نئے زمانے کے ہیں نئے رنگ


جب میں کل بال بنوانے کے لیے باربر شاپ گیا، تو خلافِ معمول وہاں تمام ہیئر ڈریسرز خواتین تھیں۔ جیسے ہی میں اندر داخل ہوا، ایک دراز قد اور خوش شکل لڑکی میرے سامنے آ گئی۔ نہایت خوش مزاجی سے اُس نے چینی انداز میں سلام کیا: ”نی ہاؤ“ ، اور پھر مسکراتے ہوئے پوچھا، ”جناب، ہم آپ کی کیسے خدمت کر سکتے ہیں؟“ زبان کی رکاوٹ کی وجہ سے، میں نے اشاروں سے سمجھانے کی کوشش کی کہ مجھے بال بنوانے ہیں۔ لڑکی نے نہایت پیشہ ورانہ انداز میں بات کو سمجھا اور خوش اخلاقی کے ساتھ مجھے بٹھا کر کام شروع کر دیا۔ میرے لیے یہ صورتحال کچھ غیر معمولی تھی کیونکہ میرے قدامت پسند معاشرے میں اس طرح کا منظر عام نہیں ہوتا۔ لیکن چین میں، یہ بات حیران کن نہیں تھی۔ یہاں صنفی تفریق کی بنیاد پر کام کی تقسیم کم ہوتی جا رہی ہے، اور مختلف پیشوں میں خواتین کا نظر آنا عام بات بن چکی ہے۔

یہ بھی نہیں ہے کہ ہم نے پہلے کبھی خواتین کو مارکیٹ میں کام کرتے نہیں دیکھا۔ تاہم، زیادہ تر معاشروں میں جسمانی حد بندیوں یا ”باڈی ببلز“ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ یعنی، لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مخصوص جسمانی فاصلہ برقرار رکھتے ہیں، اور اس حد سے تجاوز کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ مذکورہ موقع پر ان باڈی ببلز کی حدیں پامال ہوتی محسوس ہوئیں، جو میرے لیے ایک عجیب تجربہ تھا۔ لیکن پیشہ ورانہ رویوں اور بدلتی دنیا کے نئے تقاضے، جنہیں ہم ”نیو نارمل“ کہتے ہیں، نے اس رویے کو قابلِ قبول بنا دیا ہے۔

چونکہ میں سماجیات کا طالب علم ہوں، اس لیے میرے لیے یہ موقع تھا کہ میں اس تجربے کو مختلف زاویوں سے دیکھوں۔ سب سے پہلے، معاشی عوامل کا خیال آیا۔ وہاں کی تیز رفتار معاشی ترقی اور بڑھتی مہنگائی نے حالات کچھ اس طرح بنا دیے ہیں کہ اب خواتین کو بھی افرادی قوت کا حصہ بننا پڑ رہا ہے۔ ایک ہی آمدنی پر انحصار کی روایت کم ہو رہی ہے اور دونوں جنسوں کا مل کر کام کرنا ایک معمول بن گیا ہے۔

اس کے علاوہ، تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کی وسیع رسائی نے خواتین کو با اختیار بنایا ہے، جس سے ان کے لیے مختلف شعبوں میں قدم رکھنا زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ یہاں، تعلیم کے فروغ کے ساتھ ساتھ خواتین کی تربیت بھی ایسی ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی شعبے میں مہارت حاصل کر سکیں۔ اس طرح کے اقدامات نہ صرف انہیں با اعتماد بناتے ہیں بلکہ انہیں معاشرے میں روایتی صنفی تقسیم کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔

ایک اور پہلو جو ذہن میں آیا وہ یہ ہے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا نے صنفی مساوات اور صنفی بنیادوں پر مواقع کی برابری کے تصورات کو عام کر دیا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں یہ بات زیادہ واضح ہے کہ پیشے کو صنف کی بنیاد پر محدود کرنے کے بجائے، اس کی اہمیت اس بات میں دیکھی جاتی ہے کہ کوئی فرد کتنی مہارت اور محنت سے کام کرتا ہے۔

یہ تجربہ مجھے یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ سماجی تبدیلیاں کسی ایک ملک یا معاشرے تک محدود نہیں ہوتیں بلکہ معاشرتی ارتقا کا حصہ ہوتی ہیں۔ قدامت پسند معاشروں میں شاید اس قسم کی تبدیلیوں کو فوری طور پر قبول نہ کیا جائے، لیکن تبدیلی کے اثرات آہستہ آہستہ ہر جگہ نظر آتے ہیں۔

یوں مختلف پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قدامت پسند معاشروں میں اگرچہ ایسی سماجی تبدیلیوں کو آسانی سے قبول نہیں کیا جاتا، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تبدیلی آ ہی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری روایات کب تک ان ابھرتے طوفانی تبدیلیوں کا مقابلہ کر سکے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments