بے چَینی اور ’کچیچی‘


ماہرین سے سنا ہے کہ کسی موذی نشے کے شکار افراد اپنی طلب کے مطابق ”خوراک“ لئے بغیر پہلے اداس اور پھر بے چین ہو جاتے ہیں۔ بسا اوقات ان کی بے چینی دیوانگی میں بدل جاتی ہے۔ خود کو اذیت دینے کے علاوہ بے شمار افراد چھوٹے جرائم سے آغاز کرتے ہوئے قتل وڈاکہ جیسی سنگین وارداتوں کا ارتکاب بھی شروع کر دیتے ہیں۔ برائے مہربانی میری بات سن کر حیران نہ ہو جائیے گا۔ پیر کی سہ پہر میں نے ایک مختلف تناظر میں نشے سے محروم بے چین فرد ہی کی طرح محسوس کیا۔

گزشتہ برس کی جولائی سے ایک ٹی وی چینل کیلئے ”ٹاک شو“ نامی شے کر رہا ہوں۔ دیگر شوز کے برعکس میں اس شو میں ”سینئر تجزیہ کاروں“ یا سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو مدعو نہیں کرتا۔ ”عقل اور بصیرت“ کے حوالے سے خود کفیل تصور کرتا ہوں۔ کوشش ہوتی ہے کہ دن بھر چلی خبروں میں سے چند اہم ترین کو چن کر ان کے بارے میں ساتھی اینکر کے ساتھ ”تجزیاتی“ سنائی دیتی گفتگو ہو۔ پروگرام کا مواد طے کرنے کے لئے پانچ بجے کے قریب اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشاورت کرنا ہوتی ہے۔

آج سے چند دن قبل تک پروگرام کا مواد تیار کرنے میں شاذہی مشکل محسوس ہوئی۔ عزت مآب قاضی فائزعیسیٰ صاحب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ ہمارے متحرک ساتھیوں کی اکثریت نے ہمیں قائل کر دیا کہ وہ اپنی میعادِ ملازمت میں اضافے کو بے چین ہیں۔ وہ اگر رضا مند نہ بھی ہوں تو مبینہ طور پر”فارم 47 کی بنیاد پر قائم ہوئی حکومت“ خود کو ان کے سائے سے محروم کرنا نہیں چاہے گی۔ پروگرام کا ابتدائی حصہ لہٰذا اس بحث میں صرف ہو جاتا کہ قاضی صاحب میعادِ ملازمت میں اضافہ قبول کریں گے یا نہیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے دن قریب آنا شروع ہوئے تو قضیہ یہ شروع ہوا کہ عزت مآب منصور علی شاہ صاحب ان کی جگہ لے پائیں گے یا نہیں؟

1973ء کا آئین تیار کرنے والوں نے متفقہ طورپر یہ طے کردیا تھا کہ چیف جسٹس کی تعیناتی وزیر اعظم کرے گا۔ 1996ء میں لیکن سجاد علی شاہ نام کے ایک جج نے ”فرمائشی“ دکھتی ایک درخواست کی سماعت کے اختتام پر فیصلہ یہ کیا کہ ججوں کی تعیناتی میں ”سنیارٹی“ کا اصول اپنایا جائے گا۔ چیف جسٹس ریٹائر ہو تو اس کی جگہ سینئر ترین جج ہی کو نامزد کرنا پڑے گا۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ نام نہاد ”سنیارٹی کا اصول“ طے کرنے والے سجاد علی شاہ بذاتِ خود مذکورہ اصول کے تحت چیف جسٹس کے عہدے پر فائز نہیں ہوئے تھے۔ موصوف کو محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اپنی دوسری حکومت کے دوران چنا تھا۔ محترمہ کی نگاہ میں وہ اس وجہ سے آئے کیونکہ انہوں نے نسیم حسن شاہ کی سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کی پہلی حکومت کی صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں برطرفی کو ”ناجائز“ ٹھہرانے والے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ ان کی دانست میں نوازشریف کو جو ”انصاف“ ملا وہ ”پنجابی“ سیاستدانوں ہی کو نصیب ہوتا ہے۔ سندھ سے آئے وزیر اعظم ایسی سہولت سے محروم رہے۔

چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالتے ہی لیکن وہ ججوں کی تعیناتی کے سلسلے میں من مانی کرنا شروع ہو گئے۔ اس ضمن میں ان دنوں کے صدر فاروق خان لغاری کو اپنا ہمنوا بنا لیا۔ سرائیکی وسیب کے لغاری نے سندھ کے سجاد علی شاہ کے ساتھ مل کر بالآخر 1996ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو برطرف کر دیا۔ مذکورہ برطرفی کیخلاف درخواست کی سنوائی میں لیت ولعل سے کام لیتے رہے۔ بالآخر اسے نسیم حسن شاہ کے لکھے فیصلے کے برعکس ”جائز و واجب“ ٹھہرایا۔

سجاد علی شاہ کے فیصلے نے نواز شریف کی ”ہیوی مینڈیٹ“ کے ساتھ وزیر اعظم کے دفتر واپسی کی راہ ہموار کردی۔ وزارت عظمیٰ میں چند دن صرف کرنے کے بعد مگر نواز شریف کو اندازہ ہوا کہ شاہ صاحب خود کو ضرورت سے ز یادہ ”خودمختار“ سمجھتے ہیں۔ ان سے نجات پانے کی گیم لگی۔ اس گیم کے چند حقائق سے بخوبی واقف ہوں۔ ان کا ذکر مگر کسی اور دن کے لئے موخر کرنا ہو گا۔

اصل موضوع کی جانب لوٹتے ہیں۔ پیر کے دن ٹاک شو کی تیاری کے لئے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا تو فائز عیسیٰ چیف جسٹس کا منصب چھوڑ چکے تھے۔ ان کی جگہ تعیناتی کے منتظر عزت مآب منصور علی شاہ صاحب نے احتجاجاً استعفیٰ بھی نہیں دیا۔ نئے چیف جسٹس صاحب نے بلکہ عہدہ سنبھالتے ہی فل کورٹ کا اجلاس طلب کر لیا۔ عزت مآب شاہ صاحب نے اس میں انٹرنیٹ کی زوم والی سہولت کی بدولت شرکت کی۔

شاہ صاحب کی فل کورٹ اجلاس میں شرکت ہی اپنے تئیں اہم نہیں تھی۔ اس سے بھی کہیں زیادہ قابل غور فل کورٹ کا یہ فیصلہ تھا کہ سپریم کورٹ کے زیر التوا 59  ہزار سے زائد مقدمات کی برق رفتار سماعت کے لئے اس فارمولے سے رجوع کیا جائے جو عزت مآب منصور علی شاہ صاحب نے 2003ء میں تیار کیا تھا۔ سپریم کورٹ سے باقاعدہ جاری ہوئے اعلامیے کی بدولت جو حقائق ہمارے سامنے آئے ان پر بحث کرتے ہوئے سکرین پر ”رونق“  لگانے کی گنجائش موجود نہیں تھی۔ سپریم کورٹ کا اعلامیہ واضح الفاظ میں پیغام یہ دے رہا تھا کہ وطن عزیز کی اعلیٰ ترین عدالت سیاسی معاملات پر اثر پذیر ہونے کے بجائے اپنے اصل فرائض یعنی انصاف کی فراہمی سرعت کیساتھ یقینی بنانا چاہ رہی ہے۔ یہ ”مثبت“ خبر تھی۔ ہم صحافی مگر ”مثبت“ خبروں کو بیان کرنے کے ہنر سے محروم ہو چکے ہیں۔ ہمیں ہیجان برپا کرنے کی علت لاحق ہو چکی ہے۔ یقین مانیں تقریباً 2 منٹ تک سپریم کورٹ کے جاری کئے اعلامیے کو بار بار پڑھتے ہوئے مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ میں اس میں سے ٹی وی سکرین پر رونق لگانے والا ”سودا“ کیسے تلاش کروں۔ پنجابی زبان کا ایک لفظ ہے ”کچیچی“ (کاف کے بعد چ اور پھردو نکتوں والی یے کے بعد دوبارہ چ اور ی)۔ یہ دیوانگی میں دانت پیسنے یا اپنے جسم کو کاٹ لینے کی خواہش یا مرحلہ بیان کرتی ہے۔ وہ لفظ یاد آیا اور موذی نشے کے عادی افراد کی بے چینی بھی۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments