اردو کا ادراکی تنقیدی دبستان


18 اکتوبر 2024 ء کو انجمن ترقی پسند مصنفین اور انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ کراچی کے زیرِ اہتمام معروف شاعر، ادبی نقاد، عصرِ حاضر کے دانشور اور غیر روایتی فکر کی حامل شخصیت محترم فرحت عباس شاہ کی کتاب ”اردو کا ادراکی تنقیدی دبستان“ پر سہیل یونیورسٹی کراچی میں ڈاکٹر سید جعفر احمد کی زیرِ صدارت نقدو نظر کی محفل کا اہتمام کیا گیا۔ اس علمی و فکری محفل میں ڈاکٹر سید جعفر احمد، پروفیسر شاہد کمال، جناب اقبال خورشید اور راقم الحروف نے ادراکی تنقید کے حوالہ سے کتاب کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا۔ محترم فرحت عباس شاہ کی یہ کتاب رنگ ادب پبلیکیشنز کی جانب سے 2023 ء میں شائع ہوئی ہے۔

کتاب کا انتساب معروف علمی و ادبی شخصیات ڈاکٹر اظہار اللہ اظہار، ڈاکٹر شاہد اشرف، ڈاکٹر عامر سہیل اور نذیر ساگر کے نام کیا گیا ہے۔ 254 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ادراکی تنقید کے حوالہ سے اردو ادب کا ایک گرانقدر سرمایہ ہے۔ کتاب کے موضوعات کا تفصیلی مطالعہ ذہنوں میں بنائے گئے بہت سے بتوں کو پاش پاش کر دیتا ہے اور پہلے سے قائم اور اخذ کردہ نظریات کی ردتشکیل بھی کرتا ہے۔

کتاب میں مباحث کے باب میں مصنف نے مختلف عنوانات کے تحت ادراکی تنقید کا عمیق اور تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ اس باب میں فلسفہ شاعری، ادراکی تنقید کا جواز، ادراکی تنقید، کارگاہ عمل تخلیق، ادراکی تنقید کا دائرہ کار، ادراکی تنقیدی دبستان کا استدلال، ادب اور مفلوج قوم کا تصور اور لسانی و ساختیاتی تھیوریوں کے مضمرات کے مختلف پہلوؤں پر مصنف نے زبردست علمی تجزیہ پیش کیا ہے۔ تاہم ”علامہ اقبال اور ہم“ کے موضوع پر مصنف کے نظریات سے اختلاف کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ کتاب میں مصنف نے ناول، افسانہ اور شاعری جیسی ادبی اصناف کا ادراکی تنقید کے تحت جائزہ لیا ہے۔ اس باب کے حصہ ناول میں ڈاکٹر انیس ناگی کے ناول ”چوہوں کی کہانی“ ، علی نواز شاہ کا ناول ”یہوہ و یہود“ ، منصور آفاق کے ”آتاقافا“ اور ”علی روئی کی کہانی“ ، اسد محمود خان کی ”پیاری حلیمہ“ اور غنی خان کے ناول ”کرمے کی سرائے“ کا ادراکی تنقیدی دبستان کے اصولوں کے تحت جائزہ لیا گیا ہے۔

حصہ افسانہ میں اظہار اللہ اظہار کے آخری افسانہ کا دوسرا افسانہ اور تیسرا افسانہ سمیت ”بہت دیر ہو گئی“ کا جائزہ لیا گیا ہے۔

حصہ شاعری میں مصنف کے اپنے شاعرانہ تخیل اور بطور شاعر ان کے اپنے احساسات و جذبات کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ اس حصہ میں مصنف تنقیدی شعور اور تنقیدی دانش کے ساتھ ”شاعروں“ اور ”شاعری“ کا پوسٹ مارٹم کرتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے مختلف نامور شعراء (اردو کی سرکاری تدریسی کتابوں کے مطابق) کے کلام کو ایک مختلف نظریہ سے دکھانے اور سمجھانے کی کوشش کی۔ بقول مصطفیٰ زیدی ”عقل کو زہر ہے وہ بات جو معمول نہیں“ ۔

حصہ شاعری میں مصنف نے مجید امجد، میرا جی، ن م راشد اور جون ایلیا کے حوالہ سے روایتی نقطہ نگاہ اور ”مہابیانیوں“ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ان کے کلام کو ڈی کنسٹرکٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان نصابی کتابوں کے ذریعہ ان شعراء کی عظمت کی جو دھاک بٹھائی گئی تھی اور جو اثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی تھی مصنف نے اس دھاک اور اثر کی چولیں ہلا ڈالیں۔ مصنف اس کتاب کے ذریعہ یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ شخصیات خاص طور پر ادبی شخصیات کے گرد کس طرح مصنوعی ”تقدیسی ہالے“ قائم کیے جاتے ہیں اور ”ادبی میلے“ ان مصنوعی اہداف کے حصول اور شخصیت سازی میں کس طرح استعمال کیے جاتے ہیں۔

فرحت عباس شاہ کی یہ کتاب اردو ادب میں نئی فکری سمت کو متعین کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ کتاب پہلے سے موجود فکری دھاروں اور فکری تشکیلات کا ایک ردعمل بھی ہے۔ یہ کتاب پیغام دیتی ہے کہ ”ادب“ ، ”ادبی شخصیات“ نامور عصری شعراء اور اردو کے نصاب میں شامل شعراء کے حوالہ سے روایتی تشریحات و تعبیرات کا دور گزر چکا ہے۔ اب ان کو بغیر تنقید کے قبول نہیں کیا جاسکتا۔

مصنف کا مطمح نظر یہ ہے کہ تجزیہ و تنقید نئی تشکیلات کی روشنی میں نئے اور بدلتے ہوئے حالات و واقعات کی روشنی میں ہونے چاہئیں نہ کہ نئی اور جدید چیزوں کو پرانے میں ضم کر دیا جائے۔ یہ کتاب اردو ادب میں ادراکی تنقیدی دبستان کے مرکز یا مرکزی دھارے میں آنے کی بنیاد ثابت ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments