گرجاکھ


وہ بس ایسا ہی ہے۔ قدیم، سنہری اور روہانسو۔ جس کے سینے میں میری ماں دفن ہے۔ جب میں چھوٹا تھا تو اس کی گلیوں میں ننگ دھڑنگ پہیے دوڑاتا پھرتا تھا۔ بوگن ویلیا جسے دیکھتے ہی ابا جی ایک مضبوط ٹہنی توڑ کر میرے ہاتھ میں پکڑا دیتے۔ ہر گھر میں کیکر کے درخت اور بکریاں تھی جو ذرا سا پچکارنے پر کلاچے بھرتی غائب ہو جاتی۔ کہتے ہیں وہاں پہاڑی کے اُوپر میراں شاکر شاہ کے مزار کے راستے میں ایک رام مندر بھی تھا۔ جسے پتھر مار مار کر توڑ دیا گیا۔ ایک ایک تالاب جہاں زائرین وضو کرتے تھے۔

روضے کے برآمدے سے گزر کر، گالے والی ڈھکی سے نیچے میں نے وہ بیٹھک بھی دیکھی جہاں علی عباس جلالپوری نے پڑھنا سیکھا تھا، تب وہ ایک لڑکا تھا جو کانتا دیوی کی نظر کا ایسا اسیر ہوا کہ چاروں دشاؤں سے فن کے سوتے پھوٹتے لگے۔

اسے قریب سے دیکھو تو خاموش ہے۔ مگر ولولے اُسکے دل میں پنہاں ہیں۔ اُسکی گلیوں میں تجسس ہے مانو کہ ان دیواروں میں کہانیاں دفن ہوں دروازے کی اوٹ سے جھانکنے والی نٹ کھٹ آنکھیں اور بچوں کا بے تحاشا شور۔ اور اس کے گلیوں میں کھڑے قد آدم پیڑ جہاں باد نسیم کے جھونکوں میں فاختہ ’گھو گھو گھو یوسف کھو‘ بولتی رہتی ہے۔ جسے سن کر شیرخوار ماؤں کی گود میں محو آرام ہوتے ہیں۔

لیکن مجھے اس کی شام بہت بھاتی ہے۔ جب میں دودھ لے کر لوٹتا ہوں تو تنگ گلیوں میں پژمردہ روشنی مجھے مزید بے چین کر دیتی ہے۔ جیسے ابھی عید کا چاند نظر آ جائے اور ہم چھتوں پر چڑھ کر نعرے لگائیں۔ یا میلاد چوک پر بیٹھے گیسٹ ہاؤس کی نیم اور شیشم کو ہلکورے کھاتے دیکھ کر کسی آشنا کے بس سے اترنے کا انتظار کروں۔ جب سفیدے کالے بادلوں میں اپنا سر پٹخ کر سائیں سائیں کرتے ہیں تو مجھے بارش کی دل فریب ادائیں اکساتی ہیں۔ کہ بھاگ کر باہر دادی کے گھر سے جامن کا کونڈا پکڑ لاؤں اور ہپ ہپ ہرا کا نعرہ لگاؤں۔

مگر میرے خواب کسی تیسری انجانی قوت کے ہاں گروی ہیں۔ میں سال ہا سال کی تعلیمی کثرت میں جان گنواتا ہُوں۔ صرف اس امید پہ جب میں لوٹ کر آؤں گا تو تمہاری چوکھٹ سے مجھے مسرت دوام کا وہ پیالا نصیب ہو گا جو میری نظر کو اجلا اور پیراہن صد چاک تو پھر سے نیا کر دے

میں اپنے خوابوں کی بھٹی سے گزر تو آؤں گا مگر تمہاری مسکان میرے لیے پرائی ہو چکی ہوگی۔ مان لو کہ میں ڈاکٹر بن گیا۔ عین تمہاری مرضی کے مطابق ہماری پسندیدہ کتابوں کی لسٹ بھی میرے دل پہ رقم ہے۔ اب ہم گھنٹوں ایک دوسرے کو سرگوشیوں میں کہانیاں سنا سکتے ہیں۔ جیسے پرانے قصے زندہ ہو جائیں، نئی نویلی دلہن کو موت کے پردوں سے واپس دھکیل کر چندرما کو ٹٹولیں کہ وہ راز و نیاز کی باتیں اگل دے اور ماضی کے جھروکے سے وہ ساری کملائے ہوئے خواب لوٹ آئیں۔ برو سیفیلیا تم ہی ہو ناں جہاں سکندر کی فوج نے پڑاؤ ڈالا تھا۔ دریائے جہلم کے کنارے۔

تب شاید منگلا دیوی میں کرشنا کی بانسری کی مدھر آواز بھی آتی ہو۔ بھلے ہی اس گاؤں کے لڑکے پردیسوں میں جا بسے ہیں۔ مگر لوٹ آنے کی چاہ تو زندہ رہتی ہے۔ مجھے میرے کینہ پرور دل کی پروا نہیں۔ میں تمہیں مانو کی معصوم آنکھوں سے دیکھتا ہوں۔ مجھے اپنی گلیوں میں سر بریدہ بھاگنے دو کہ شاید مجھے کانتا کی بے باک آنکھوں کی طرح پھر کوئی پریم کا پنچھی پنکھ پسارے کی تحریک ملے۔ پھر کوئی رومانوی داستان زندہ ہو۔ برو سیفیلیا میں آ رہا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments