میں کیسے لکھتا ہوں
میرے والد، ناصر کاظمی، ایک معروف شاعر تھے۔ تقریباً چار برس کی عمر میں، ایک دن اپنے صحن میں لگے پودوں کو دیکھتے ہوئے میں نے کہا: ”پاپا، پتّے!“ حنیف رامے صاحب کا بیان ہے کہ اس روز ناصر نے دوستوں کو بتایا کہ اس کے بیٹے نے اپنی پہلی نظم کہہ دی ہے۔
تمام زندہ مخلوقات کے لیے تخلیقی ہونا لازم ہے۔ یہ نہ صرف ان کی نشو و نما بلکہ بقا کے لیے ضروری ہے۔ اپنی خوراک ڈھونڈنے اور اپنے گھر بنانے کے لیے جانور اور پرندے جو ہنر بروئے کار لاتے ہیں وہ حیران کن ہیں۔ پودوں کی جڑیں اور شاخیں بھی ان سمتوں میں بڑھتی ہیں جہاں انہیں پانی اور دھوپ مل سکے۔ انسان کی ہر ممکن سرگرمی اس کے لیے اختراع و ایجاد کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ کچھ دریافت یا ایجاد کرنا ہمیں سب سے بڑی خوشی دیتا ہے اور یہ خوشی ہماری سب سے مقوی غذا ہے۔ دریافت کرنے کی سعی میں مہم جو تکلیفیں برداشت کرتے رہے ہیں، خطرات بلکہ موت سے بھی کھیلتے رہے۔
میں نے اپنی تخلیقی زندگی کی ابتدا تصویریں بنانے اور ان میں رنگ بھرنے سے کی۔ سکول کے میوزک بینڈ میں شامل ہوا اور بانسری بجانی سیکھی۔ میں نے گیارہ سال کی عمر میں اپنی پہلی نظم کہی۔ میرے ایک پسندیدہ ریڈیو پروگرام میں ایک مہمان شاعر نے بچوں کے لیے ایک نظم سنائی۔ اشعار کی موسیقیت، نفس مضمون اور قافیہ ردیف نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ مجھ سے اسی زمین میں چند اشعار سر زد ہو گئے۔ اس کے بعد میں نے اپنے والد اور ان کے دوستوں کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں شعر کہنا جاری رکھا۔
میں تخلیقی تحریر کے معاملے میں جون کیٹس کی بات کا قائل ہوں کہ شاعری کو اس طرح فطری طور پر سامنے آنا چاہیے جیسے درختوں پر پتے اگتے ہیں۔ چنانچہ میں لکھنے کی ’کوشش‘ کرنے کی بجائے ان لمحوں کا انتظار کرتا ہوں جب میرے اندر لکھنے کی طلب اتنی بڑھ جائے کہ دبائی نہ جا سکے۔ بائرن نے کہا تھا کہ شاعری ’تخیل کا لاوا‘ ہے، اور ہم جانتے ہیں لاوا آتش فشاں کی زیریں سطح سے دہانے تک آنے میں کتنا وقت لیتا ہے۔ میرا ایک شعر ہے :
ملتا ہے عجب لطف مجھے ضبط سخن میں
رہتی ہے مری بات بہت عرصہ دہن میں
میرے لیے کسی نظم یا غزل کا نقطۂ آغاز بالعموم ایک لفظ یا ترکیب، اور بعض اوقات ایک سطر ہوتی ہے جو میرے گرد پھیلی ہوئی زندگی سے پھوٹتی ہے۔ مثال کے طور پر، ہمارے کام کے اوقات کے بارے میں ایک معروف ٹکڑا ’نو سے پانچ‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک بار مجھے خیال آیا کہ اس میں سفر کا وقت بھی شامل کرنا چاہیے، جس کے نتیجے میں یہ ’آٹھ سے چھ‘ یا ’سات سے سات‘ ہو جائے گا۔ پھر آمد کے کسی لمحے میں یہ ’آٹھ سے پانچ‘ بن گیا جو غزل کے لیے ایک عمدہ ردیف نظر آئی اور یہ مطلع وارد ہوا:
کر لیا دن میں کام آٹھ سے پانچ
اب چلے دور جام آٹھ سے پانچ
ہیرلڈ پنٹر کا کہنا تھا کہ اس کے ڈراما لکھنے کا آغاز زیادہ تر کسی صورت حال کے تصور اور دو کرداروں کی موجودگی سے ہوتا تھا۔ میرے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہوا۔ شطرنج کی ایک کتاب میں مصنف نے ایک شہزادی کا حوالہ دیا تھا جس نے یہ ٹھان لی تھی کہ وہ اس شخص سے شادی کرے گی جو اسے شطرنج کی بساط پر شکست دے گا۔ اس کے باپ یعنی بادشاہ نے اسے اپنی شادی کے لیے یہ شرط عائد کرنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ یہ صورت حال میرے تصور میں مختلف اوقات میں، مختلف صورتوں میں آتی رہی۔ نئے کردار ابھرتے رہے اور میرے ’ذہن کے سٹیج‘ پر گفتگوئیں کرتے رہے۔ میں نے نوٹس لکھنا شروع کر دیے۔ کہانی واضح ہوتی چلی گئی، پلاٹ پختہ ہوتا گیا اور مکالمے جلا پاتے گئے۔ نتیجتاً، میرا پہلا طویل ڈراما ”بساط“ وجود میں آیا۔
میرا اپنی غزلوں اور نظموں کے معاملے میں بھی یہی طور ہے۔ میں ٹکڑے، ترکیبیں، مصرعے، سطریں، کاغذ کے ان پرزوں پر لکھتا رہتا ہوں جو میرے ہاتھ لگیں، بعض اوقات خریداری کی رسیدوں پر بھی۔ اور پھر بالآخر ’بیٹھ کر‘ حتمی متن لکھتا ہوں۔ میں نے غزلیں بھی کہیں، نظمیں بھی، ڈرامے بھی لکھے اور تنقید بھی اور تراجم بھی کیے۔ لیکن یہ سب کچھ فطری طور پر ہوتا رہا۔ میں نے کبھی شعوری طور پر ہیئت کا انتخاب نہیں کیا۔ میں اس نظریے کا قائل ہوں کہ خیال خود اپنے لیے ہیئت کا انتخاب کرتا ہے۔ اگر خیال کو کسی ایسی ہیئت میں سمونے کی کوشش کی جائے جو اس کے لیے موزوں نہیں تو نتیجے کے طور پر کوئی پائیدار تخلیق وجود میں نہیں آتی۔ میں خوش قسمت ہوں کہ قدرت مجھے وقتاً فوقتاً مذکورہ تخلیقی لمحوں سے نوازتی رہی ہے۔ میں نے ایسے ہی کسی لمحے میں یہ شعر کہا تھا:
جب چاہیے ہو ملتی ہے تازہ ہوا مجھے
شاید کبھی لگی تھی کسی کی دعا مجھے
(یہ تحریر گزشتہ ماہ ریختہ پبلی کیشنز کے زیر اہتمام شائع ہونے والے باصر سلطان کاظمی کی شاعری کے انتخاب ”خواب سے زیادہ“ میں پیش لفظ کے طور پر شامل کی گئی۔)
- میں کیسے لکھتا ہوں - 11/09/2024
- ناصر کاظمی کا انتخاب داغؔ اور میرا سفر - 19/11/2023
- مانوس اجنبی دوسری آمد - 31/05/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).