کھندوئی اور ڈنگے!


آپ ڈاکٹر ایکس کو جانتی ہیں؟
ہماری دوست کا سوال۔
بہت اچھی طرح۔ ہمارا جواب!
کیسی ہیں؟ کیسا کام کرتی ہیں؟ دوست کا استفسار۔
کھندوئی اور ڈنگے۔
وہ کیا ہوتا ہے؟ کراچی کی رہنے والی اہل زبان دوست منہ کھول کر ہمیں دیکھتی ہیں۔
ہاہائے تمہیں کھندوئی کا نہیں پتہ؟ ہم شرارت پہ اتر آتے ہیں۔
ایک تو آپ کے پاس اس قدر تشبیہات ہیں، تو ہم کیا کچھ سمجھیں؟
آنکھیں کھول کر دیکھنا سیکھو، سب کچھ خود بہ خود آ جائے گا۔
اچھا پہلے تو یہ بتائیے کہ کھندوئی اور ڈنگے کیا ہوتے ہیں اور پھر ڈاکٹر ایکس؟
آہ ہا کیا بتائیں؟ کیسے بتائیں؟
امی یاد آ گئیں۔

سردیاں رخصت ہونے کو ہوتیں۔ دن میں سورج کی تپش تیز ہو چکی ہوتی۔ دن لمبے ہو رہے ہوتے۔ بھاری بھرکم رضائیوں میں پسینہ آنے لگتا تو ہم جان لیتے کہ امی کی فیکٹری میں کام شروع ہونے کو ہے۔

اینٹوں سے بنے کھلے صحن میں دریاں بچھائی جاتیں اور ان پہ ایک وقت میں دو تین رضائیاں بچھا دی جاتیں۔ ایک بڑی قینچی سے سلی ہوئی رضائی کے ٹانکے کاٹے جاتے اور کھینچ کر بوسیدہ دھاگے نکالے جاتے۔ جب سارے دھاگے نکل جاتے تب ایک طرف سے سلائی ادھیڑ کر روئی نکالی جاتی اور ایک طرف ڈھیر کر دی جاتی۔

رضائی کے غلاف دھونے کے لیے صابن کے محلول میں ڈبو دیے جاتے اور پھر کوٹ کوٹ کر میل نکالی جاتی۔ ساتھ ہی ساتھ روئی کا گٹھڑ باندھ کر اسے دھنیے کے پاس پہنچایا جاتا جسے ہماری امی پینجا کہتیں۔

دھنیا یا پینجا ایک دکان میں بیٹھا ملتا جہاں ہر طرف روئی کے ذرات اڑ رہے ہوتے۔ اس کے بالوں، کپڑوں، بھنؤوں پہ روئی جمی ہوتی پہلی نظر میں وہ عمر رسیدہ بوڑھا نظر آتا جو روئی سے بنا ہوا لگتا۔ اس کے سامنے ایک دیسی قسم کا آلہ نظر آتا جس میں رسی کسی ہوئی نظر آتی۔ روئی ان رسیوں کے درمیاں آتی، وہ ہاتھ میں پکڑی چھڑی روئی پہ زور زور سے مارتا۔ تنی ہوئی رسی پہ ردھم سے برستی چھڑی۔ لگتا سات سروں کی بارش ہو رہی ہو۔

موسم سرما میں سردی کی شدت کے سامنے ڈھال بن جانے والی نرم گرم روئی پٹخنیاں کھا کھا کر پتھر بن چکی ہوتی۔ دھنیے کے پاس پہنچنے کے بعد یہ پتھر پھر سے تار تار ہونے کے لیے تیار ہو جاتا۔ دھنیا اپنی مشین میں سے بار بار گزارتا۔ جب روئی پھول کر اور ریشہ ریشہ بن کر نرم و نازک ہو جاتی تب اسے ان غلافوں میں بھرا جاتا جو امی نے دھو اور سکھا کر بھیجے ہوتے۔ دھنیے کے پاس سے رضائیاں ایسے نکلتیں جیسے وہ ماں کے پیٹ سے ابھی ابھی نکلیں ہوں!

گھر میں امی اپنے ہتھیار تیز کر رہی ہوتیں جن میں سوتر نما موٹا دھاگہ اور انگلی جتنی لمبائی کی سوئیاں ہوتی ہیں۔ اس موٹی لمبی سوئی کو کھندوئی کہا جاتا۔ امی ایک ایک کر کے ہر رضائی صحن میں بچھی دری پہ بچھاتیں اور پھر ڈوری اور کھندوئی کا کھیل شروع ہوتا جس کو رضائی نگندنا کہا جاتا۔ اس کی خاص تکنیک یہ تھی کہ کھندوئی کی قامت جتنا ٹانکہ اس مہارت سے لیا جاتا کہ اس کا بیشتر حصہ رضائی کے اندر رہتا جسے ڈنگا کہا جاتا اور رضائی کے باہر دونوں طرف چھوٹے چھوٹے ٹانکے نظر آتے۔

کھندوئی کا سفر رضائی کے ایک کونے سے شروع ہوتا اور دوسرے کونے پر پہنچ کر بھی ختم نہ ہوتا بلکہ ایک اور چکر شروع ہو جاتا۔ اس چکر در چکر میں رضائی کی سلائی جاری رہتی۔ کبھی کبھار امی زیادہ موڈ میں ہوتیں تو سیدھے سادھے چکر کی بجائے پھولوں اور پتوں نما کوئی ڈیزائن بنانا شروع کر دیتیں۔ ان کی مہارت اور انہماک قابل دید ہوتا۔ ہم امی کے پاس بیٹھ کر یہ سارا عمل بہت دل چسپی سے دیکھتے۔ اس وقت تو نہیں لیکن آج احساس ہوتا ہے کہ ہماری امی ایک آرٹسٹ تھیں اور اپنے ہنر اور نفاست کا مظاہرہ ہر کام میں کرتی تھیں۔

دیکھیے بات شروع ہوئی تھی کھندوئی اور ڈنگے کی مثال دینے سے۔ مگر بات بڑھانے سے پہلے ہم نے سوچا کہ آپ کو کھندوئی اور ڈنگے کا پس منظر بتا دیا جائے۔ ماں کا ذکر جس بھی بہانے سے کیا جائے، وہ جسم و جاں کو جس زمانے میں لے جاتا ہے وہ لطف کسی بھی اور طریقے سے ممکن نہیں!

انسانی جسم کی سلائی بھی اسی مہارت، انہماک، نفاست اور محبت کا تقاضا کرتی ہے۔ جسم کی پرت پہچان کر ہی فیصلہ کیا جاتا ہے کہ پتلا دھاگہ اور چھوٹی سوئی استعمال کی جائے یا موٹا دھاگہ اور بڑی سوئی۔ سلائی کرتے ہوئے ہر ٹانکہ لیتے ہوئے سوئی کو کہاں سے گزارا جائے اور گرہ کہاں لگائی جائے کا فیصلہ بھی یہ بتائے گا کہ سرجن کے ہاتھ میں کس قدر ہنر موجود ہے۔

جس طرح کپڑوں کی سلائی اور کٹائی ہر درزی کر سکتا ہے چاہے وہ کسی بوتیک میں موجود ہو یا کسی چھوٹی سی دکان میں کہ بنیادی تکنیک ایک سی ہے۔ مگر کون سا درزی ان کپڑوں کو ایک آرٹ کی شکل دے گا اور کون سا انہیں تھیلا بنا دے گا یہ فیصلہ اس درزی کی مہارت اور اپنے فن سے محبت کرے گی۔

یہی بات سرجری میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ کچھ سرجنز انسانی جسم کو بوری سمجھ کر سلائی کرتے ہیں اور کچھ ریشم۔ کچھ کے نزدیک اس سلائی کا مقصد کٹے ہوئے جسم کو جوڑنا ہی تو ہے چاہے آڑے ترچھے طریقے سے ہی کر دیا جائے مگر کچھ کے نزدیک کٹے ہوئی جسم کو اصل کی طرح بنانا ایک آرٹ ہے۔

کچھ سرجنز کی سلائی دیکھ کر ہم خود ڈر جاتے ہیں اور دل ہی دل میں کھندوئی اور ڈنگے یاد کرتے ہیں جو رضائی سینے کے لیے تو زبردست ہیں مگر انسانی جسم کے لیے نہیں۔ انسانی جسم پتلی چھوٹی سوئی اور باریک دھاگے کے ساتھ فنکار ہاتھ مانگتا ہے۔

چلتے چلتے آپ کو امی کی ایک اور بات سناتے چلیں۔ جب کبھی وہ گراسری کر کے گھر آتیں۔ مرغی کا کٹا ہوا گوشت اگر انہیں پسند نہ آتا تو بڑبڑاتے ہوئے کہتیں۔ نکنڈ قصائی ستیاناس کر دتا گوشت دا۔ پتہ ای نہیں بوٹی کیویں بنانی اے۔ ( اناڑی قصائی نے گوشت کا ستیا ناس کر دیا، جانتا ہی نہیں بوٹی کیسے بنانی ہے؟ )

سو دعا کیجیے کہ جب آپ سرجن کی میز پہ لیٹے ہوں، آپ کو کھندوئی اور ڈنگوں کی بجائے آرٹسٹ سرجن ملے جو نکنڈ نہ ہو اور چاقو کو پینٹر کی طرح استعمال کرنے پہ یقین رکھتا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments