آغا صاحب


آغا صاحب بھی چلے گئے اور گئے بھی تو بالکل اسی طرح جیسا وہ کہا کرتے تھے کہ ”جب مر جاؤں گا تو کسی سے خبر مل ہی جائے گی“ ۔ اور یہی ہوا بھی۔ شاید جانے والے کو کچھ آگہی ہوجاتی ہے۔

وہ میرے لڑکپن کے دوست تھے ان کا نام آغا فردوس رضا تھا۔ کچھ ان کو رضا اور اکثر آغا کے نام سے پکارتے۔ میں انہیں آغا ہی کہا کرتا تھا۔ ان کے والد بڑے آغا صاحب کہلاتے تھے ان کی شبیہ آج بھی ہلکی سی کہیں ذہن میں محفوظ ہے۔ بہت نستعلیق لیکن کسی حد تک بدمزاج ان کا تعلق دلی کے کسی اعلیٰ شیعہ گھرانے سے تھا جسے انقلاب زمانہ نے غربت اور افلاس سے دوچار کر دیا لیکن کیا مجال جو کبھی کوئی گری ہوئی بات کرتے یا کسی کے سامنے اپنی پریشانی ظاہر کرتے۔ وہ بڑے فخر سے بتاتے کہ ان کا سلسلہ خاندان مغلیہ سے ملتا ہے۔ زبان بھی قلعہ معلیٰ ہی کی بولتے۔ مزاج کا شاہانہ پن اور طمطراق بھی اس کی گواہی دیتا جو اس کسمپرسی کے عالم میں بھی قائم تھا۔ ان کی ضرورت سے زیادہ ضد اور انا پرستی کی صفت ان کی اولاد میں بھی آئی۔ بڑے آغا صاحب کی اپنی بیگم سے ٹھنی رہتی۔ ان کے کئی بیٹے اور بیٹیاں تھیں لیکن کبھی بھائی بہنوں میں نہیں بنی سب کے سب تنک مزاج اور شکی طبیعت کے اور ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دینا۔ چھوٹی سی بات کا بتنگڑ بنا لیتے اور آپس میں خوب جھگڑتے بلکہ اکثر تو ایک دوسرے سے برسوں بات بھی نہیں کرتے اور ایک دوسرے سے انجانے بنے رہتے لیکن ادب و آداب میں کوئی فرق نہ آنے دیتے۔ خاندان کی اس ذہنی کیفیت کی وجہ شاید مالی دشواریاں بھی ہوں کہتے ہیں کہ جس نے کبھی اچھے دن دیکھے ہوں وہ غربت میں بکھر جاتا ہے اور اس کی شخصیت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے۔ یہی کچھ آغا صاحب کے گھرانے کے ساتھ ہوا۔

ہمارے دوست فردوس رضا المعروف چھوٹے آغا بھی اپنے والدین اور بھائی بہنوں کی طرح تھے۔ وہی ضد، انا اور خودداری۔ وہ بھائیوں میں سب سے بڑے تھے لہذا اپنے چھوٹوں پر حکم چلانا اور انہیں اپنا تابع رکھنا اپنا حق سمجھتے تھے۔ والد نے انہیں کانوینٹ اسکول میں پڑھایا۔ انگریزی بہت اچھی بولتے۔ ہر طرح کی کتابیں پڑھتے۔ ان کی بغل میں کبھی پیری میسن۔ کبھی اگاتھا کرسٹی اور کبھی فلسفے کی کوئی کتاب ہوتی۔ اردو ادب اور شعر و شاعری سے بھی ان کو شغف تھا اور بات بات پر برمحل اشعار بھی داغ دیتے۔ ابن صفی کے رسیا تھے اور ان کی ہر آنے والی کتاب سب سے پہلے انہی کے ہاتھوں میں ہوتی۔ جاسوسی ناولوں کے کردار میں اس قدر گم ہو جاتے کہ بعض اوقات ان پر شرلاک ہومز یا کرنل فریدی کا شبہ ہونے لگتا۔ بات سے بات نکالتے اور ہر چیز کو شک کی نظروں سے دیکھتے۔

میری ان سے دوستی سکول کے زمانے سے تھی بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ وہ مجھ سے بات کر لیا کرتے لیکن میں ان سے بات کرتے وقت محتاط رہتا نامعلوم کیا بات ان کو گراں گزرے اور وہ تنک کر اٹھ جائیں۔ میرے علاوہ ان کے صرف چند ہی دوست تھے ہر ایک کو وہ منہ نہیں لگاتے تھے نہ ہی دوستوں کی چھیڑ چھاڑ اور مذاق انہیں پسند تھا۔ بس اپنی دنیا میں کھوئے رہتے۔ ان کی ایک اور عادت یہ بھی تھی کہ بغیر کچھ بتائے اچانک غائب ہو جاتے اور مہینوں نظر نا آتے اور پھر کسی دن اچانک وارد ہو جاتے اگر کوئی پوچھے کہ اتنے دنوں کہاں تھے تو ٹال دیتے۔ پراسراریت ان کی فطرت کا حصہ تھی۔ آغا صاحب کی زندگی ایک معمہ تھی جس کا کوئی سرا نہیں ملتا۔

کالج میں ایک لڑکی ان پر جی جان سے فدا ہو گئی ( چلیے اس کا فرضی نام کرن رکھ لیتے ہیں ) کرن کا عشق ایسا کہ آغا صاحب کے بھی چھکے چھوٹ گئے آغا اس سے کتراتے اور وہ ان کی تلاش میں ماری ماری پھرتی اگر کبھی وہ پکڑ میں آ جاتے تو انہیں حجام کی دکان لے جاتی۔ شیو کرواتی۔ لانڈری سے کپڑے دھلواتی۔ ان کے ناز اٹھاتی اور خاموشی سے ان کی جیب میں کچھ رقم بھی ڈال دیتی جو وہ کبھی رکھ لیتے اور کبھی اس کے منہ پر دے مارتے اور عشق کی ماری کرن ان کی ہر بات ہر زیادتی چپکے سے سہ جاتی۔ جب ان کے عشق کے چرچے عام ہوئے تو کرن کے والدین نے آغا صاحب کو گھر آنے کی اجازت دے دی کہ سر عام جگ ہنسائی سے بچے رہیں۔ مزید رسوائی سے بچنے کے لیے وہ ان کی شادی پر بھی رضامند ہو گئے۔ آغا صاحب سے کہا گیا اپنے والدین کو رشتے کے لیے بھیجیں لیکن کون تھا جو رشتہ لے کر جاتا۔ والدین میں ناچاقی۔ ضد اور تکبر آڑے آیا کہ کسی کم خاندانی لڑکی سے کیسے رشتہ کرتے اور پھر گھر بھی تو ایسا نہیں تھا جہاں بہو لاتے اور بات بن نہ سکی۔

آغا صاحب ایک مشکل انسان تھے ان سے نباہ آسان نہ تھا۔ بات بات پر کرن سے الجھ جاتے ایک دن اسی کے گھر میں خوب تو تو میں میں ہوئی وہ بیچاری اپنی محبت کا یقین دلاتی رہی اور آغا صاحب اسے ڈھونگ اور دکھاوا کہتے رہے وہ روتی رہی جب وہ نہ مانے تو کرن نے کچن میں جاکر خود پر تیل چھڑک کر آگ لگادی اور جلتی ہوئی ڈرائینگ روم میں آئی اور کہا رضا اب تو تمہیں میری محبت کا یقین ہے۔ آغا صاحب بھی شاید اس کے لیے تیار نہیں تھے بوکھلا گئے بڑی مشکل سے آگ بجھائی گئی اور ہسپتال لے گئے۔ کرن بہت زیادہ جل چکی تھی دو دن موت و زیست کی کشمکش کے بعد بدنصیب لڑکی زندگی کی بازی ہار گئی۔ کرن کی موت کے بعد آغا صاحب مزید بکھر گئے بلکہ کسی حد تک دیوانگی کا شکار ہو گئے اور شاید کوئی سستا سا نشہ بھی کرنے لگے۔

ان دنوں میں ملازمت کے سلسلے میں اکثر باہر رہتا اور فکر معاش میں اس قدر مصروف ہو گیا کہ آغا صاحب کی کوئی خبر نا ملی۔ کچھ عرصے بعد کمپنی نے میری پوسٹنگ کراچی آفس کردی۔ ہمارے ایک مشترکہ دوست نے آغا کا پتہ بتایا۔ میں ان کے گھر شاہ فیصل کالونی پہنچا جہاں وہ ایک کواٹر میں اپنی والدہ اور بھائیوں کے ساتھ رہ رہے تھے۔ جب میں وہاں پہنچا تو وہ گھر پر نہیں تھے ان کے بھائیوں نے بتایا کہ صبح ہوتے ہی نامعلوم کہاں نکل جاتے ہیں اور رات گئے آتے ہیں اور اکثر نہیں بھی آتے۔ روزگار کوئی نہیں تھا۔ گھر کے معاملات سے لا تعلق اور نہ ہی وہ کسی سے کوئی بات کرتے تھے۔ میں اپنا پتہ دے کر آ گیا کہ وہ مجھ سے ملیں۔ ایک دن اچانک میرے آفس آ گئے۔ عجیب خستہ حال میں تھے۔ بہکی بہکی باتیں کر رہے تھے اور متواتر سگریٹ پیے جا رہے تھے۔ کھانے کا وقت ہو گیا میں نے کھانے کو کہا تو جواب ملا میں کچھ نہیں کھاتا اور بہت سی پیٹ کی بیماریاں گنا دیں بقول انہی کے وہ ان سب کے مریض تھے۔ جاتے وقت میں نے ان کی جیب میں کچھ رقم ڈال دی جو کچھ پس و پیش کے بعد انہوں نے رکھ لی۔ میں نے ان سے دوبارہ آنے کو کہا اور وعدہ کر کے چلے گئے۔

ان دنوں میرے ایک دوست جناح ہسپتال میں نیورولوجی کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ تھے میں نے ان کو آغا صاحب کی حالت بتائی تو انہوں نے مشورہ دیا کہ کسی دن میرے پاس لے آؤ۔ ایک دن آغا آئے تو میں ان کو کسی بہانے جناح ہسپتال لے گیا جب ہم نیورولوجی ڈیپارٹمنٹ پہنچے تو ان کا ماتھا ٹھنکا اور کہنے لگے یہ آپ مجھے کہاں لے آئے میں نے جواب دیا کچھ نہیں اپنے ایک دوست سے ملنے آیا ہوں۔ ہم ڈاکٹر آفس میں بات کر رہے تھے کہ ڈاکٹر نے مجھے باہر چلے جانے کا اشارہ کیا تاکہ وہ تنہائی میں آغا سے بات کر سکیں۔ میں دوسرے کمرے میں جا کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر نے آ کر بتایا کہ آغا صاحب شدید ڈپریشن کا شکار ہیں اور انہیں فوری علاج کی ضرورت ہے اور اس کے لیے انہیں ہسپتال میں داخل ہونا پڑے گا انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ ان کو چھوڑ جاؤ اور ان کی ضرورت کا سامان شام تک پہنچا دینا۔ میں آغا سے ملے بغیر خاموشی سے باہر آ گیا۔ اپنے آفس پہنچ کر ان کے گھر کسی کو بھیجا کہ ان کے کپڑے اور ضرورت کا سامان لے آئیں اور گھر والوں کو خبر کر دیں کہ وہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور ملاقات پر پابندی ہے۔ شام کو میں آغا صاحب کے کپڑے اور کچھ بسکٹ۔ سگریٹ اور چند کتابیں ہسپتال پہنچا آیا لیکن ان سے نہیں ملا۔ ڈاکٹر سے فون پر بات ہوئی تو بتایا ایک ہفتے بعد ان سے ملنے آؤں۔ اگلے ہفتے میں آغا سے ملنے ہسپتال گیا تو مجھے دیکھ کر انہوں نے منہ پھیر لیا اور کوئی بات نہیں کی جو سامان اور کھانے کی چیزیں میں لے گیا تھا ان میں سے صرف سگریٹ نکال لیں اور ایک سگریٹ سلگا کر غصے سے کہا کیا آپ مجھے پاگل سمجھتے ہیں جو یہاں ڈال گئے۔ میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔ میں نے ملائمت سے کہا تم پاگل بالکل نہیں ہو بس تمہیں کچھ علاج کی ضرورت ہے اور ڈاکٹر کا مشورہ ہے کہ چند دن تم ان کی نگرانی میں رہو اور دوائیں باقاعدگی سے لو۔ بہت جز بز ہوئے اور منہ پھلائے بیٹھے رہے۔ دوسرے ہفتے میں پھر گیا اب پہلے سے بہت بہتر تھے۔ باتوں میں بھی کچھ ربط تھا اور صحت بھی اچھی لگ رہی تھی بس اتنا پوچھا یہاں کب تک اور رہنا ہو گا میں نے کہا ڈاکٹر سے پوچھ کر جواب دوں گا۔ میں پابندی سے ہر ہفتے جاتا اور ان کی ضرورت کی چیزیں ساتھ لے جاتا۔ وہ شاید ہسپتال کے ماحول سے کچھ مانوس ہوچکے تھے اور صحت بھی بہت بہتر ہو گئی تھی۔ ایک ماہ بعد میرے ڈاکٹر دوست نے فون کر کے مجھے بلایا اور کہا اب آغا صاحب بہت بہتر ہیں۔ کچھ دوائیں لکھ کر دیں اور انہیں ڈسچارج کر دیا۔ آغا صاحب کو میں ان کے گھر چھوڑ آیا لیکن اب یہ فکر تھی کہ وہ بے روزگار ہیں اور اگر کوئی ذریعہ معاش نہیں ملتا تو دوبارہ وہی حالت ہو جائے گی۔ ان دنوں ہماری کمپنی کا فیلڈ سروے پراجیکٹ چل رہا تھا۔ آغا صاحب پڑھے لکھے تھے انگریزی اچھی بولتے تھے میں نے ان کو فیلڈ آفس میں اسسٹنٹ کے طور پر بھیج دیا۔ تنخواہ معقول تھی اور رہائش کے علاوہ بہترین کھانے میس میں میسر تھے۔ آغا صاحب کی کارکردگی سے تو کسی کو کوئی شکایت نہیں تھی بس گوروں کو یہ شکوہ رہتا کہ وہ بحث بہت کرتے ہیں اور آغا صاحب جو پہلے ہی شکی مزاج تھے۔ ان کی محبت اور خلوص میرے لیے اتنا کہ انہیں ہر جگہ میرے خلاف سازش کی بو آتی اور مجھ سے وائرلیس پر کہتے تم اپنی آنکھوں کھلی رکھو یہاں چند لوگ تمھارے خلاف کوئی سازش کر رہے ہیں اور میں ہنس کر ٹال دیتا۔ کئی ماہ وہ اس پروجیکٹ پر رہے صحت بھی اچھی ہو گئی اور کچھ نارمل بھی ہو گئے۔ ایک دن کسی گورے سے الجھ پڑے اور نوکری سے برخواست کر دیے گئے۔ میرے پاس آفس آئے میں نے ان کا فائنل سیٹلمنٹ کرایا اور ایک معقول رقم انہیں دلوائی۔ اب مجھے یہ فکر ہوئی کہ ان کا کیا بنے گا کہیں مالی مشکلات کی وجہ سے پھر اسی حالت میں نہ لوٹ جائیں لہذا میں نے ان کے دو چھوٹے بھائیوں کو اسی پروجیکٹ پر بھیج دیا کہ کم از کم گھر تو چلتا رہے۔ کچھ عرصے بعد خبر ملی کہ آغا صاحب کو کنٹونمنٹ آفس میں کوئی ملازمت مل گئی ہے اور وہ کافی بہتر ہیں۔

مجھے کمپنی نے ملک سے باہر ایک اسائنمنٹ پر بھیج دیا جہاں میں دس برس رہا۔ اس دوران میری آغا صاحب سے نہ تو کبھی ملاقات ہوئی اور نہ ہی ان کی کوئی خبر ملی۔ میں چند ہفتوں کے لیے چھٹی پر آتا تو فرصت ہی نا ملتی کہ ان کی خبر لوں۔ سنہ دو ہزار دس میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر میں گھر لوٹ آیا۔ اب فرصت ہی فرصت تھی۔ آغا صاحب کی کھوج لگائی تو معلوم ہوا کہ اب تک کنٹونمنٹ بورڈ میں کام کر رہے ہیں۔ ایک دن میں اچانک ان کے دفتر پہنچ گیا۔ پہلے تو مجھے دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا پھر گفتگو کا سلسلہ چل نکلا۔ وہ بہت بہتر لگ رہے تھے ہم دیر تک مختلف موضوعات پر باتیں کرتے رہے۔ آغا صاحب نے بتایا کہ انہوں نے شادی کرلی تھی جو زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ انہوں نے ایک دو کمروں کا کواٹر بھی خرید لیا تھا۔ چند سال بعد انہوں نے ایک متعلقہ خاتون سے دوسری شادی کرلی جس سے ایک بیٹا بھی ہوا۔ یہ شادی بھی ناکام ہوئی۔ بیوی نے علیحدگی لے لی اور بیٹے کو لے کر چلی گئیں۔ اب آغا صاحب فیصل کالونی میں اکیلے رہتے ہیں۔ ان کی والدہ بھی نہیں رہیں اور بھائی بہنوں سے بھی کوئی رابطہ نہیں تھا۔ آغا صاحب کو کانٹریکٹ مکمل ہونے کے بعد ملازمت سے فارغ کر دیا گیا اور انہیں ایک قلیل پنشن ملنے لگی جو ناکافی تھی۔

مجھ سے ملنے اکثر گھر آ جاتے اور وہی منطقی اور لایعنی باتیں کرتے کبھی کہتے مجھے کینسر ہو گیا ہے اور کبھی خود کو دل کا مریض کہتے۔ مرنے کی باتیں کرتے اور کہتے بس کسی دن تم کو میری موت کی خبر مل جائے گی۔ میں نے مکان کا پتہ پوچھا تو بتانے سے انکار کر دیا بس یہی کہتے جب مر جاؤں گا تو کوئی خبر دے ہی دے گا میں از راہ مذاق کہتا اگر مرنے کی اتنی ہی جلدی ہے تو تمھارے گھر کے پیچھے ریلوے لائن گزرتی ہے کسی دن اس پر لیٹ کر خودکشی کر لو تو ناراض ہو جاتے۔ میں کہتا میں تم کو زندہ اور صحت مند دیکھنا چاہتا ہوں اور چاہتا ہوں تم اپنا ٹھیک سے علاج کراؤ تو طنزیہ ہنسی ان کے ہونٹوں پر آ گئی اور زیر لب کہا ”علاج۔ دو وقت کی روٹی پوری نہیں ہوتی دوا علاج کہاں سے کروں“ ۔ میں نے جواب دیا جتنی زندگی لے کر آئے ہو وہ تو جینا پڑے گی لیکن بغیر علاج کے تم کو مرنے نہیں دوں گا۔ مجھے ان کی بدحالی اور تنگدستی کا اندازہ تھا لہذا میں نے ان کی دوا علاج کے لیے ایک رقم مقرر کردی جو ہر ماہ کی پہلی کو ان کے بینک اکاؤنٹ میں پہنچ جاتی اور وہ پابندی سے رقم ملنے پر مجھے مطلع ضرور کرتے۔

کئی سال پہلے کراچی میں شدید برسات ہوئی ایک دن میں نے رات کے وقت انہیں فون کیا بہت دیر بعد اٹھایا پوچھنے پر بتایا کہ مکان کی چھت ٹپک رہی تھی کمرے میں پانی بھر گیا جسے نکال رہا تھا۔ برسات ختم ہوئی تو میں نے انہیں بلایا۔ ہم نے اکٹھے کھانا کھایا اور خوب باتیں کیں جاتے وقت میں نے انہیں ایک معقول رقم دینا چاہی تو کہنے لگے میں اس پوزیشن میں نہیں کہ واپس کر سکوں تو میں نے کہا یہ واپس مت کرنا اور مکان کی چھت ڈلوا لینا ان کا مغلئی خون کھول اٹھا اور بولے تو کیا آپ مجھ پر احسان کر رہے ہیں۔ میں نے ہنس کر کہا نہیں تم میرے لڑکپن کے دوست ہو یہ رقم میری طرف سے تحفہ سمجھ کر رکھ لو۔ بڑی مشکل سے مانے اور چلے گئے اور اپنا پتہ بھی دے گئے اور کہا کبھی آ کر دیکھ لینا کہ یہ رقم چھت ڈالنے ہی میں استعمال ہوئی ہے۔

کئی سال گزر گئے آغا صاحب سے میرے کھٹے میٹھے تعلقات چلتے رہے کبھی اچھے موڈ میں ہوتے تو خوب باتیں کرتے اچھے شعر سناتے اور ہر موضوع پر کھل کر بات کرتے اور اکثر روٹھے رہتے لیکن کبھی کسی کا شکوہ بھی نہیں کرتے اور بس یہی کہتے ”شکر ہے پالنے والے کا“ ۔

مسلکی لحاظ سے وہ شیعہ تھے لیکن صرف محرم کے دس دن مجالس میں جاتے اور دس محرم کو سیاہ لباس بھی پہنتے۔

آیک دن میرے پاس آئے مجھے ان کی آنکھوں میں بہت زیادہ سفیدی نظر آئی تو میں نے کہا تمھاری آنکھوں میں تو کیٹرک ہے تو لاپرواہی سے جواب دیا بہت عرصے سے ہے اور اب تو صاف نظر بھی نہیں آتا۔ وہ چلے گئے اور میں سوچتا رہ گیا کہ یہ شخص کس مٹی کا بنا ہے۔

انہی دنوں میری بیگم کو آنکھوں کے معائنہ کے لیے ساؤتھ سٹی ہسپتال میں ایک آئی اسپیشلسٹ کے پاس جانا پڑ گیا جو کیٹرک کے آپریشن بھی کرتے تھے۔ میں نے چند روز بعد ڈاکٹر صاحب کو فون کیا اور آغا صاحب کے کیٹرک کا بتایا انہوں نے مشورہ دیا کہ میرے پاس بھیج دو معائنہ کر لوں گا۔ میں نے درخواست کی کہ ان سے فیس کی بات نہ کیجئیے گا وہ میں ادا کردوں گا۔ آغا صاحب وقت لے کر ان کے پاس گئے اور معائنہ کرایا ان کے جانے کے بعد ڈاکٹر نے مجھے فون پر بتایا کہ دونوں آنکھوں میں شدید کیٹرک ہے اور فوری آپریشن کے بعد لینس لگا نے پڑیں، گے۔ ڈاکٹر کی سرجری فیس اور لینس لگانے کے اخراجات بہت زیادہ تھے لیکن انہوں نے آغا صاحب کے لیے اچھی خاصی رعایت کردی۔ آپریشن کی تاریخ سے پہلے وہ رقم میں نے ادا کردی اور آغا صاحب کو ان کے پاس یہ کہ کر بھیج دیا کہ آپ اخراجات کی بات نہ کیجئیے گا۔ یہ کار خیر ڈاکٹر صاحب کر رہے ہیں۔ وہ کسی کا احسان لینے کے لیے تیار نہ تھے اور دھیمی آواز میں کہا ”یار صرف تمھارے سامنے انا کی چادر سرک گئی تھی اب کسی اور کے سامنے مجھے رسوا نہ کرو“ ۔ بہرحال میرے سمجھانے پر راضی ہو گئے اور ڈاکٹر سے ملنے چلے گئے۔

پہلے ان کی ایک آنکھ کا آپریشن ہوا اور اگلے ہفتے دوسری آنکھ کا بھی آپریشن ہو گیا اور دونوں آنکھوں میں لینس ڈال دیے گئے۔ آغا کی بینائی بحال ہو گئی تو مجھ سے پوچھا کہ اس کا بل کس نے ادا کیا تو میں بات ٹال گیا۔ وہ سمجھ تو گئے اور خلاف توقع زیادہ حیل و حجت بھی نہیں کی۔ اور مجھے خوشی ہوئی کہ ان کی آنکھیں پھر سے روشن ہو گئیں۔

اس سال جنوری میں حسب معمول میں نے ان کے اکاؤنٹ میں رقم بھیجی تو کئی دن تک ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا تو میں نے فون کیا۔ فون بند تھا میں نے بارہا کوشش کی لیکن بات نہ ہو سکی تو مجھے تشویش ہوئی۔ میں نے ایک شناسا جو اسی علاقے میں رہتے تھے کو فون کر کے آغا صاحب کا پتہ دیا کہ جا کر ان کی خیریت معلوم کریں۔ شام کو ان کا فون آیا اور بتایا کہ۔ آغا صاحب نہیں رہے۔ پڑوسیوں نے بتایا کہ کئی دن سے ان کا گھر بند تھا اور آس پاس کچھ بدبو پھیلی ہوئی تھی تو پولیس کو خبر دی گئی۔ پولیس محلے کے چند افراد کے ساتھ دروازہ توڑ کے ا ندر داخل ہوئی تو آغا صاحب کو مردہ حالت میں پایا۔ پوسٹمارٹم کی رپورٹ کے مطابق کئی روز قبل ان کی موت ہو چکی تھی۔ اہل محلہ اور ایدھی کی مدد سے ان کی تدفین کردی گئی۔ ان کی قبر کا بھی کسی کو پتہ نہیں چلا اور وہ اسی پراسراریت کے ساتھ دفن ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

آغا صاحب کی اس بے بسی کی موت پر دل خون کے آنسو رو دیا۔ ان کی موت بھی ان کی زندگی کی طرح ایک معمہ تھی کچھ پتہ نہیں کب اور کن حالات میں دنیا چھوڑ گئے۔ کسی سے کچھ کہے سنے بغیر۔ جب رخصت ہوئے تو کوئی ان کے قریب نہ تھا کیسی بے بسی کی موت ہوئی بالکل اسی طرح جیسے وہ کہا کرتے تھے۔

آغا صاحب خاموشی سے چلے گئے ایک انتہائی خوددار۔ سچا اور دیانت دار شخص جو ہر قسم کی مصلحت اور منافقت سے دور اور ساری زندگی اپنی انا کی چادر اوڑھے دنیا کی نظروں سے خود کو چھپاتا رہا لیکن کبھی کسی کے آگے دست نگر نہیں پھیلایا اور اپنی خودداری کو سینے سے لگائے خاموشی سے منوں مٹی تلے جا سویا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments