صرف روماسا جامی ہی کیوں؟


 

جنگوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ تمغے اور ترقیاں شجاعت و بہادری کے اعزاز صرف میدان جنگ کے کیمپوں میں نقشوں پہ جھکے جرنیلوں کو ہی ملتے ہیں۔ وطن کی بقا قوم کی آزادی کے لئے سینے پہ گولی کھانے والے عام سپاہی کی قبر کے نشان بھی کہیں نہیں ملتے۔ وہ فراموش کر دیے جانے کے لئے مرتے ہیں جن کے سینوں میں وطن کی محبت سے بڑھ کر کسی اور اعزاز کی گنجائش نہیں ہوتی۔

تیرہ اکتوبر کراچی پریس کلب کے سامنے والی سڑک پہ سندھ رواداری مارچ کے شرکا پر ہونے والے ریاستی جبر و تشدد کی سندھ پورے ملک اور عالمی سطح پر سخت الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے۔ روماسا جامی چانڈیو کی ہمت و بہادری کو سراہا جا رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ صرف روماسا جامی چانڈیو ہی کیوں؟ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہ مذمت رواداری مارچ کے تمام شرکا پہ ہوئے ریاستی جبر پہ کی جا رہی ہے یا صرف روماسا جامی پر۔

رواداری مارچ والی رات سے ہی انسانی حقوق کے ورکرز سوشل ایکٹیوسٹ، ادیب، صحافیوں، شاعروں فنکاروں پہ پولیس کی جانب سے کیے گئے تشدد و تذلیل کی تصاویر اور وڈیوز سوشل میڈیا پہ وائرل ہو گئی تھی۔ سوشل میڈیا پہ فنکار سیف سمیجو پولیس کی لاٹھیاں جھیلنے والے باقی لوگوں کو اوور شیڈو کر گیا تھا۔ انسانی حقوق انصاف امن بقا باہمی رواداری اور مظلومیت کے حق میں کی جانے والی جدوجہد کو پبلسٹی اسٹنٹ کی نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیے نا ہی ان مخلص انسانوں کی نیتوں پہ شک کرنا چاہیے کہ انہوں نے حق کے لئے آواز صرف اشتہار بننے کے لئے بلند کی تھی۔ سندھ کی کروڑوں کی آبادی میں یہ چند ہزار لوگ ہی تھے جو میدان عمل میں ریاستی جبر تشدد و تذلیل برداشت کر رہے تھے۔

سیف کی وہ وڈیو جس میں اس کی شرٹ بری طرح سے پھٹ چکی ہے پولیس اہلکار اسے کھینچتے تھپڑ مارتے لے جا رہے ہیں کافی دیکھی اور شیئر کی جا رہی تھی۔ اس کا ایک سبب سیف کے فنکار ہونے کی وجہ سے عوامی مقبولیت بھی تھا۔

روماسا جامی کی اس تصویر اور وڈیو کو بھی کافی پذیرائی مل رہی تھی جس میں لیڈیز پولیس اہلکار روماسا کو گھسیٹتے لے جا رہی ہیں۔

رواداری مارچ پر ہوئے تشدد کے اگلے دن روماسا جامی کی ایک یونیک تصویر غالباً حامد میر صاحب کے ایکس اکاؤنٹ سے شیئر کی گئی جس میں بپھرے اہلکاروں کے درمیاں پنجوں کے بل پڑی زخمی شیرنی یا سہمی ہوئی ہرنی جیسی روماسا کیمرا کو پوز دے رہی ہے۔ پہلی نظر میں تصویر دیکھ کر آپ فوٹو گرافر کی کلا کو داد دیے بنا نہیں رہ پائیں گے۔ لیکن اگلی ہی نظر وہ تصویر آپ کو مصنوعی ذہانت کا نمونہ نظر آئے گی۔ سوشل میڈیا پہ یہ تصویر باقی تمام وڈیوز اور تصاویر سے زیادہ ریٹینگ لے گئی۔ یہ امن رواداری انسانی حقوق کی جدوجہد تھی ریٹینگ کی نہیں۔

ملک بھر سے دانشوروں نے رواداری مارچ پہ آرٹیکلز لکھے جن میں صرف روماسا کی عظمت ہمت و بہادری کو سراہا گیا۔ نورالہدیٰ شاہ صاحبہ کو بھی رواداری مارچ میں تشدد و بربریت کا نشان بننے والی صرف روماسا ہی نظر آئی۔ سندھو نواز، کامریڈ بخشل، اور وہ سینکڑوں گمنام ورکرز کسی کو بھی نظر نہیں آئے۔

انسانی حقوق کی جدوجہد کے حوالے سے سندھ یا پاکستان میں روماسا جامی ایک ویل نون فیس تھی؟ یا مجھ کم علم کو اس کا علم نہیں تھا۔ یا وہ صرف ایک معروف اور اقتدار کے ایوانوں تک اثر رسوخ رکھنے والے سندھی دانشور کی بیٹی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments