معاشرتی رویوں کا ارتقا: پرانی روایات اور نئے چیلنجز


Loading

سماج کی تشکیل دراصل کچھ اصولوں اور روایات پر مبنی ہوتی ہے جو لوگوں کے رہن سہن، فکر اور عمل کو متاثر کرتی ہیں۔ ہر دور میں کچھ روایات ایسی ہوتی ہیں جنہیں لازم سمجھ کر لوگ اپنا لیتے ہیں۔ یہ روایات نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں، لیکن وقت کے ساتھ جب نئی سوچ اور علم کا نور آتا ہے تو یہ اصول اور روایات بدلتے بھی ہیں۔ پہلے جو باتیں ناقابل قبول اور حرام سمجھی جاتی تھیں، کچھ وقت کے بعد ان میں تبدیلی آ جاتی ہے اور معاشرہ انہیں تسلیم کر لیتا ہے۔ مثال کے طور پر، خواجہ سرا جو کبھی دھتکارے جاتے تھے، آج ہمارے معاشرے کا تسلیم شدہ حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اسی طرح، جو خواتین پہلے نظرانداز کی جاتی تھیں، اب تعلیم اور معاشرتی شعور کے ذریعے آگے بڑھ رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سماج کل کو مردوں کو بھی اسی طرح کچل کر انہیں گھریلو کاموں تک محدود کر دے گا، جیسا کہ خواتین کے ساتھ ہوا؟

ہر معاشرے میں کچھ بنیادی باتیں ہوتی ہیں جنہیں اصول و ضوابط سمجھ کر لوگ اپنی زندگیوں میں اپناتے ہیں۔ مثلاً ہمارے معاشرے میں جہیز کو دیکھا جائے تو ایک زمانے میں یہ خاندانی حمایت کا ذریعہ تھا، جہاں والدین اپنی بیٹی کو نئی زندگی میں مالی امداد فراہم کرتے تھے، لیکن وقت کے ساتھ یہ روایت اس قدر بگڑ گئی کہ اب اسے معاشرتی فخر و ذلت کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ لڑکی کے والدین قرضوں میں ڈوب کر اپنی بچی کی شادی میں سارا کچھ خرچ کر دیتے ہیں۔ اسی طرح، غیرت کے نام پر قتل ایک ایسا فعل ہے جسے کچھ لوگ اپنے خاندان کی عزت بچانے کے لیے جائز سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے باوجود یہ تصور ابھی بھی کچھ طبقات میں زندہ ہے اور جب تک معاشرہ ان باتوں پر سنجیدگی سے غور نہیں کرتا، یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

ٹیکنالوجی نے اس معاشرتی تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے نئی نسل میں شعور بیدار ہوا ہے اور وہ اپنے حقوق اور فرائض کے متعلق آگاہی حاصل کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان اب ایسی روایات کو چیلنج کرتے ہیں جو ان کے خوابوں اور آزادی کو محدود کرتی ہیں۔ خواتین کے حقوق ہوں یا مردوں کی معاشرتی ذمہ داریاں، ہر چیز پر کھلے عام بات ہوتی ہے، اور یہ تبدیلی وقت کے ساتھ مزید بڑھ رہی ہے۔ ٹیکنالوجی کی بدولت ہمیں دنیا کے دیگر معاشروں کی مثالیں ملتی ہیں جو ہمیں سمجھاتی ہیں کہ ہم بھی اپنے سماج میں بہتری لا سکتے ہیں۔

سماجی روایات کے مطابق زندگی گزارنا کبھی کبھی ایک بوجھ بن جاتا ہے۔ کسی شخص کی اپنی مرضی کے برخلاف سماجی اصولوں کو اپنانا ذہنی دباؤ کا باعث بن سکتا ہے۔ مثلاً، ایک لڑکی جو تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے، مگر اس کے خاندان میں لڑکیوں کو پڑھانے کی اجازت نہیں، تو یہ اس کی خوداعتمادی اور خوشیوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اسی طرح، ایک مرد جو اپنی زندگی کو اپنی پسند کے مطابق بنانا چاہتا ہے مگر اس کے لیے روایتی سماجی اصولوں کے تحت کوئی اور شعبہ چن لیا جاتا ہے، تو اس کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے۔

آج ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ روایات واقعی انسان کے بھلے کے لیے ہیں؟ علم اور سائنس نے ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ بہت سی روایات محض وقت کے ساتھ بغیر سوچے سمجھے اپنا لی گئی ہیں اور ان کا مقصد کسی خاص وقت یا حالات کے مطابق تھا، لیکن آج یہ انسانی زندگی کو مشکل بنانے کا باعث بن رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، خواتین کو جسمانی طور پر کمزور سمجھا جاتا ہے، مگر حقیقت میں وہ ہر میدان میں مردوں کے برابر بلکہ بعض اوقات بہتر کارکردگی دکھا رہی ہیں۔ علم و سائنس نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ انسان کا ہر عمل سائنسی اور منطقی بنیادوں پر ہونا چاہیے، نہ کہ محض روایات کی پیروی۔

آج کے جدید دور میں ہمیں اپنے معاشرتی ڈھانچے کو ازسر نو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ کیا یہ روایات واقعی ہماری زندگیوں کو بہتر بنا رہی ہیں یا ہمیں بوجھ بنا کر محدود کر رہی ہیں؟ کچھ ممالک میں ایسے قوانین بنائے گئے ہیں جو لوگوں کو پرانی اور بے معنی روایات سے نجات دلاتے ہیں۔ مثلاً، جہیز کو قانوناً روکا گیا ہے، خواتین کو برابری دی جا رہی ہے، اور غیرت کے نام پر قتل کی مذمت کی جا رہی ہے۔ ہمیں بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم کس سمت میں جا رہے ہیں اور کس طرح اپنے معاشرتی ڈھانچے میں بہتری لا سکتے ہیں۔

مستقبل میں یہ بالکل ممکن ہے کہ آج کے مردوں کی طرح کل کے معاشرے میں عورتیں سماج کی رہنما بن جائیں اور مردوں کے کردار محدود ہوں، کیونکہ تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ وقت کے ساتھ سماجی رویے بدلتے ہیں اور نئے چیلنجز بھی سامنے آتے ہیں۔ اگر آج ہم سمجھتے ہیں کہ مردوں کی بالادستی ہمیشہ رہے گی، تو ممکن ہے کہ آنے والی نسلیں اس سوچ کو بھی چیلنج کریں اور ایک نیا سماجی ڈھانچہ تشکیل دیں جس میں سب کے حقوق اور فرائض برابر ہوں۔

سماجی روایات کے بدلنے کا یہ سفر دراصل انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ ہر زمانے میں انسان نے اپنی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔ جو روایات کل تک ناقابل قبول تھیں، آج وہ عام ہیں۔ اسی طرح، ہمیں بھی یہ دیکھنا ہو گا کہ انسانی حقوق، علم، اور سائنس کی روشنی میں ایک ایسا معاشرہ بنائیں جہاں ہر شخص اپنی مرضی اور پسند کے مطابق زندگی گزار سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments