نگاہ دگر کی روشنی (نظمیں)
کوثر جمال کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب میرے اور ان کے افسانے محترمہ کشور ناہید کے ”ماہ نو“ میں شائع ہوتے تھے۔ پھر وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے چین چلی گئیں اور ہمیں افسانوں کی کتاب ”چینی منگولوں کے شہر میں“ سے نوازا۔ میں انہیں بحیثیت افسانہ نگار ہی جانتا تھا اور ان کی افسانہ نگاری کا معترف بھی تھا لیکن کرونا کے دوران جب ساری دنیا آن لائن ہونے پر مجبور ہو گئی تو مجھے کوثر جمال کی نظمیں بھی پڑھنے کو ملیں۔ اب ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ ”نگاہ دگر کی روشنی“ میرے سامنے ہے۔
حیات انسانی میں نظر، شعور اور تفکر کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ انسان کی آنکھیں صرف بصری دنیا کو نہیں دیکھتیں بلکہ وہ اس دنیا کو مختلف پہلووں سے سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔ ”نگاہ دگر کی روشنی“ کا مفہوم صرف چشم بینا کی حدود تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک نئے زاویے سے دیکھنے، سمجھنے اور تجربات کو حاصل کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ان نظموں کے مطالعے سے یہی بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔
یہ نظم نگار کی وہ بصیرت ہے جو انسان کو پیچیدہ حالات میں بہترین فیصلے کرنے میں مدد دیتی ہے۔ بے شمار بار ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ ایک ہی صورت حال پر مختلف انداز میں ردعمل دیتے ہیں، یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب نگاہ دگر کی اہمیت ابھرتی ہے اور کوثر جمال کی ان نظموں میں یہ رد عمل جا بجا موجود ہے۔
مختلف عناصر، ثقافت، نظریات اور عقائد کی شکل میں ایک فرد کی سوچ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مختلف ثقافتوں میں رہنے والے افراد کی نگاہوں میں زمین آسمان کا فرق ہو سکتا ہے۔ ”نگاہ دگر کی روشنی“ کی نظمیں قاری کو اس بات کا احساس دلاتی ہیں کہ اسے اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ دیگر ثقافتوں کا مطالعہ کرنا چاہیے، تاکہ ہم اپنی سوچ کو وسعت دے سکیں۔
اکثر اوقات انسان اپنے مسائل کا حل صرف اپنے تجربات اور فہم کے دائرے میں تلاش کرتا ہے۔ تاہم، اگر ہم ان مسائل کو ”نگاہ دگر“ سے دیکھیں، تو شاید ہمیں ایسے حل ملیں جن کی ہمیں توقع بھی نہیں ہوتی۔ یہ وہی ”روشنی“ ہے جو ہمیں تخلیقی سوچ کی طرف لے جاتی ہے، جیسے سائنسی تحقیق میں نئے نظریات کی تشکیل یا سماجی مسائل کے نئے حل تلاش کیے جاتے ہیں بالکل اسی طرح کوثر جمال کے اس نظموں کے مجموعے میں شاعرانہ اسلوب کے ساتھ ساتھ نئے نظریات کو سمجھنے کی ترغیب ملتی ہے۔
نگاہ دگر کی روشنی میں فکری تنوع ہے۔ جب ہم اپنی سوچ کو ایک خاص دائرے میں محدود رکھتے ہیں تو ہم نئے خیالات اور نظریات سے محروم رہتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم مختلف ذہنوں کی آواز کو سنیں اور اپنے نقطہ نظر کو وسیع کریں۔ ڈائیلاگ اور مباحثے کی صورت میں فکری تنوع کو قبول کرنا ہمیں زیادہ جامع اور برتر حل کی طرف لے جاتا ہے۔ ہمیں اس فکری تنوع کا احترام ہے۔ یہ نظمیں ہمیں اس بات کی ترغیب بھی دیتی ہیں کہ ہم اپنے محدود دائرے سے باہر نکل کر دنیا کو مختلف زاویوں سے دیکھیں۔
اس مجموعے کی پہلی نظم، ”نگاہ دگر کی روشنی“ ہی دیکھیں تو ہمیں زندگی کی دائریت، تکرار اور انسانی تجربات کی یکسانیت نظر آتی ہے۔ ایک بوڑھی دنیا کی تصویر جو ان گنت زمانوں سے چلی آ رہی ہے جہاں رات اور دن کی تبدیلی صرف ایک دائرے کی شکل میں ہے۔ لیکن کوثر جمال اس میں ایک فلسفیانہ نقطہ نظر کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ کہ زندگی میں ایک ہی طرح کے تجربات کا بار بار ہونا، جیسے جنم و مرگ کا کھیل، دکھ اور سکھ کی حالتیں، بلا کی تبدیلی اور وضاحت کے سلسلے، انسان کی فطرت اور وجود کو سمجھنے کی کوشش میں لگے ہوئے سوالات اور ان کے حل نہیں ملتے۔
ایک اور نظم، ”ہوا کے اجزائے ترکیبی“ دیکھیئے۔ کیا منفرد سا عنوان ہے اس نظم کا ۔ اس نظم میں وجود کی پیچیدگیوں اور انسانی نفسیات کی گہرائیوں کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ ”گھر جنت کے تکراری سچ سے اکتائے ہوئے لوگ“ کی تصویر کشی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جدید انسان سچائی کی تلخیوں سے فرار چاہتا ہے اور حسین جھوٹ کی تلاش میں ہے۔ یہ ایک نفسیاتی عکاسی ہے جس میں افراد اپنی زندگی کے روزمرہ حقائق سے فرار حاصل کرنے کے لیے متبادل حقیقتوں کی تلاش میں ہیں۔ ”کھڑکیوں کے راستے باہر کے تاریک خلا میں کود جاتے ہیں“ کی تشبیہ اس دھوکہ دہی کا ایک مزید پہلو دکھاتی ہے۔ انسان اپنے حالات سے چھٹکارا پانے کے لیے غیر یقینی اور خطرناک راستے اختیار کرتا ہے۔ یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ سچ اور جھوٹ دونوں کے اجزائے ترکیبی دراصل ہوا کی طرح ہیں، جو ہماری زندگیوں میں ہر جگہ موجود ہیں۔ یہ نظم ایک گہرے فلسفیانہ احاطے میں انسان کی داخلی کیفیات، حقیقت سے فرار، اور وجود کی بنیادی سچائیوں کی تلاش کی عکاسی کرتی ہے۔
اسی طرح نظم، ”جشن آزادی مبارک“ میں کوثر جمال نے آزادی کی خوشیوں کو ایک طاقتور تنقید کے ساتھ جوڑا ہے، جس میں وہ بے بسی، نا انصافی، اور معاشرتی ناہمواریوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ نظم کا آغاز ایک مایوس کن منظرنامے سے ہوتا ہے، جہاں ”ناقابل تسخیر قلعے“ کے تعلق سے بات کرتے ہوئے ایک متضاد تاثر پیدا کیا گیا ہے۔ قلعہ جیسی طاقتور شے میں، معاشرے کے مظلوم بچے بھوک و غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ آزادی کے نعروں کے باوجود، غربت، ظلم اور استحصال کا شکار لوگ اب بھی اپنی شناخت، وقار، اور بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ”قاتلوں کی محفوظ پناہ گاہیں“ جیسے الفاظ میں، اس نظام کی بربریت اور بے حسی کی عکاسی کرتے ہیں۔ پھر یہ نظم فضا کی تنگی، گہرائی اور مایوسی کے ساتھ مل کر ایک تنقیدی پہلو میں بدل جاتی ہے۔ ”قلم فروشوں“ اور ”عیاش زانیوں“ کا ذکر، نہ صرف معاشرتی فساد کی طرف اشارہ ہے بلکہ یہ اس بات کی علامت بھی ہے کہ آزادی کی اس خوشی کے پیچھے کیسی سیاہ حقیقتیں چھپی ہوئی ہیں۔
” سینٹ ویلنٹائن“ ایک گہری اور متاثر کن تخلیق ہے جو محبت کے موضوع کو مختلف زاویوں سے پیش کرتی ہے۔ کوثر جمال نے اس نظم میں محبت کی پیچیدگیوں، چناؤ، قدرتی عناصر اور سماجی حقیقتوں کو بڑی مہارت سے سمویا ہے، جو پڑھنے والے کو غور و فکر میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ”خاردار تاروں میں اٹکے“ جیسی تشبیہات محبت کی مشکلات اور درد کو اجاگر کرتی ہیں۔ اسی طرح ”زخمی پھول“ کی مثال محبت کے نازک ہونے کو بیان کرتی ہے، جو بہت جلد ٹوٹ سکتی ہے، مگر پھر بھی اپنی خوبصورتی برقرار رکھتی ہے۔ ”کچا گھڑا“ ، ”تپتے صحراؤں میں آبلہ پا مسافر“ ، اور ”نفرت کے نشانے پر آئی تڑپتی پھڑکتی فاختہ“ ۔ ان تشبیہات سے نظم نگار یہ بتانا چاہتی ہیں کہ محبت ایک متوازن کیفیت کی متقاضی ہوتی ہے، مگر ہماری معاشرتی روایات اسے پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔ نظم کا اختتام شدید سوالیہ نشان کے ساتھ ہوتا ہے : ”بے محبت رشتوں کے زادگان، محبت یوں نہ کریں تو کیسے کریں؟“ یہ سوال انسانی جذبات کی بے بسی اور عشق کے سچے احساسات کی تلاش میں انسان کے احساسات کی عکاسی کرتا ہے۔
اس مجموعے کی تقریباً تمام نظمیں قاری کی فکر اور سوچ کو مہمیز دینے والی ہیں۔ ”ادھورے خواب“ ہی دیکھ لیں۔ زندگی کے سفر کی پیچیدگیوں اور خوابوں کی تعبیر کی تلاش کے مرحلے کو خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ نظم کے آغاز میں انسانی زندگی کے طے شدہ راستے کی عکاسی ہے اور سفر کے اختتام تک مسافر اپنے ماضی کی یادوں کی تلخیوں اور خوشیوں کو محسوس کرتا ہے۔ راستے کے نشیب و فراز زندگی کے چیلنجز کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، پودوں اور درختوں کا علامتی انداز، جہاں بہار دیکھ چکے درختوں کے کچھ خواب حقیقت بن چکے ہیں، وہاں دوسرے خواب ابھی منتظر ہیں۔ اس تضاد میں زندگی کا حسین و دلکش پہلو دکھائی دیتا ہے، جہاں ہر نئے دن کے انتظار میں امکانات اور امیدیں موجود ہیں۔
ایک اور اہم نظم ہے ”گرد“ اس نظم میں کوثر جمال نے کمال فنی تخلیق کے ساتھ گرد کے ذریعے زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کی ہے، جہاں گرد کا اشارہ صرف مادی دنیا کی آلودگی تک محدود نہیں بلکہ یہ معنوی و ثقافتی معاملات کی نشان دہی بھی کرتا ہے۔ بند کمروں میں گرد کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ کیسے انسان اپنی روایات، اقدار اور تصورات کو ایک جگہ سمیٹ لیتا ہے، اور یہ گرد ان پر ایک غفلت کی تہہ جڑ دیتی ہے۔ نظم نگار نے روایت اور جدیدیت کے درمیان ایک تناؤ کو پیش کیا ہے، جس میں پرانی روایات کی سچائیاں اور قدریں نسبتاً مدھم ہو جاتی ہیں۔ یہ سوال اٹھانا کہ ”کیا کبھی آپ نے نئی نگاہ کے جھاڑن سے روایت پر پڑی گرد صاف کی ہے“ قاری کو دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنی روایتوں پر تنقیدی نظر ڈالیں اور ان کی معنویت کو جدید سیاق و سباق میں جانچیں۔
نظموں کے اس مجموعے ”جہان ِ دگر کی روشنی“ میں چند نظمیں پنجابی زبان میں بھی ہیں اور ایک نظم ”میرے گھر نوں دیمک لگ گئی اے“ بہت توانا گہری اور علامتی نظم ہے جو کہ زندگی میں آنے والے مسائل اور دشواریوں کی عکاسی کرتی ہے۔ دیمک دراصل زندگی کی وہ مشکلات ہیں جو آہستہ آہستہ انسان کے وجود، اس کے خوابوں اور خواہشات کو کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ کوثر جمال نے اس میٹافور کے ذریعے یہ اظہار کیا ہے کہ کیسے یہ مشکلات، اگرچہ چھوٹی نظر آتی ہیں، مگر ان کے اثرات اتنے گہرے ہو سکتے ہیں کہ انسان کا پورا گھرانا متاثر ہوتا ہے۔ نظم میں جدوجہد کا احساس بھی ہے جہاں کوثر جمال اپنی مشکلات سے لڑنے کی خواہش رکھتی ہے لیکن اس کا موقف یہ بھی ہے کہ صرف صلاح و مشورے سے کچھ نہیں ہوتا، بلکہ عملی اقدام کرنا ضروری ہے۔
ڈاکٹر کوثر جمال ایک روشن خیال، ترقی پسند نظریے کی حامل ادیب ہیں۔ ان کے افسانے، مائکرو فکشن اور فلیش فکشن ان کی اس فکر کے اظہار کے مظہر تو ہیں ہی لیکن ان کی نظمیں بھی اسی اسلوب کی آشکار ہیں۔ بہت سی نظمیں پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ یہ بھی کسی افسانے کا حصہ ہی ہیں۔
” جہان دگر کی روشنی“ سانجھ پبلیکیشنز لاہور سے دستیاب ہے۔
- ناگہانی تا ناگہانی: طاہرہ کاظمی کی زبانی وجود، وبا اور کہانی - 09/07/2025
- اگست تک۔ خاموش بغاوت کی داستان - 16/06/2025
- جعلی منٹو، نقلی عصمت - 17/01/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).