جھیل ہیورون کا ویران جزیرہ اور بحری جہازوں کا قبرستان


سحری سے پہلے نکل کوئی چار گھنٹے کار چلاتے ہم دونوں بھائی لیک ہیورون ( Lake Huron ) کے کنارے آباد قصبہ ٹوبر موری (Tobermory) کے ریسٹورنٹ میں بیٹھے ناشتہ کرتے گپیں لگا رہے تھے۔ یہ ریسٹورنٹ جھیل سے نکلتی گھنے درختوں کے جھنڈ سے گزر کے آتی پانی کی کھاڑی کے کنارے تھا، جس میں خشکی سے جھیل میں پرائیویٹ کشتیاں اتارنے کی ڈھلوان اور پانی کے اندر ان کی پارکنگ کا مرکز ہے جسے میرینا کہا جاتا ہے۔ کھاڑی کے ساکن پانی میں کچھ دیر قبل طلوع ہوئے سورج کی کرنیں اور بلند و بالا گھنے درختوں اور بادبانی کشتیوں اور چھوٹی بڑی موٹر بوٹ کے عکس کا امتزاج ایک الگ ہی نظارہ پیش کر رہا تھا۔

ہماری پہلی منزل ٹوبر مری سے مشرقی جانب جارجیئن بے کی حدود میں شمار ہوتا ساڑھے چھ کلو میٹر دور فلاور پاٹ نامی دو مربع کلومیٹر پر محیط گھنے جنگلوں اور بلند اونچے نیچے جاتے پگڈنڈیاں لئے بالکل بے آباد ویران جزیرہ تھا۔ جو گرمیوں میں مقبول تفریح گاہ اور ہائیکنگ کا مرکز بن چکا ہے۔ بھائی جان خود جزیرہ کو جاتی کشتیوں کا پتہ کرنے نکلے اور میں کچھ دور پارکنگ میں کھڑی کار سے پانی اور خورد و نوش والے بیک پیک اٹھانے نکل پڑا۔

کار کے نزدیک پہنچا ہی تھا کہ دور پیچھے سے بھائی جان کی آواز آئی کہ وہ ٹکٹ خرید چکے ہیں اور پانچ منٹ میں کشتی نکلنے والی ہے بھاگ کے آؤ۔ بد حواسی میں اس بندے کو بیک پیک نکالنا بھول گیا اور دوڑتے ہم لکڑی کے تختے کے ساتھ لنگر انداز پچیس تیس سیاح لے جانے والی شفاف شیشے سے بنے پیندے والی کروز بوٹ پہ بیٹھنے والے آخری مسافر تھے۔ کشتی درمیانی رفتار سے چل رہی تھی۔ جھیل کا پانی بھی اس علاقے میں بالکل شفاف ہے اور شفاف شیشے کے پیندے سے نیچے جھیل میں دوڑتی ناچتی رنگ برنگی چھوٹی بڑی مچھلیاں سورج کی کرنوں کی قوس قزح میں دل موہ رہی تھے۔

Tobermory Ontario

نیچے جھیل میں ڈوبی کسی پرانے زمانے کی اب کھنڈر بنی کشتی کے باقیات نظر آرہے تھے اور کروز بوٹ کے لاؤڈ سپیکر سے سیاحوں کو اس علاقے کی تاریخ سے آگاہ کیا جا رہا تھا۔ نیلگوں جھیل میں کروز بوٹ کے پیچھے بنتی لہریں اور لکیریں سورج کی کرنوں میں چمک اپنی بہار دکھا رہی تھیں تو سامنے دور ابھرتا ہوا جزیرہ ہر لمحہ وہاں کے جنگلوں کے گھنے پن اور بلندی تک پہنچے ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔ کٹے پھٹے ساحل کے ساتھ بعض جگہ عمودی چٹانیں نظر آ رہی تھیں۔ کوئی پچاس منٹ بعد ہم جزیرہ کے چھوٹے سے ڈاک یارڈ کے تختہ پر کھڑے سوچ رہے تھے کہ اب کرنا کیا ہے اور جانا کدھر ہے۔ ہمارے پاس نہ پانی تھا نہ کھانے کوئی سامان۔ ہم تو جزیرے پہ گھومنے کی راہوں کا نقشہ بھی کار میں بھول آئے تھے۔ ادھر ہمارے اتنا سوچتے باقی سیاح دائیں بائیں پگڈنڈیوں پہ غائب ہو چکے تھے۔

ہم دائیں طرف اونچی جاتی پگڈنڈی پہ نکل لئے۔ پہلی مرتبہ تھا کہ سیر و سیاحت کے لئے جاتے ہم بغیر مکمل معلومات لئے بھاگ نکلے تھے۔ کہ پروگرام اچانک بنا تھا۔ دائیں طرف جھیل کے ساحل کے کنارے اونچی عمودی سی چٹان کی طرف پتلی سی لکیر سی پگڈنڈی پہ آگے بڑھے تو نیچے جھیل کے پانی میں پڑی چٹانوں پر ایک خاندان ڈیرہ ڈالے پکنک کی تیاری میں مصروف تھا۔ ذرا آگے نیچے جاتے ایک اور راستے کے اختتام ایک جوڑا نہانے کے لباس میں چٹان پہ بیٹھے ٹانگیں پانی میں لٹکائے آپس میں فنا تھا۔

اب ایک پگڈنڈی اوپر کو جا رہی تھی اور موڑ پہ ایستادہ لکڑی کے اوپر لائٹ ہاؤس یعنی روشنی کے مینار کو جاتی راہ کی اطلاع تھی۔ اسی طرف ہو لئے۔ بے ترتیب سی تیز چڑھائی والی اس پگڈنڈی پر کہیں کہیں پتھر رکھ اونچی نیچی سیڑھیاں بتانا شروع ہو گئیں کہ بڑا بھائی تہتر چوہتر اور چھوٹا ستر کے لگ بھگ بھی ہے اور دل ناداں کی نادانیوں کا خمیازہ بائی پاس کی صورت میں کروا چکا ہے۔ سانس لینے رکے تو سامنے ٹوٹے درختوں کی لمبی ٹہنیوں پہ نظر پڑی۔

اچانک مجھے فلموں میں جنگل میں بھٹکے مہم جوؤں کے ہاتھ میں ان ٹہنیوں کو لاٹھی بنا دیکھنا یاد آیا۔ چند منٹ بعد ہم دونوں بھائی ایسی لاٹھیاں تراش ان کے سہارا لئے آگے بڑھ رہے تھے۔ اب ہائیکنگ کا مزا آ رہا تھا اونچی نیچی مشکل آسان چڑھائی اترائی اور خاموش پرسکون جنگل کا فسوں رنگ جما رہا تھا اور جگہ جگہ لائٹ ہاؤس اور دیگر جگہوں کی طرف رہنمائی کرتے تیر کے نشان ہمیں لائٹ ہاؤس کی طرف لے جا رہے تھے۔ پیاس بھی تیز ہونے لگی۔

مگر درختوں کے بیچ اگی بیلیں اور رنگ برنگے پھول اور جھاڑیاں، بہت چوڑے پتوں والے خوبصورت پودے اور سبزہ اور اچانک ہوا کے تیز جھونکوں سے پتوں کی سرسراہٹ اور پودوں کا جھومنا ہمیں اپنے جادو میں لپیٹ رہا تھا۔ دو تین جگہ سیاحوں کے چھوٹے چھوٹے گروہ یا فیملیز یا بوڑھے جوان جوڑے ہیلو ہائے کرتے سامنے سے آتے یا پیچھے سے آگے نکلتے تو مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا۔ جھیل کا پانی اونچائی سے جھلکیاں دکھانے لگا اور ہم اس کی طرف اترتے چلے گئے۔

یہاں کچھ ہموار ساحل تھا اور ریت بھی تھی۔ باغیچہ سا بنا ہوا اور ایک دو بنچ پڑے تھے۔ سامنے ایک چھوٹی سی بلڈنگ کے کونے پر جھیل کنارے چالیس پچاس فٹ بلند لائٹ ہاؤس کھڑا تھا۔ مگر نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔ ایک دکان سی تھی مگر بند تھی۔ دور سے ایک بندہ آتا نظر آیا۔ تسلی ہوئی۔ مسکراتے ہیلو ہائے کرتے وہ بتا رہا تھا کہ چھوٹا سا سنیک بار تھا مگر سیاح اپنا پورا کھانے پینے کا انتظام ساتھ لاتے ہیں تو چل نہ سکا۔ سکے والا سنیک اور مشروبات فریج اتفاقا ”خراب تھا۔

البتہ دور درختوں میں پانی کی ٹونٹی کی طرف اشارہ کیا جہاں ہم پیاس بجھا سکتے تھے۔ روشنی کے مینار کا نگران رات کو جزیرہ پہ موجود رہنے والا واحد فرد تھا اور وائرلیس سسٹم اس کا واحد رابطہ۔ کچھ سستانے کے بعد اس کی رہنمائی کے مطابق آگے بڑھ رہے تھے۔ دور سے جھیل کنارے دو ایک جیسے لگتے اونچے چٹان سے بنے ستون نظر آرہے تھے اور بالکل ایسا لگتا تھا جیسے کسی بہت بڑی عمارت کے گیٹ کے ستون ہوں جن کے اوپر بہت بڑے بڑے پھولوں والے گملے رکھے گئے ہوں۔

صدیوں پرانے پہاڑی چٹانوں کی ٹوٹ پھوٹ کی باقیات یہ ایک تین ستون تھے جن میں ایک انیس سو تین میں گر کے جھیل کے پانی میں بکھرا پڑا نظر آ رہا تھا۔ ان ستونوں کی شکل نے جزیرے کو فلاور پاٹ کا نام بخشا تھا۔ اب ہم واپس ڈاک یارڈ کو جاتی راہیں بتاتی تختیوں کی رہنمائی لیتے دوبارہ کبھی جنگل سے گزرتے کبھی جھیل کنارے اچھلتی شور مچاتی نیلی لہروں کو رُک دیکھتے، آتے جاتے راہیوں سے مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے، بالآخر ڈاک یارڈ پہنچ چکے تھے اور اتنی دیر مدد گار رہی لاٹھیوں کا شکریہ ادا کرتے چوم کے جنگل میں لٹا چکے تھے۔

چند مسافر واپس جانے والی کشتی کے منتظر قطار بنائے کھڑے تھے۔ ابھی تین بجے تھے، ہم چار پانچ گھنٹے یہاں گزار چکے تھے مگر ہماری واپسی چھ بجے شام والی سپیڈ بوٹ میں تھی۔ چھوٹا سا دفتر نظر آیا۔ بھائی جان ادھر بڑھے اور تھوڑی دیر بعد واپس آ خوش خبری دی کہ جس بھی واپسی والی سپیڈ بوٹ میں جگہ ہوئی وہ اس میں ہمیں بھی ٹھونس دے گا۔ اور خوش قسمتی کہ پہلی ہی کشتی میں جگہ تھی اور اب ہم واپسی کے لئے بہت تیز رفتار سپیڈ بوٹ میں سوار تھے۔ پتہ نہیں نہیں کہاں گھومے تھے کتنا سفر کیا تھا۔ کس کس مشکل سینکڑوں فٹ اونچی جاتی چڑھائی یا اترائی طے کی تھی۔ تھکاوٹ پیاس اور اب بھوک سے برا حال تھا مگر ہمارے چہرے خوشی سے چمک رہے تھے اس پانچ گھنٹے کی ریاضت نے ہمارا اعتماد دوبارہ بحال کر دیا تھا کہ ہم ابھی بڈھے ہوئے ہیں، بڈھے کھوسٹ نہیں۔

اب ہم عام کشتی پہ نہیں سپیڈ بوٹ کے مسافر تھے۔ جو چلتی نہیں اڑتی لگتی۔ شفاف شیشے کے پیندے سے نیچے کے مناظر پہ نظر نہ ٹکتی۔ اور سہ پہر کی خوشگوار دھوپ اور تیز ہوا جھیل کی لہروں کو چمکتے سونے کی پھوار بنا چکی تھیں۔ تیز ہوا ہماری ٹوپیوں کو دہائیوں اور صدیوں پہلے غرق شدہ کشتیوں کی طرف پارسل کر چکی تھی۔ سپیڈ بوٹ کی رفتار آہستہ ہونا شروع ہوئی۔ اب یہ ذرا شمال کی طرف جا کے بہت آہستہ رفتار پہ آ چکی تھی اور گائڈ ہمیں اپنے پاؤں کی طرف کشتی کے پیندے سے جھیل کے شفاف پانی میں ڈوبی کشتیوں کی طرف متوجہ کر رہا تھا۔ کہیں تھوڑے کہیں گہرے پانی میں گل سڑ چکی کائی لگی کشتیوں کے ڈھانچے نظر آنا شروع ہوچکے تھے۔ ذرا گہرے پانی کی طرف بڑھے تو چالیس پچاس فٹ کی گہرائی پہ بادبانی بحری جہاز تھا۔ اب ہم بحری جہازوں کے قبرستان کی طرف بڑھ رہے تھا۔

ملاح بتا رہا تھا کہ امریکہ کی دریافت کے بعد جب شمالی امریکہ توجہ کا مرکز بنا تو یورپین لوگ مہم جوئی کرتے یہاں پہنچے۔ گھنے جنگلات اور جھاڑیوں سے بھرپور اکثر ناہموار علاقوں میں گزرگاہیں ناپید اور اور جنگلی قبائل کا راج تھا۔ ادھر قدرت نے فراخ دلی سے پانی کے راستے مہیا کیے تھے۔ موجودہ کینیڈا کے مشرقی ساحل سے شروع ہوتا دریائے لارنس گریٹ لیکس کہلاتی چھ بہت ہی بڑی اور بے شمار چھوٹی جھیلوں سے قدرتی منسلک ہے اور مشرقی ساحل سے مغرب کی طرف موجودہ یو ایس اے میں سینتیس سو کلو میٹر اور شمال مغرب کو چار ہزار سے زائد کلو میٹر تک پانی کی راہیں فطرت کی فیاضی کا مظہر ہیں۔

چنانچہ بڑھتے یورپین مہم جوؤں نے یہ راستے لئے اور ریل اور سڑکوں کی سہولت مہیا ہونے تک سینکڑوں چھوٹے بڑے ماہی گیری گھاٹ یا بندر گاہیں یا ڈاک یارڈ قائم ہو چکی تھیں۔ یہ بادبانی یا چپو والی کشتیاں یا بعد میں پہلے بادبانی اور پھر دخانی جہازوں سے تجارت اور سفر کے فروغ ہوئے کہ رابطہ کا سب سے آسان راستہ تھے۔ ( جدید اسلحہ سے لیس نوواردوں کے اصل قدیمی قبائل کو زیر کرنے کے لئے وحشت و بربریت اور سازشوں اور خشکی و پانی میں رہنے والے جانور بیور ( بی ور ) کی انتہائی قیمتی فر کے لئے لڑائیوں تباہیوں اور جنگوں کی لمبی تاریخ ہمارا موضوع نہیں۔

) خراب موسم، طوفانوں، تکنیکی خرابیوں یا آپس کی لڑائی او جنگوں میں اکثر کشتیاں اور جہاز غرق ہو جاتے۔ ٹوبر مری بندر گاہ جو ہیورون جھیل کی حد میں ہے۔ پہ ساحل کے بالکل نزدیک یا چند کلو میٹر کے اندر کوئی بائیس بڑے چھوٹے بادبانی اور دخانی جہازوں اور بے شمار کشتیوں کے ڈھانچے یا ان کے حصے گلے سڑے موجود ہیں۔ پانی شفاف ہوتے کشتیوں کے شفاف مضبوط شیشے کے پیندوں سے ان کا نظارہ مسحور کن بھی ہے اور لرزہ بھی طاری کرتا ہے۔

گائڈ کی باتیں تو ہوا اور مسافروں کی حیرت کی چیخوں میں گم رہی۔ اور کوئی جلا ہوا جہاز، کوئی الٹا پڑا ٹوٹا بکھرا جہاز کہیں صرف لنگر وغیرہ اور دوسرے پرزے اور کہیں دخانی جہاز ڈوبے اور ٹکڑوں میں کائی جمے اب عبرت کا سامان بنے حیرت کدہ بنے تھے۔ گائڈ اب ہر جہاز کا نام معلوم حد تک ان راہوں پہ چلنے کا زمانہ اور ڈوبنے کی وجہ بتا رہا تھا مگر صرف اتنا سمجھ سکے کہ ہم نے صرف چار پانچ جہاز دیکھے ہیں جبکہ چند مربع کلو میٹر میں جھیل کا یہ شفاف پانی کوئی بائیس بحری باد بانی و دخانی چالیس سے لے ایک سو گیارہ میٹر تک لمبے جہازوں کے علاوہ ان گنت کشتیوں کا مدفن اور قبرستان ہے۔ تمام جھیلیں اور پرانے بحری راستے ان سے بھرے ہیں۔ مگر اس علاقے کا شفاف پانی سب سے بڑے قبرستان کو نمایاں کر گیا۔ اور ہم یہ بھی سوچ رہے تھے کہ کتنے ہزار یا لاکھ انسانوں کی جانیں بھی بحری راستے ان جھیلوں اور آبی گزرگاہوں کی آغوش میں پھینک چکے

سپیڈ بوٹ لنگر انداز ہو چکی تھی اور ہم دونوں کھانے کی تلاش میں بھاگتے جو پہلی طعام گاہ نظر آئی اس میں گھس کے پیٹ پوجا کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر قریبی خوبصورت پارک میں آرام کیا اور اپنی تھکاوٹ پہ رحم کرتے اگلے روز کا پروگرام منسوخ کرتے یہ بدھو کار میں بیٹھے گھر کو لوٹ رہے تھے۔

