کیا ججز کی تقرری ہی عدلیہ کی آزادی ہے؟
گزرتے وقت مین بدلتی ضروریات کے تحت آئین میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ یہ تبدیلیاں اگر عوامی مفادات کے تابع ہیں تو ایسی تبدیلیاں وقت کا تقاضا بن جاتی ہیں اور معاشرہ بہتری کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔ اگر حکمران کے مفادات کی پیروی کریں تو یہ اداروں میں جنگ و جدل کا موجب بنتی ہیں۔ اور ملک مین ہیجانی کیفیت برپا ہو جاتی ہے۔ آج کل بھی 26 ویں آئینی ترمیم کا چرچا ہے جس مین ججوں کی تقرری اور آئینی عدالتوں کے قیام کی بات کی جا رہی ہے۔ اب یہ دیکھنا ہو گا کہ ریاست کے تین ستونوں میں سے ایک ستون کے سربراہ کے انتخاب کا طریقہ کتنا شفاف اور ادارے کی ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے لے کر چلنے والا ہے۔
پاکستان چونکہ ایک نو آبادیاتی ملک ہے جہاں کا انتظامی، سیاسی، تعلیمی اور معاشی ڈھانچہ بھی نو آبادیاتی نظام کا مرہون منت ہے۔ یہاں کی عدالتیں خاص طور پر جاگیردار اشرافیہ کو سہولت فراہم کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ پاکستان بننے سے لے کر اب تک جتنے بھی ہائی پروفائل کیسز ہیں بیشتر میں عدالتیں جانبدار ہی نظر آئی ہیں اور ایک خاص طبقے، محکمے یا گروہ کو فائدہ دیتی دکھائی دیں۔ اس کی وجہ سربراہ کے انتخاب کا طریقہ کار ہے یا عدالتوں کا نظام ہی ایسا ہے کہ ہمیں شفافیت نظر نہیں آتی۔
18 ویں ترمیم سے پہلے چیف جسٹس کی تقرری کا جو طریقہ رائج تھا اس کے مطابق صدر پاکستان چیف جسٹس کے تجویز کردہ پینل میں سے ایک منتخب کرتا تھا۔ لیکن اٹھارہویں ترمیم کے مطابق آرٹیکل 175 میں جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کا اضافہ کیا گیا۔ تاکہ طریقہ کار کو مزید شفاف بنایا جا سکے۔ اس جوڈیشل کمیشن کا چیئرمین چیف جسٹس ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کے چار سینیئر ترین جج، سابقہ چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کا سابقہ جج دو سال کے لیے، قانون کا وفاقی وزیر، اٹارنی جنرل اور سپریم کورٹ کا سینیئر ایڈووکیٹ جو پاکستان بار کونسل دو سال کے لیے منتخب کرتی ہے۔
جبکہ پارلیمنٹری کمیٹی مین چار ممبر قومی اسمبلی کے اور چار ممبر سینٹ کے جس میں اپوزیشن کی نمائندگی بھی ہوتی ہے۔ اس طریقہ کار میں ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں شفافیت کی کوشش کی گئی۔ پارلیمانی کمیٹی جوڈیشل کمیشن کی تجاویز پر غور کرنے کے بعد صدر کو بھیجتی ہے جو چیف جسٹس آف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کی تقرری کرتے ہیں۔ اس ترمیم کے بعد عدلیہ کی آزادی کا ایک دور شروع ہوا جس میں سیاسی عمل دخل کافی حد تک کم ہوا لیکن اس دور مین بھی عدالتیں اپنے فیصلے مین آزاد نظر نہیں آئیں اور جلد ہی 19 ویں ترمیم بھی آ گئی جس میں یہ کہا گیا کہ اگر پارلیمانی کمیٹی جوڈیشل کمیشن کے کسی نام کو ریجیکٹ کرتی ہے تو اسے اس ریجیکشن کو پورے دلائل کے ساتھ ثابت کرنا پڑے گا اپنی پسند یا نا پسند کا اظہار نہیں کیا جائے گا اور پارلیمانی کمیٹی پہلے تجویز کردہ نام وزیر اعظم کے ذریعے صدر کو بھیجے گی۔
پچھلے کئی سالوں سے چیف جسٹس سینیئر ترین جج ہی ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی ہر چیف پہ جانبداری کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ خاص طور پہ ان ججز پہ جو جوڈیشل ایکٹیوزم کا شکار بھی ہوئے ہیں۔ اور ان کے ناقدین نے انہیں آڑے ہاتھوں بھی لیا۔ جوڈیشل ایکٹیوزم میں سب سے زیادہ رول سو موٹو نوٹسز کا بھی ہے۔ چیف جسٹس کسی بھی ہاٹ ایشو پہ سو موٹو نوٹس لے کے میڈیا اور عوام میں پذیرائی چاہتے ہیں۔ لیکن نظام کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ لاکھوں کیسز التوا کا شکار رہتے ہیں۔ اب 26 ویں ترمیم کا جو ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے اس میں کہا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس تین نام تجویز کرے گا اس میں سے ایک کا انتخاب ہو گا۔ اس کے پیچھے جو وجہ بیان کی جا رہی ہے کہ عدلیہ کو کسی نا کسی طرح حکومت کے تابع رکھنا ہے تاکہ ون مین شو ختم ہو۔ اور سو موٹو نوٹس کا اختیار واپس لینے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ اور جو اچھی بات ہے
اس ترمیم میں یہ ہے کہ آئینی معاملات کے لیے آئینی عدالتیں بنائی جائیں تاکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس سے آئینی کیسز کا بوجھ کم ہو اور عوام کی انصاف تک رسائی جلد اور آسان ہو۔ لیکن اس ترمیم پہ ابھی ساری بحثیں بے نتیجہ ثابت ہو رہی ہیں۔ شاید کچھ ٹائم اور لگے۔ ایسے معاملات میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ ہم پچھلے ستتر سالوں میں بڑے تجربات کر چکے ہیں۔ چاہیے سینیئر ترین جج لگا دیں یا جوڈیشل کمیشن یا پارلیمانی کمیٹی کو بھی شامل کر لیں ہمیں انصاف کے تقاضے کم ہی پورے ہوتے نظر آتے ہیں۔ بہت زیادہ سیاسی پولرائزیشن کی وجہ سے عوام بھی بٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اب سسٹم تبدیل کریں۔ نو آبادیاتی نظام کے اثر سے نکلیں یا تقرری کا سخت ترین طریقہ کار اپنائیں اپنے ذاتی/پارٹی کے مفادات کی گردش سے نکلیں اور عوام کے لیے سوچیں، اداروں کو ان کی حدود میں محدود کریں تو ہی شاید ججوں کے لیئے انصاف کرنا ممکن ہو۔
- کیا ججز کی تقرری ہی عدلیہ کی آزادی ہے؟ - 19/09/2024
- مودی کا الیکشن - 10/06/2024
- بلوچستان اور میڈیا - 28/08/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).