آزاد وطن کے غُلام باشندے
صبح صبح جب ان دیکھے گہرے زنجیروں میں جکڑے میرے وطن کے سینے پر پُر کشش ہوائیں چلتی ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے دنیا کی تمام رعنائیاں میرے وطن کے گِرد چکر کاٹ رہے ہوں۔ درختوں سے اُڑتے بے شُمار پرندے جیسے کہے رہے ہوں ہم آزاد ہیں، ہم جو چاہیں جو کہیں، جو چاہیں سُنیں اک نئی صبح لیے اپنی قسمت پر رشک کرتے ہیں۔ یہ دیکھ کر انسانی تاریخ کے ہزاروں سالوں کی ایک کُھلی کتاب میرے ذہن میں گردش کرنے لگتی ہے اور سوالوں کی بوچھاڑ مُجھے سکون سے بیٹھنے نہیں دیتی۔
وہ سوال جو کہیں پُروقار قوموں کی تباہی کا سبب بنے۔ وہ سوال جو خود اپنے اندر جواب لیے پھِرتے ہوں۔ وہ سوال جو بادشاہوں کو غُلامی کے زندانوں کا سفر کرواتے ہوں۔ ہاں وہ سوال جو قوموں کے مستقبل کا تعین کرتے ہوں۔ اس وطن کے سینے میں دفن یہ وہ سچ ہیں جنہیں کہیں دہائیوں قبل تاریخ کے کتابوں سے مِٹایا گیا تھا۔ کہیں راہِ راست کے مسافر جو ضمیر کے سامنے بے بس تھے ان سوالوں کے بوجھ تلے دب کر رہ گئے۔ یہ وہ تاریخی سچ ہیں جنہیں ہم خود سے بھی نہیں پوچھ سکتے یہ جُرم ہے۔ یہ سوچنے بولنے اور سُننے والے سب مُجرم ہیں۔
کیا تُم آزاد ہو؟ کہیں جسمانی یا ذہنی غُلام تو نہیں؟
اس طرح کے کہیں سوالات مجھے صبح کی تازہ ہواؤں میں جھنجھوڑ کے اُٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں بتاؤ تم کس لحاظ سے آزاد ہو؟ میں کہوں تو کیا کہوں؟ کیا میں کہے سکتا ہوں کہ میں اپنے قلم کی سیاہی سے سچ لکھنے پر قادر ہوں؟ تو ضمیر چیخ کے کہتا ہے لکھ کر دکھاؤ! میرا دل کہتا ہے تُمھاری ایک چھوٹی سی زندگی ہے ماں، باپ، بہن، بھائی جو تمھیں اپنا سب کچھ مانتے ہیں۔ تمھارے اس قلم کی سیاہی میں سب ڈوب جائے گا۔ کون کسی کا سوچتا ہے؟
یہ دنیا خود غرض ہے تمہیں تختہ دار پر چڑھتا دیکھیں گے مگر تمھارے لیے آواز اُٹھانے والا کوئی نہیں ہو گا۔ کیوں ایک ایسے قوم کے لیے خود اپنی زندگی خراب کرنا چاہتے ہو جن کے ضمیر مر چُکے ہیں۔ یہ غلطی ہرگز نہ کرنا میں یہاں رُکھ جاتا ہوں۔ کیا علم ایک مخصوص دائرے میں رہ کر حاصل کیا جاتا ہے؟ یا علم نے اپنے حدود متعین کر دیے ہیں؟ ہمیں تو تاریخ کے ایک رُخ پڑھنے کی اجازت ہے کیا ہم دوسرے باب کو پڑھ نہیں سکتے؟
اگر قلم زنجیروں میں جکڑا ہے تو ہم کس بنا پر علم پر فخر کر رہے ہیں یہ تو وہ سمندر تھی جس میں زنجیریں غرق ہوا کرتی تھی، خون دُھل جایا کرتے تھے، ظالم بے بس ہو جاتے تھے۔ پھر میرے ذہن میں سوال آتا ہے کیا میں اپنے حق کے لیے آواز اُٹھا سکتا ہوں؟ اگر ہاں تو میں آزاد ہوں۔ مگر اس سوال کا جواب بھی کچھ مثبت نہیں کیونکہ حق کے لیے آواز بُلند کرنا بھی تمھارے حق میں اچھا نہیں۔ یہ اُس دائرے سے باہر ہوجاتا ہے جو دائرہ علم اور باقی چیزوں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔
میں دنگ رہ جاتا ہوں بچپن سے جوانی کے اس پُر رونق سفر میں مُجھے یہ تک معلوم نہ ہوسکا کہ میں محدود سوچ کا غُلام جسم لیے پِھرتا ہوں۔ جسے اپنے وجود پر مختلف قسم کے اَن دیکھے زنجیروں کا احساس تک نہ ہوسکا۔ ان زنجیروں کا بوجھ جس قدر سخت ہیں اُس قدر پُرسکون نیند میں سوئے اہلِ وطن کے لیے آرام دہ بھی ہیں۔ مگر کیا ان زنجیروں کا وجود اہل وطن کی ضمیر جگاتے ہوں گے ؟ کیا اہل وطن کو یہ احساس بھی ہے کہ وہ آزاد وطن کے غُلام باشندے ہیں؟
- باغی بلوچ، بد امن بلوچستان - 10/12/2024
- آزاد وطن کے غُلام باشندے - 02/11/2024
- علم کا کفن - 23/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).