گزشتہ اگست بیٹی سے ملنے ونی پیگ گئے تو بچوں نے پکنک اور مچھلیاں پکڑنے کا پروگرام بنایا اور کوئی پون گھنٹہ سفر کے بعد ریڈ ریور ( سرخ دریا ) کے کنارے سیلکرک نامی قصبے کے سرے پہ بنی خوبصورت سیاحتی پارک جا پہنچے۔ ساتھ بڑے سر سبز میدان میں صوبہ مینی ٹوبہ کی طرف سے قائم کیا گیا میرین میوزیم میرے لئے خصوصی دلچسپی کا باعث تھا۔ میں تو ادھر کو ہو لیا۔ یہ جگہ پرانے دنوں کی ایک چھوٹی سی مگر معروف دریائی بندرگاہ تھی۔

دو لائٹ ہاؤس اور دفاتر کی باقیات، گیٹ اور دو ڈاک یارڈ موجود تھے۔ چھوٹی بڑی چپو والی کشتیاں اور جہاز موٹر بوٹ سجے تھے۔ ایک بادبانی اور پانچ دخانی جہازوں کو ساتھ کھڑا کر کے آپس میں گیلریاں بنا ملاتے اندر اٹھارہ سو پچاس سے انیس سو بہتر تک کی جھیل ونی پیگ اور ریڈ ریور کی بحری مسافر بردار اور مال بردار جہاز رانی کی تاریخ، ورثہ اور ثقافت فوٹوز اور اشیاء کا ایک عجائب گھر تھا۔

یہ عجائب گھر مجھے اسی تاریخی ورثہ کا ٹوبر موری کے قریب جھیل کی تہ میں نمائش بنا قبرستان ذہن میں گھوم گیا۔ اب گھر آ کے میں میں انٹرنیٹ اور گوگل کے عجائب گھر میں ڈوب چکا تھا اور بہت بہت مختصر ملاح سے منسوب اوپر درج کردہ فقرات لکھے۔ ورنہ یہ انسانی عزم و ہمت، محبتوں نفرتوں، وحشت درندگی اور سیاسی داؤ پیچ کی آلودگیوں اور عقل انسانی کے ترقی کی طرف بڑھتے قدموں کی تاریخ ہے۔ یہ بڑھتے قدم پرانے زمانے کی جہاز رانی ختم کرا چکے۔

وہ گھاٹ، ڈاک یارڈ اور اکثر بندر گاہیں قصۂ پارینہ ہو چکیں۔ اب کوئی نہیں سوچتا کہ جھیل ہیورون میں ٹوبر موری سے تھنڈر بے جانے سے بذریعہ سڑک جانے کی نسبت چھ سات سو کلومیٹر کم فاصلہ ہے۔ اب تفریحی جہاز بجرے اور کشتیاں چلتی ہیں۔ جہاز رانی جدید خطوط پہ استوار ہو چکی قدرت کا تحفہ سینٹ لارنس دریا سے شروع ہوتے بے شمار جھیلوں کے رابطہ والا سی وے کہلاتا یہ بحری راستہ اب بھی امریکہ کینیڈا کی آٹھ ریاستوں یا صوبوں میں سو کے قریب بندر گاہیں اب بھی مال بردار کا بڑا ذریعہ ہیں۔ تفریحی کروز جہازوں کشتیوں کا دور آ چکا۔

ہماری تیرہ برس قبل کی فلاور پاٹ کی دیکھی ویرانی کے بعد اب وہاں کیمپنگ اور دوسری تفریحات کا آغاز ہو چکا۔ اب لائٹ ہاؤس کا نگران وہاں رات گزارنے والا واحد انسان نہیں ہوتا۔ اور ہاں، وہ بحری جہازوں اور کشتیوں اور ان کے ساتھ انسانی جسموں کا جھیل میں ڈوبا قبرستان، قبرستان نہیں تفریح گاہ بن چکا۔ کئی ادارے بن چکے جہاں دور دراز کے شہروں اور ملکوں سے سیاح آتے ہیں اور غوطہ خوری، سکوبا ڈائیونگ اور تیراکی کرتے ان ڈوبے جہازوں اور کشتیوں کے اندر تک پہنچ تک لطف اٹھاتے مزے لیتے ہیں۔ اب وہ عبرت کا سامان ہر طرف تفریح کی نمائش بن چکی۔ یہی زندگی کے میلے ہیں۔ یونہی دنیا بدلتی ہے۔ اسی کا نام دنیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments