یاد رفتگاں: عارف نقوی صاحب مرحوم


برلن کی ہر دلعزیز شخصیت، بہت بڑے ادیب اور میرے مینٹر اور استاد محترم جناب عارف نقوی بھائی اب ہم میں نہیں رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔ ان کے اہلِ خانہ اور ہم سب کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین

عارف نقوی صاحب مرحوم، 20 مارچ 1934 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفین لکھنؤ کے ساتھ منسلک ہو گئے۔ 1961 میں ہندوستان سے ہجرت کر کے جرمنی آ گئے اور آج تک اردو ادب کی شمع جلائے ہوئے تھے۔ ان کی ان گنت کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں ستر کی دہائی کی 6 مشہور کتابیں تلاش سحر، ایک سے چار، جرمنی کل اور آج، جرمنی اتہاس کے درپن میں، پیاسی دھرتی جلتے سائے، ہیں۔ اس کے بعد بھی، جرمنی میں بہت سی کتابیں جیسے ”جرمنی میں نصف صدی“ اور یادوں کے چراغ، کے علاوہ شعری مجموعے خار و گل، سوئے فردوس زمین، کھلتی کلیاں، خلش اور نقوش آوارہ شائع ہو چکی ہیں۔

عارف نقوی صاحب مرحوم کی حال ہی میں ایک تصویری البم اور کتاب ”راہ ادب میں بھٹکتا مسافر (سات دہائیوں کے تجربات)“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔ سفرناموں کے علاوہ، عارف نقوی صاحب مرحوم کے لکھے ہوئے ڈرامے بھی مشہور ہیں جن میں وہ خود اداکاری کے جوہر دکھانے کے ساتھ ساتھ ہدایت کاری بھی کرتے تھے۔ ان ڈراموں کے جرمن اور انگریزی زبانوں میں بھی ترجمے ہو چکے ہیں اور جرمنی، برطانیہ میں پیش کیے جا چکے ہیں۔ عارف نقوی صاحب مرحوم کے لکھے ہوئے ڈراموں، ”غلاموں کی ملکہ رضیہ سلطانہ“ اور دور کے ڈھول کے پروگرامز بھی قابلِ دید تھے۔ عارف نقوی صاحب مرحوم کی اردو تخلیقات کے جرمن زبان میں بھی ترجمے ہو چکے ہیں۔

اردو ادب کے علاوہ، کیرم کو جرمنی میں متعارف کرانے کا سہرا بھی عارف نقوی صاحب مرحوم کے سر پرجاتا ہے۔ وہ الحاق جرمنی سے پہلے مشرقی جرمنی اور بعد میں جرمن کیرم فیڈریشن کے صدر رہ چکے تھے۔

عارف نقوی صاحب مرحوم کو بہت سے انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا۔ جن میں یورپین اردو ایسوسی ایشن سے بابائے اردو کا خطاب قابلِ ستائش ہے۔

عارف نقوی صاحب مرحوم کی، نہ صرف ہندوستان کے صدور، وی۔ وی۔ گری، فخرالدین علی احمد، ذاکر حسین اور وزیر اعظم اندرا گاندھی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بہت سے حکمرانوں نے، مثلاً یوگوسلاویہ کی سربراہ ملکا پلانچ، جنہوں نے ٹیٹو کے بعد ملک کی باگ ڈور سنبھالی تھی، اردو ادب کی خدمات کو سراہا تھا۔

عارف نقوی صاحب مرحوم کے فلمی صنعت کی مشہور شخصیات سے ذاتی تعلقات تھے۔ جن میں سنیل دت۔ نرگس فیملی، راج ببر فیملی، کیفی اعظمی، دلیپ کمار اور نوشاد وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

اردو عالمی ادب کے دانشور اور اردو کے استاد جناب عارف نقوی صاحب مرحوم نے اردو انجمن برلن کی بنیاد 1996 میں رکھی۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں بھی اس، جرمنی کی اردو ادب و ثقافت میں سرفہرست ادبی انجمن، کے اراکین میں شامل ہوں۔

اردو انجمن کی سب سے پہلی ادبی محفل، 1996 میں، یاد غالب تھی۔ اس کے بعد اردو انجمن کی نظامت میں بے شمار کامیاب مجالس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جن میں مندرجہ ذیل قابل ذکر ہیں۔

تحریک آزادی میں اُردو کا رول؛ عارف نقوی صاحب مرحوم کے شعری مجموعے خلش کی رونمائی؛ مشہور موسیقار علا الدین کے ساتھ شام؛ امن کے لئے محفل کا انعقاد؛ ہلمتھ نیسپٹال کی یاد میں تعزیتی جلسہ؛ غالب کے اشعار اور چغتائی کی مصوری کا موازنہ؛اردو ادب میں خواتین کا حصہ؛ عارف نقوی صاحب مرحوم کی کتاب یادوں کے چراغ کی رسم اجراء؛ عارف نقوی صاحب مرحوم کی تخلیقات کے جرمن ترجمے۔ اردو انجمن کی نظامت میں بے شمار کامیاب مجالس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اردو انجمن کے صدر عارف نقوی صاحب مرحوم کی 80 ویں، 85 ویں اور 90 ویں سالگرہ پر شاندار تقریبات؛ شام افسانہ اور شام غزل یادگار تقریبات تھیں۔

ہندوستانی سفارت خانے کی ایک تقریب میں، اردو انجمن کی خدمات کو سراہتے ہوئے، صدر عارف نقوی صاحب مرحوم کو 150 کتابوں کا تحفہ دیا گیا۔ لکھنؤ کے ادیبوں کی دعوت پر اردو انجمن برلن کے ایک وفد نے عالمی اردو کانفرنس لکھنؤ، 2016، میں شرکت کی تھی۔

برصغیر سے آئی ہوئی مشہور ہستیوں کے ساتھ اردو انجمن کی محفلیں یادگار بن جاتی تھیں۔ ان میں عثمان پیرزادہ؛ فہمیدہ ریاض؛خلیق حارث؛ گوہر رضا اور شمس فریدی شامل تھے۔

اردو انجمن کی محفلوں میں، مختلف اردو ادبی شخصیات کی سالگرہ یا یومِ وفات کی مناسبت سے ان کو یاد کرتے ہوئے خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ اور برلن کے ہونہار شاعر اور ادیب ان خواتین و حضرات کے حوالے سے مقالات، مضامین پیش کرتے ہیں اور شعری نشستوں میں بہترین شعروں سے سامعین کے دل جیت لیتے ہیں۔ ان شخصیات میں کیفی اعظمی؛ فراق گورکھپوری؛ سجاد ظہیر؛ علی سردار جعفری؛ کرشن چندر؛ احمد عباس؛ احسان دانش؛ عصمت چغتائی؛ راجندر سنگھ بیدی؛ بہادر شاہ ظفر؛ سعادت حسن منٹو؛ احتشام حسین؛ اسرار الحق مجاز اور فیض احمد فیض کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

عارف نقوی صاحب مرحوم کو میں 1989 (جرمن اتحاد) ، سے جانتا تھا۔ پہلے ان سے مختلف نجی تقریبات میں ملاقات ہوتی تھی۔ بعد میں اردو انجمن برلن کے ممبر کی حیثیت سے اردو انجمن کے جلسوں میں ان کے اردو ادب کی گراں قدر نثری اور شعری تخلیقات سے مستفید ہونے کا موقع ملتا رہا۔ عارف نقوی صاحب مرحوم کو اگر کبھی کوئی تنظیم یا گروپ ”لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ“ سے نوازتے تو اس کی وجہ اردو ادبی خدمات کے علاوہ، اردو انجمن برلن رجسٹرڈ کی تخلیق ہوتی۔ انہوں نے نوے سال کی عمر پائی۔ گزشتہ ہفتے، انہوں نے مشہور زمانہ فرینکفرٹ بک میلے میں شرکت بھی کی جہاں وہ ہندوستانی حکومت کی دعوت پر، انڈین ادباء کے وفد کے ساتھ شامل تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments