امریکی انتخابات پہ ایک نظر
منگل پانچ نومبر کو امریکی عوام انتخابات میں اگلے چار سال کے لیے نئے صدر کا فیصلہ کر دیں گے۔ پوری دنیا اب اس بات کا انتظار کر رہی ہے کہ اگلے ہفتے ہونے والے صدارتی انتخابات میں امریکی کملا ہیرس کو منتخب کرتے ہیں یا ڈونلڈ ٹرمپ کو؟ دیکھنا یہ ہے کہ انتخاب کے بعد بیس جنوری 2025 کو کملا ہیرس اپنے یقین کے ساتھ بائیڈن کے نقش قدم پر چلتی ہوئی حلف اٹھائیں گی یا ڈونلڈ ٹرمپ، ”امریکنزم، گلوبلزم نہیں“ کے نعرے کے ساتھ حلف کے لئے کھڑے ہوں گے؟
کسی حملے کے نتیجے میں جمہوری نظام کو گزند پہنچائی جاتی ہے تو سیاسی نظام خود کو درست کرنے کی صلاحیت کھو سکتا ہے۔ حالیہ تاریخ گواہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ملکی تاریخ میں کسی بھی دوسرے صدر سے زیادہ امریکی جمہوریت سے دشمنی کا مظاہرہ کیا ہے۔ کبھی اس نے انتخابی نتائج کو الٹنے کی کوشش کی۔ کہیں وہ سیاسی تشدد کا جشن مناتا نظر آتا ہے۔ اس کے جمہوریت دشمنی جرائم کی فہرست لمبی ہے لیکن سب لوگ اس سے واقف ہیں۔ تو ٹرمپ کی دوسری مدت کے بارے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دشمنی خود کو کیسے ظاہر کر سکتی ہے۔
ملک کا سیاسی نظام ان کی پہلی مدت تک سلامت رہا، لیکن اب بہت سے امریکی ووٹر حیران ہیں کہ دوسری مدت کتنی مختلف ہوگی۔ اس کے حامیوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ اب اپنے اہداف کو پورا کرنے کے لیے بہت بہتر پوزیشن میں ہے۔ ان کو دکھائی دے رہا ہے کہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں ٹرمپ اور اس کے معاونین ملازمت کے امیدواروں کی وفاداری کی جانچ کر رہے ہوں گے، اسٹیبلشمنٹ سے ان ریپبلکنز کو خارج کرنے کی کوشش کریں گے جو اس کی خواہشات کے خلاف ہو سکتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کے یہ امر کہ کانگریس اور عدلیہ دونوں اس کے ساتھ آٹھ سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ دوستانہ ہوں گے۔
سیاسی پنڈتوں کے خیال میں ٹرمپ امریکی جمہوریت کچھ اس طرح نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
اپنے مخالفین کو خاموش کروانے کے لیے وہ بحیثیت صدر اپنے ریگولیٹری اختیارات استعمال کر سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے تجویز کیا ہے کہ
NBC، MSNBC اور CBS ان کی تنقیدی کوریج کی وجہ سے اپنے نشریاتی لائسنس سے محروم ہونے کے مستحق ہیں۔ اس نے ایمیزون کو سزا دینے کی بات کی ہے کیونکہ اس کے بانی جیف بیزوس واشنگٹن پوسٹ کے مالک ہیں۔
ٹرمپ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر وہ دوبارہ صدر بنے تو اپنے سیاسی مخالفین کو سزا دینے کے لیے محکمہ انصاف کا استعمال کریں گے، ناقدین پر مقدمہ چلائیں گے اور انھیں ”طویل مدتی قید کی سزائیں“ دلوانے کی پوری کوشش کریں گے۔ اپنے پہلے دور میں، ٹرمپ نے کم از کم 10 لوگوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا، ٹرمپ اپنے عملے کے منصوبوں کو دیکھتے ہوئے دوسری مدت میں مزید تحقیقات کا حکم دے سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے بارہا اپنے اتحادیوں اور مہم کے عطیہ دہندگان کو انعام دینے کی بات کی ہے۔ بعض اوقات اس بارے میں کھلے عام وعدے کیے ہیں کہ وہ عہدہ سنبھالنے کے بعد کیا کریں گے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ چند انفرادی صنعتوں اور مٹھی بھر ارب پتیوں کی طرف سے واضح طور پر حمایت کے بعد (جو جدید صدارتی سیاست میں شاذ و نادر ہی دیکھا گیا ہے ) تیل کی صنعتیں اور شاید ایلون مسک کو فائدہ ہونے کا امکان ہے۔
اپنی پہلی مدت کے آخر میں، ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس نے انہیں ہزاروں وفاقی کارکنوں کو برطرف کرنے اور ان کی جگہ وفاقی ملازمین کو وفاداروں سے تبدیل کرنے کا اختیار دیا، جن میں ماہرین اقتصادیات، سائنسدان اور قومی سلامتی کے ماہرین شامل ہیں۔ اس حکم سے سیاسی تقرریوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ بعد میں صدر بائیڈن نے حکم نامہ منسوخ کر دیا تھا۔ کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس طرح کا حکم جمہوریت کو فروغ دیتا ہے جس کی وجہ سے وفاق میں افرادی قوت منتخب صدر کی پالیسیوں کی عکاسی کرتی ہے۔ لیکن اس اقدام سے حکومت کی غیر جانبدارانہ مہارت بھی چھین سکتی ہے جو پالیسی کو حقیقت سے جوڑتی ہے۔ اور ٹرمپ کے بہت سے جمہوریت مخالف وعدوں کے ساتھ مل کر، وفاقی ملازمین کی تھوک برطرفی اسے حکومت کو اپنی ذاتی خواہشات کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔
کچھ سیاسی ماہرین کی رائے میں ٹرمپ پہلے سے نافذ کردہ پالیسیوں کو کمزور کرنے یا ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان قوانین کو منسوخ کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے جن کی وہ مخالفت کرتے ہیں، ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں نے تجویز پیش کی ہے کہ وہ فنڈز کو ”ضبط“ کر سکتے ہیں۔ موثر طریقے سے ان قوانین کو نظر انداز کرتے ہوئے جو کانگریس نے پہلے منظور کیے تھے۔ مثلاً وہ صاف توانائی کے لیے رقم کو روکنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
پرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی سے انکار۔ ٹرمپ اور ان کے ساتھی، جے ڈی وینس، ابھی تک تسلیم نہیں کرتے کہ بائیڈن نے 2020 میں ٹرمپ کو شکست دی تھی۔ ٹرمپ نے یہاں تک کہ 6 جنوری 2021 کو نتائج کی تصدیق کے لیے کانگریس پر حملہ کرنے والے کچھ فسادیوں کو معاف کرنے کا عہد بھی کر رکھا ہے۔
بائیڈن اور ٹرمپ کتنے مختلف ہیں اس کی مثال کے طور پر، بائیڈن کے محکمہ انصاف کو دیکھیں۔ اس نے نہ صرف ممتاز ریپبلکن (جیسے ٹرمپ) بلکہ ممتاز ڈیموکریٹس (جیسے میئر ایرک ایڈمز اور سینیٹر رابرٹ مینینڈیز) ، ایک بڑے ڈیموکریٹک فنڈ جمع کرنے والے (سیم بنک مین فرائیڈ، جو اب قید میں ہے ) اور یہاں تک کہ صدر کے بیٹے ہنٹر بائیڈن پر بھی فرد جرم عائد کی ہے۔
شاید کچھ ڈیموکریٹس یہ بحث کریں گے کہ یہ فہرست بہت مختصر ہے اور اس میں اسقاط حمل، امیگریشن، موسمیاتی تبدیلی اور بہت کچھ پر ٹرمپ کی ممکنہ پالیسیاں شامل ہونی چاہئیں۔ لیکن یہ پالیسی تنازعات اور خود جمہوریت کے درمیان فرق کرنے کے قابل ہے۔
ماحولیاتی ضوابط کو کم کرنے، ریاستوں کو اسقاط حمل تک رسائی کو محدود کرنے یا غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہونے والے لوگوں کو ملک بدر کرنے کی اجازت دینے کے بارے میں فطری طور پر کوئی بھی مخالف جمہوریت نہیں ہے۔ ڈیموکریٹس یہ کیس بنا سکتے ہیں کہ یہ پالیسیاں غلط ہیں۔ اور ووٹر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون صحیح ہے۔ اگر پالیسیاں کامیاب نہیں ہوتیں تو ووٹر بھی اپنی سوچ بدل سکتے ہیں۔
بلاشبہ آج ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں امریکی عالمی اثر و رسوخ کی قدر سوال کی زد میں ہے۔ علاقائی طاقتیں اپنے طریقے پر چل رہی ہیں، مطلق العنان حکومتیں اپنے اتحاد بنا رہی ہیں، اور غزہ، یوکرین اور دیگر جگہوں پر تباہ کن جنگیں واشنگٹن کے کردار کی قدر کے بارے میں سوالات اٹھا رہی ہیں۔ لیکن پھر بھی امریکہ اپنی اقتصادی اور فوجی طاقت اور بہت سے اتحادوں میں اس کے اہم کردار کی وجہ سے اہمیت رکھتا ہے۔
- ٹرمپ ٹرائمف - 07/11/2024
- امریکی انتخابات پہ ایک نظر - 01/11/2024
- کوڑے کی حکومت اور ردی کے کباب - 27/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).