک کنٹرول کو کوئی جواب نہیں ملا۔
مگر ایئر کنٹرولر جان ورتھ کے لیے سب سے بڑا چیلنج اس وقت پیدا ہوا جب رات 9 بج کر 42 منٹ پر فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن نے امریکی فضائی حدود میں پرواز کرنے والے تمام دیگر طیاروں کو قریبی ہوائی اڈوں پر فوری طور پر اتر جانے کا حکم دیا۔
تمام طیاروں نے تو جان ورتھ کی آواز کو سُنا اور جلد ہی لینڈ کرنے لگے لیکن اوہائیو کے اوپر سے پرواز کرنے والی پرواز 93 پر ان کی آواز اور الفاظ کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اور اس پرواز نے واشنگٹن ڈی سی کی جانب اپنا سفر جاری رکھا۔
اب تک امریکی عوام اس بات کا اندازہ لگا چُکی تھی کہ فلائٹ 93 یا تو وائٹ ہاؤس کی جانب یا پھر یہ کیپیٹل ہل کی جانب جا رہی تھی۔
مچل زوکوف لکھتے ہیں کہ ’کیپٹل ہل میں ایک پولیس افسر چیختا ہوا ہال میں بھاگا، ’ایک طیارہ ہماری جانب آ رہا ہے۔ باہر نکلو اس جگہ کو خالی کر دو۔‘
یہ سُن کر خواتین بنا جوتوں کے ننگے پاؤں باہر کی جانب بھاگیں۔ خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ کانگریس کے کچھ ارکان درخت کے نیچے جمع ہونے لگے۔ مسلح پولیس افسران امریکی سینیٹ کے رہنماؤں کو سرد جنگ کے دور میں بنائے جانے والے بنکروں میں لے گئے۔
مزاحمت کی منصوبہ بندی
اس دوران طیارہ 40 ہزار فٹ کی بلندی سے 20 ہزار فٹ کی بلندی تک پہنچ چُکا تھا۔
اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ زیاد الجراح کو اسے اڑانے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ جراح 9/11 کے ہائی جیکروں میں واحد ایک ایسے فرد تھے کہ جن کے پاس کمرشل پائلٹ کا لائسنس نہیں تھا اور انھوں نے جہاز اڑانے کی تربیت میں دوسروں کے مقابلے میں کم وقت گزارا تھا۔
اس دوران مسافروں میں ہائی جیکروں کے خلاف مزاحمت کے لیے منصوبے بنائے جا رہے تھے۔
ٹام میک ملن لکھتے ہیں کہ ’ٹام برنیٹ نے فون پر اپنی اہلیہ ڈینا کو بتایا کہ وہ کچھ کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ ڈینا نے پوچھا تمہاری مدد کون کر رہا ہے؟ ٹام نے کہا، بہت سے لوگ۔ ہمارا ایک گروپ ہے۔ ایک اور مسافر، تیریمی گلک نے کہا ’میرے جیسے تین ذہین لوگ اس وقت جہاز میں ہیں۔ ہم یہاں موجود ہائی جیکروں میں سے ایک فرد پر حملہ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔‘
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ کس چیز کو بطور ہتھیار استعمال کریں گے۔ ’میرے پاس اب بھی وہ بٹر نائف ہے جو ناشتے کے ساتھ ہمیں جہاز میں دیا گیا تھا۔‘ ٹوڈ بیمر نے لیزا جیفرسن سے بھی کہا ’ہم کچھ کرنے جا رہے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔‘
’حملے کا وقت آ گیا ہے ساتھیو‘
صبح 9 بج کر 53 منٹ پر زیاد الجراح اور سعید الغامدی کو پہلی بار اس بات کا احساس ہوا کہ جہاز میں سوار مسافر بھی اُن کے اس اقدام کے خلاف بغاوت پر اُتر سکتے ہیں۔
کاک پٹ کے باہر کھڑے احمد الحزنوی اور احمد النامی نے انھیں بتایا تھا کہ ’کس طرح مسافر مسلسل فون کر رہے ہیں، آپس میں ایک دوسرے سے بات کر رہے ہیں اور ہمیں گھور رہے ہیں۔‘
جراح جانتے تھے کہ انھیں اپنے ہدف تک پہنچنے میں ابھی مزید آدھا گھنٹہ لگے گا۔
ٹام میک ملن لکھتے ہیں کہ ’بغاوت کرنے والے تمام مسافر جہاز کے درمیانی حصہ میں جمع تھے۔ فلائٹ اٹینڈنٹ سینڈی بریڈشا جہاز کے عقبی یا پچھلے حصے میں پانی گرم کر رہی تھی تاکہ اسے ہائی جیکروں پر پھینکا جا سکے۔ کچھ تفتیش کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ کھانے کی ٹرالی کو کاک پٹ پر حملے کو دوران حملے کے لیے بھی استعمال کیے جانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔‘
جب ٹام برنیٹ کی اہلیہ نے اُن سے پوچھا، کیا تم لوگ حملہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہو؟ برنیٹ کا جواب تھا ’ہاں چلو اب وقت آ گیا ہے حملہ کرتے ہیں۔‘
مسافروں نے کاک پٹ پر دھاوا بول دیا
مسافروں کی جانب سے ہائی جیکروں پر حملہ ٹھیک 9 بج کر 57 منٹ پر شروع ہوا۔ ہوا بازی کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی غیر مسلح مسافروں نے دوران پرواز ہائی جیکروں پر اس طرح حملہ نہیں کیا تھا۔
ایم گراف لکھتے ہیں کہ ’اس وقت الزبتھ وینیو اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ فون لائن پر تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ لوگ کاک پٹ میں داخل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ مجھے بھی جانا چاہیے۔ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔‘
ساتھ ہی سینڈی بریڈشا نے بھی اپنے شوہر سے کہا ’ہر کوئی ہائی جیکروں پر کاک پٹ میں حملہ کرنے کے لیے فرسٹ کلاس میں جا رہا ہے۔ میں بھی وہاں جانا چاہتی ہوں۔‘
اس طرح 757 طیارے کے 20 انچ تنگ کوریڈور سے گزرتے ہوئے ان مسافروں نے کاک پٹ پر حملہ کر دیا۔ جراح اور اُن کے ساتھی غامدی، جو ہوائی جہاز اڑا رہے تھے، نے ان لوگوں کی آوازیں سنی۔ ان دونوں کو طیارہ اڑانے میں کافی مشکلات کا سامنا تھا۔
ان آوازوں نے انھیں مزید پریشان کر دیا۔ وائس ریکارڈر کے ٹرانسکرپٹ سے پتہ چلتا ہے کہ، 9 بج کر 57 منٹ پر جراح چلائے اور پوچھا کہ ’کون ہے وہاں اور کیا ہو رہا ہے؟‘
پھر پیچھے ایسی آواز آئی کے جیسے کوئی لڑ رہا ہو۔
انھوں نے جہاز کی کنٹرول سٹک کو دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں گھمانا شروع کیا تاکہ مسافر اپنا توازن کھو بیٹھیں اور انھیں کاک پٹ کی جانب بڑھنے میں انھیں مُشکل ہو۔ پھر ایک مسافر برنیٹ کی بلند آواز سنائی دی ’کاک پٹ میں! کاک پٹ میں!‘ اس پر جراح نے عربی میں کہا، ’وہ کاک پٹ میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ دروازے کو اندر سے بند کیے رکھو۔‘
جراح جہاز کی کنٹرول سٹک کی مدد سے جہاز کو دائیں بائیں حرتک دیتے رہے۔ تب تک طیارہ کی فضا ماں بلندی پانچ ہزار فٹ مزید کم ہو چُکی تھی۔
9 بج کر 59 منٹ پر جراح نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی۔ انھوں نے جہاز کو دائیں بائیں کی بجائے اُپر اور نیچے کرنا شروع کر دیا۔ 10 بجے کے قریب جب مسافروں کے ہائی جیکروں پر حملہ میں شدت آئی تو کاک پٹ میں موجود ہائی جیکروں نے طیارے کو کریش کرنے یعنی گرانے سے متعلق بھی بات کی۔
جراح نے کہا ’کیا ہم بس اب اس سب کو ختم کریں؟‘ الغامدی کا جواب تھا کہ ’نہیں، ابھی نہیں۔ جب وہ سب اندر آئیں گے تو ہی اس بات کا فیصلہ کریں گے مگر ابھی نہیں۔‘
فلائٹ 93 کی ایک بار پھر فضا میں بلندی میں کمی ہوئی اور مسافر ابھی تک کاک پٹ میں داخل نہیں ہوئے تھے اور جہاز کا کنٹرول ابھی تک جراح کے ہاتھ میں تھا۔ لیکن تب تک جراح کو صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہو چکا تھا۔
پہلی مرتبہ انھوں نے سعید الغامدی کو اُن کا نام لے کر مخاطب کیا۔ ’اوپر، نیچے سعید، اوپر اور نیچے۔‘ پانچ سیکنڈ بعد ایک مسافر چلایا، ’حملہ کرو۔‘
شاید اس کی مراد کھانے کی ٹرالی تھی کیونکہ اس کے بعد پلیٹوں اور شیشوں کے گرنے اور ٹوٹنے کی آواز سنائی دی۔
فلائٹ 93 کریش ہوئی
10 بج کر ایک منٹ پر جہاز نے دوبارہ اوپر کی جانب جانا شروع کیا۔
ٹام میک ملن لکھتے ہیں کہ ’پھر جراح نے کہا ’کیا وقت آ گیا ہے؟ کیا ہم اب اسے تباہ کر دیں؟‘ الغامدی نے جواب دیا ’ٹھیک ہے۔ تو بس اب ایسا ہی کرتے ہیں۔‘
پھر اچانک لوگوں کی مزید چیخیں سنائی دیں۔ تب ہائی جیکروں کو احساس ہوا کہ اگر وہ جہاز کو اڑاتے رہے تو مسافر جلد ہی ان پر قابو پا لیں گے۔ جراح کو چیخنے پر مجبور کیا گیا، ’سعید، آکسیجن کاٹ دو۔‘
دوسری جانب مسافر اونچی آواز میں نعرے لگا رہے تھے ’جاؤ جاؤ، بڑھتے رہو۔‘
اس کے بعد مسافر کاک پٹ کا دروازہ توڑنے میں کامیاب ہو گئے۔ جراح عربی میں چلائے۔ اسے نیچے زمین پر گرا دو۔ اسے نیچے زمین پر گرا دو۔‘ چند سیکنڈ کے بعد الغامدی کی آواز سنائی دی، ’ہٹ جاؤ مجھے دو، چھوڑو میں نے کہا مجھے چھوڑ دو۔‘
تب تک مسافر کاک پٹ تک پہنچ چکے تھے اور انھوں نے جراح کو مارنا شروع کر دیا۔ غالباً الغامدی جہاز پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاہم اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔‘
طیارہ پنسلوانیا کی سمرسیٹ کاؤنٹی میں گر کر تباہ ہوا تھا۔ 563 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑتے ہوئے، بوئنگ 757 طیارے کی ناک 40 ڈگری کے زاویے سے بجلی کی تاریں توڑتے ہوئے زمین سے ٹکرا گئی۔
اس وقت اس کے اندر تقریباً پانچ ہزار گیلن جیٹ فیول بھرا ہوا تھا۔ جیسے ہی یہ زمین سے ٹکرایا، طیارہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور شعلوں کی لپیٹ میں آ گیا۔ اس وقت گھڑی پر 10 بج پر 3 منٹ ہوئے تھے۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی ابھی وہاں سے 15 منٹ کی دوری پر تھا۔
اسی بارے میں
- نائن الیون: طیاروں کی ٹکر کے بعد ورلڈ ٹریڈ سینٹر گر کیوں گیا
- نائن الیون: وہ 102 منٹ جنھوں نے دنیا کی تاریخ بدل دی
- جب 9/11 حملوں کا سہولت کار کراچی سے پکڑا گیا
- 9/11 حملوں سے جڑے سازشی نظریات، مفروضے اور افواہیں
- نائن الیون نے دنیا کو کیسے بدلا؟
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).