کوئی رفیق نہیں کتاب سے بہتر: منفی سوشل میڈیا پروپیگنڈا


ہمیشہ سے یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ سوشل میڈیا نے زیادہ تر اپنا منفی کردار ہی ادا کیا ہے۔ ہر غلط اور سنسنی خیز خبر کو اچھالا ہے۔ یہ ایک طرح سے رجحان ہی بنتا جا رہا ہے کہ کسی کا اچھا کام یا محنت لوگوں کو نظر نہیں آتی، نا ہی اس کی ریاضت کی داد دی جاتی ہے اور نہ ہی اسے توجہ ملتی ہے لیکن منفی اور فضول بات اور عمل فوراً وائرل ہوجاتا ہے۔ شاید سوشل میڈیا چلانے والے فارغ اور منفی سوچ کے حامل لوگ ہیں جنہیں میمز بنانے اور لوگوں کی عزتیں اچھالنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے۔ ان کو یہ شعور ہے ہی نہیں کہ کون سی خبر وائرل کرنی ہے بس ایک بات کے پیچھے بغیر تصدیق کے پڑ جاتے ہیں۔ جس کا زمینی حقائق سے دور دور تک لینا دینا نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں ہمارے ٹیلی ویژن پروگرام (الیکٹرانک میڈیا) بھی معیاری سطح سے گرتے چلے جا رہے ہیں جہاں نامور شخصیات کی نامناسب اور نازیبا الفاظ میں تذلیل کی جاتی ہے۔

پچھلے دنوں گردش کرنے والی خبر کہ لاہور شہر میں کتابوں کے میلے میں صرف پینتیس کتابیں فروخت ہوئیں جبکہ بارہ سو شوارمے اور آٹھ سو بریانی خریدی گئی۔ اس خبر میں کسی بھی قسم کی کوئی سچائی نہیں ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب بھی کسی بھی سطح پر کتابوں کا میلہ منعقد کیا جاتا ہے تو وہاں کھانے پینے کے اسٹال نہیں ہوتے اور اگر ہوتے ہیں تو ان کی سائیڈ مختلف ہوتی ہے (یعنی فوڈ کورٹ) ۔ جس کا کتابوں کی خریدوفروخت سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔

لاہور صنعتی، ثقافتی اور تعلیمی مرکز ہے جو کئی معاملات میں نظروں میں رہتا ہے اس کے علاوہ یہ اپنے زندہ دل لوگوں کی وجہ سے بھی مشہور ہے اور لاہور سے عشق کی کئی داستانیں موجود ہیں۔ لاہور ہمیشہ سے کتابوں سے محبت کرنے والوں کا مسکن رہا ہے جہاں پاکستان بننے سے پہلے بھی کتب کی اشاعت سب سے زیادہ ہوتی تھی۔

پچھلے سال جب لاہور انٹرنیشنل بک فیئر ہوا تھا تب کتابوں کی فروخت کا ریکارڈ قائم ہوا تھا۔ لوگ اپنے بچوں کے ہمراہ اور خاندان کے دوسرے لوگوں کے ساتھ جوق در جوق آئے. دوست اکٹھے ہو کر حتیٰ کہ طالب علم اپنی یونیورسٹیوں کی طرف سے اس میلے میں شامل ہوئے تھے۔ ہر سال اس موقع پر ایکسپو سینٹر میں ایک گہما گہمی کا سا سماں ہوتا ہے جہاں بڑے بڑے لکھاری اپنی کتابوں پر آٹوگراف دیتے ہیں اور ساتھ میں اپنے پرستاروں‘ چاہنے والے مداحوں کے ساتھ تصویریں بھی بنواتے ہیں۔ یہ میلہ ایک تہوار کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ جس کا پورا سال بے صبری سے انتظار کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ گزشتہ سال پنجاب یونیورسٹی کے زیرِ اہتمام کتب میلہ سجا تھا جس میں ہزاروں کتابیں فروخت ہوئی تھیں۔ کتابوں سے محبت بڑھتی جا رہی ہے پہلے پہل صرف لاہور اور کراچی ہی پیش پیش تھے لیکن اب دیگر شہروں میں بھی کتابوں کے میلے سجنے لگے ہیں جو کہ خوش آئند بات ہے۔ جس کی مثال حالیہ منعقد ہونے والا نوڈیرو میں کتب کا میلہ تھا جو بہت کامیاب رہا جس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہاں کبھی کتب میلہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ سب کتابوں سے محبت نہیں تو کیا ہے؟

آئے دن نئی کتب کی اشاعت ہو رہی ہے اور لوگوں کو شاہکار کتابیں پڑھنے کا موقع مل رہا ہے۔ جہاں آن لائن ڈیلیوری نے مزید آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ اب ملک بھر کے تمام پبلشرز کم عقل تو نہیں ہیں جو کتابیں شائع کرتے ہیں پھر اسٹال خرید کر وہاں نمائش لگاتے ہیں جس میں نامور بڑے پبلشرز اور بک سیلرز اچھا خاصا ڈسکاؤنٹ (رعایت ) بھی دیتے ہیں۔ اگر ان کی کتابیں فروخت نہ ہوتی ہوں تو کیا وہ اتنا خرچہ کریں گے؟ کیا وہ کتابیں شائع کریں گے؟ تھوڑا نہیں پورا سوچیں۔

ڈاکٹر سس لکھتے ہیں کہ : ”آپ جتنا زیادہ پڑھیں گے ’اتنی ہی زیادہ چیزیں آپ کو معلوم ہوں گی۔ آپ جتنا زیادہ سیکھیں گے اتنی ہی زیادہ جگہیں جائیں گے۔ “

نیشنل بک فاؤنڈیشن پورے ملک میں کتابوں کا میلہ سجاتی ہے جس میں بھی اچھا خاصا ڈسکاؤنٹ اپنے پڑھنے والوں کو دیا جاتا ہے۔ اسی ادارے کے زیرِ اہتمام حال ہی میں اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں کتابوں کا میلہ سجا جس میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ کی کتب فروخت ہوئیں۔ جو کہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اسی طرح چند روز قبل بلوچستان میں عطا شاد فیسٹیول اختتام پذیر ہوا ہے جس میں پینتیس لاکھ کی ریکارڈ کتابیں فروخت ہوئی ہیں۔ کون کہتا ہے کہ یہ کتابوں سے عشق کی آخری صدی ہے۔ ہمیں ایسی کاوشوں کو سراہنا چاہیے۔ تاکہ پڑھنے والوں کو مزید کتابیں آسانی سے میسر ہو سکیں۔ اسی طرح ادبی فیسٹیول بھی مختلف شہروں میں منعقد ہوتے ہیں جو کہ کتب سے لازوال محبت کو ظاہر کرتے ہیں۔

یہ ڈیجیٹل دور ہے جہاں کتابوں کی مفت میں پی ڈی ایف مل جاتی ہے اور بہت سارے لوگ اپنی پسند کی کتب سافٹ فارم میں پڑھنا پسند کرتے ہیں لیکن وہیں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو کتابوں کے دیوانے ہیں ان کو کتابوں کی خوشبو اپنی طرف کھینچتی ہے یہی نہیں وہ ان کہانیوں ’افسانوں میں کھو سے جاتے ہیں اور کئی لوگ تو تخیل میں دنیا گھوم لیتے ہیں۔

ہاں مسائل کا سامنا ضرور ہے کیونکہ مہنگائی کی وجہ سے کتابوں کی قیمتیں کافی زیادہ ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی قوتِ خرید کم ضرور ہوئی ہے لیکن کتب بینی کا شوق ختم نہیں ہوا۔ متعلقہ اداروں کو کوئی ایسی پالیسی ترتیب دینی چاہیے جس سے کتابوں کی قیمت تھوڑی کم ہو سکے تاکہ کتابوں کے دیوانے و رسیا بآسانی خرید سکیں اور اپنے دل کی پیاس بجھا سکیں۔

سرورِ علم ہے کیف شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments