امریکی عدالت نے ٹرمپ کے نیا سفری حکم نامہ بھی معطل کر دیا


اپنے نئے صدارتی حکم نامے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے 6 مسلم ملکوں سے امریکا آنے والوں پر 90 دن کی پابندی عائد کی تھی جبکہ پناہ گزینوں کی امریکہ آمد پر 120 دن کی پابندی لگائی گئی تھی۔ اس سال جنوری میں جاری کردہ صدارتی حکم نامے کے تحت 7 مسلم ممالک سے لوگوں کی امریکا آمد پر پابندی تھی جبکہ موجودہ حکم نامے میں عراق کا نام شامل نہیں اوراس کے سوا باقی تمام مندرجات جوں کے توں ہیں۔

ڈسٹرکٹ جج ڈیرک واٹسن نے اس مقدمے میں سرکاری وکیل کے مؤقف کو مبہم قرار دیتے ہوئے پورے امریکا میں سفری پابندی کے نئے صدارتی حکم نامے پر بھی عمل روک دیا ہے۔ علاوہ ازیں ایسا ہی ایک مقدمہ امریکی ریاست میری لینڈ کی عدالت میں بھی زیرِسماعت ہے جس کے فیصلے کا اعلان جلد متوقع ہے۔

ڈسٹرکٹ جج ہوائی کے فیصلے پر شدید ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ سفری پابندی کے خلاف فیصلہ دے کرعدالت نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے جبکہ اس عدالتی فیصلے سے کمزور امریکا کا تاثر قائم ہوگا۔ اسی کے ساتھ امریکی صدر نے اعلان کیا کہ وہ اس عدالتی فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔

انہوں نے ایک بار پھر یہ دعوی کیا کہ امریکی آئین کے تحت صدر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ملکی مفاد میں امیگریشن معطل کرسکے۔ امریکی سلامتی اور مفاد کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اس مؤقف کو نہ صرف امریکی عدالتیں بلکہ امریکی قانونی ماہرین بھی کئی بار مسترد کرچکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ امریکی آئین میں ایسی کوئی شق موجود نہیں جو صدر کو اتنا بااختیار بناتی ہو اور یہ کہ ملکی مفاد اور قومی سلامتی کے بارے میں حتمی فیصلہ دینا فردِ واحد کی حیثیت سے صدر کے دائرہ کار سے باہر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).