ڈاکٹر شاہنواز ملا کی زبان سے قتل ہوا ہے
اُس صحرا سے ہو کر آیا ہوں جہاں توہین مذہب کے الزام میں قتل ہوئے ڈاکٹر شاہنواز کمبھار کی میت پہ کچرا اور سوکھی گھاس ڈال کر آگ لگادی گئی تھی۔
ڈاکٹر شاہنواز کے والد کے ڈرائیور پریمو کولہی نے ٹریکٹر کی مدد سے ایک گڑھا کھودا اور ڈاکٹر شاہنواز کی ادھ جلی لاش کی راکھ ہڈیاں اور جسم سمیٹ کر اس گڑھے میں دفن کیا تھا۔
جہاں ایک عمر رسیدہ باپ اپنے نوجوان بیٹے کی لاش لئے قبرستانوں کے دروازوں پہ ٹھوکریں کھاتا رہا مگر کسی بھی قبرستان میں ڈاکٹر شاہنواز کے لئے دو گز زمیں میسر نہ ہو سکی۔
جہاں ڈاکٹر شاہنواز کی بے ردا بوڑھی ماں اپنے بیٹے کا آخری دیدار کرنے کے لئے اس قبرستان سے اس قبرستان تک بھاگتی رہی مگر اس کے آخری دیدار سے پہلے اس کے نوجوان بیٹے کے چہرے کی شناخت مسخ کر دی گئی تھی۔
اس زمین سے ہو کر آیا ہوں جہاں اس زمین کے مالک کو اپنی زمین میں دفن کرنے کے لئے اس کا بوڑھا باپ انتہا پسند ہجوم سے گڑگڑا کر اجازت مانگتا رہا مگر اجازت نہ ملی۔
اس عمر رسیدہ دین دار باپ کا دکھ کوئی بیاں کر سکتا ہے جس کی آنکھوں کے سامنے اس کے نوجوان بیٹے کی لاش کو آگ لگا دی گئی ہو جو اپنے بیٹے کی لاش کو لگی آگ بجھانے سے بھی بے بس رہا ہو۔
انیس ستمبر کو جب فیس بک کھولی تو صرف خوف میں مبتلا اپنی گردنوں میں لاتعلقی کے اشتہار لٹکائے لوگ نظر آئے۔
خود کو اہل علم اہل دانش اور باشعور سمجھنے والے لوگوں نے اپنے ہونٹ سی لئے تھے۔
جو بدستور سلے ہوئے ہیں۔
بھلا ہو سردار شاہ صاحب کا جس کی جرات گفتار نے سوشل میڈیا پہ موجود لوگوں کی زباں کی گرہ کھولی قلم کو جنبش دی۔
جس وقت پریمو کولہی ڈاکٹر شاہنواز کی ادھ جلی لاش اس کے بزرگ والد کے ساتھ مل کر گڑھے میں دفن کر رہا تھا میں نے فیس بک پر ایک سوال کیا تھا
”جب سارے لوگ مان رہے ہیں کہ فیس بک آئی ڈیز ہیک ہو رہی ہیں ہیک ہو سکتی ہیں ممکنہ آئی ڈی ہیک ہونے سے پہلے اس سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں تو ڈاکٹر شاہنواز کمبھار کی آئی ڈی کیوں ہیک نہیں ہو سکتی“
مگر ڈر کا یہ عالم تھا کہ کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا۔
اٹھارہ اور انیس ستمبر کی درمیانی شب سندھڑی میں پولیس کے ہاتھوں توہین مذہب کے الزام میں ماورائے عدالت قتل ہوئے ڈاکٹر شاہنواز کمبھار کی ہلاکت کے بعد عدم تشدد کی داعی صوفی سندھ کی نارنجی روح مجروح ہو گئی ہے۔
بڑے عرصے سے ایک منظم سازش کے تحت سندھ میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ سندھ کی تصوف امن پسند مساوات والی شناخت کو مسخ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ڈاکٹر شاہنواز کا سندھ کے جس خطے سے تعلق تھا وہاں وہ آبادی اکثریت میں ہے جسے اقلیت کہا جاتا ہے اول تو سرے سے یہ اقلیت و اکثریت والا کانسیپٹ ہی ہی احمقانہ ہے کسی بھی ریاست میں اس کے شہری برابری بنیادوں پر اس ریاست کے شہری ہوتے ہیں اقلیت اکثریت نہیں۔
نظام سب کے لئے برابر ہوتا ہے۔
اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ڈاکٹر شاہنواز کے قتل سے صحرائے تھر اور عمر کوٹ کے ہندؤں میں شدید خوف ہراس عدم تحفظ پایا جا رہا ہے۔ نہ صرف تھر اور عمر کوٹ کے ہندو بلکہ سندھ کے تمام پڑھے لکھے سوچنے سوال کرنے والے ترقی پسند سیکولر ذہنوں کو دھمکایا گیا ہے۔
ڈاکٹر شاہنواز کی ماورائے عدالت ہلاکت کے بعد وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار کا لیا گیا ایکشن قابل تحسین ہے۔
عمر کوٹ سے تعلق رکھنے والے وزیر تعلیم سندھ سید سردار شاہ کی سندھ اسمبلی میں کی گئی جرات مندانہ گفتگو قابل داد ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ وہ ابھی تک اپنے حلقے میں ہوئے اس سانحے کے بعد ڈاکٹر شاہنواز کے معصوم بچوں کے سروں پہ ہاتھ رکھنے نہیں پہنچے ہیں۔
وزیر داخلہ سندھ آئی جی سندھ اور عمر کوٹ کے سردار شاہ کو یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ ڈاکٹر شاہنواز صرف پولیس کی گولیوں سے نہیں انتہا پسند ملا کی زبان سے قتل ہوا ہے۔
عمر کوٹ کے پیر عمر جان سرہندی نے عمر کوٹ پریس کلب کے سامنے اپنی تقریر میں ڈاکٹر شاہنواز کمبھار کے سر کی قیمت پچاس لاکھ روپے مقرر کی تھی۔ اور پیر عمر جان سرہندی کی اس تقریر کی وڈیو رکارڈ پہ موجود ہے۔
ڈاکٹر شاہنواز کے سر کی قیمت مقرر کرنے بغیر تحقیق و تفتیش اس پہ فتوے صادر کرنے والوں سمیت ان تمام اشتعال پھیلانے والے لوگوں کو بھی جرم میں برابر کا شریک کرنا چاہیے جنہوں نے ڈاکٹر شاہنواز کی لاش کے لئے دو گز زمین تک تنگ کر دی تھی۔ جنہوں نے لاش کی بے حرمتی کی لاش کو جلایا اور جن لوگوں نے سوشل میڈیا پر فتوے صادر کیے۔
میرپور خاص پولیس کی طرف سے ڈاکٹر شاہنواز قتل کے حوالے سے موقف سامنے آیا تھا کہ وہ اپنے ساتھی کی گولی سے ہلاک ہوا تھا۔
تو پھر وہ اہلکار مبارک باد پھولوں کے ہار کس خوشی میں وصول کر رہے ہیں؟
پھولوں کے ریڈ کارپٹ پہ واک کس خوشی میں کر رہے ہیں؟
جوش جذبات میں کچھ پولیس اہلکاروں کے اقراری بیان بھی وڈیو رکارڈ پہ آ گئے ہیں۔
جو پولیس کی طرف سے پہلی گھڑی کہانی کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔
میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ملزم کو مجرم ثابت کرنا سزا دینا عدالتوں کا کام ہے کسی ملا پولیس یا مشتعل ہجوم کا نہیں۔
اب سندھ کے شعور کا رخ عمر کوٹ کی طرف ہے۔ جس شخص کا نام لینا توہین تھا اس کی قبر پہ اجرکیں اور پھول نچھاور کرنے کے لئے ہزاروں سیکولر باشعور لوگ آ رہے ہیں۔
22 ستمبر کو جی ایم سید کے ہزاروں پیروکاروں کا قافلہ ڈاکٹر نیاز کالانی، صوفی راگی مانجھی فقیر، پنہل ساریو، نواز سندھو گھانگھرو، صوفی فنکارہ خوشبو لغاری، کی قیادت میں نبی سر سے کچھ کلومیٹر دور جہاں راستہ ختم ہو جاتا ہے ایک ویرانے میں جہاں ڈاکٹر شاہنواز کمبھار کی قبر ہے وہاں پہنچا۔
نماز جنازہ ادا کی گئی قبر پہ اجرک اور پھول چڑھائے گئے مانجھی فقیر اور خوشبو لغاری نے انا الحق کی صدائیں بلند کیں صوفی کلام اور امن کے گیت گا کر خراج پیش کیا۔
سندھ کی صوفی گائیکہ خوشبو لغاری نے روپلہو کولہی کے نسلی تسلسل، اس ہندو کولہی پریمو کے ہاتھ چومے جو ایک مسلمان کی لاش مسلمانوں کے جلانے سے بچانے کے لئے کندھے پہ اٹھائے صحرا میں ادھر ادھر بھاگتا رہا تھا، جس کو انتہا پسندوں نے زندہ جلانے کی دھمکی دی تھی۔
- صرف روماسا جامی ہی کیوں؟ - 18/10/2024
- پِیٹھ پر کھائی لاٹھی کا دکھ - 16/10/2024
- ایک خط علمائے کرام کے نام - 05/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).