ایک صوفی اور آزاد عورت کی محبت
اسوج کا مہینہ شروع ہوتے ہی گرمیاں رخصت مانگتی ہیں اور جاڑا دستک دینے لگتا ہے۔ اس مہینے میں بارش ہو جائے تو کسان بھی نہال ہو جاتا ہے، ’برسے اسوج تو ناج کی موج‘ ۔ ہلکی ہلکی خنکی بھلی لگتی ہے۔
بارش رک گئی تو راجو بازار سے واپس چل پڑا۔ سہانا موسم اور تنہائی، وہ اردگرد لگے بل بورڈز دیکھتا ہوا آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ سڑک کے دونوں طرف کھلی خود رو بھنگ کے پھولوں کی بھینی بھینی مہک شام کی ہواؤں کو مست بنا رہی تھی۔
جیب سے پکا سگریٹ نکالا، انگلیوں سے مسلا، زبان پھیر کر تھوڑا گیلا کیا اور سلگا کر کش لینے لگا۔ سرور میں دھواں منہ اور ناک سے نکالتے ہوئے وہ جھیل کے پاس پہنچ گیا۔ جھیل کے اردگرد موجود مندروں کے درمیان سے بہتا ہوا پانی جھیل میں جمع ہو رہا تھا۔ ہون کنڈ کی بارہ دری کے نیچے سے بہنے والا جھرنا شور مچا رہا تھا۔ جب سے مندروں کو نئے سرے سے سنوارا گیا تھا صدیوں پرانی عمارت کی حفاظت کے نقطہ نظر سے پانی کے اس قدرتی دھارے کا رخ بھی دوسری طرف موڑ دیا گیا تھا لیکن پہاڑیوں پر بارش زیادہ ہو نے کی صورت میں یہ اب بھی بہہ نکلتا تھا۔ یہی جھرنا تو شری کٹاس راج کے ان مندروں کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتا ہے۔ وہ بچپن میں اس جھرنے کے ساتھ ساتھ بہتے ہوئے دو منزل گہری جھیل میں کودا کرتا تھا۔ آج پھر اس کا دل بہک گیا، اس نے ادھر ادھر دیکھا کوئی بھی نہیں تھا، صرف وہ اور اس کی تنہائی: جھرنے کی جھر جھر اسے اپنی طرف بلا رہی تھی۔
وہ مندر کا دروازہ کھول کر اندر گیا اور جھرنے سے امرت کنڈ میں چھلانگ لگا دی۔ بہت دیر تک وہ گلے گلے پانی میں ڈبکیاں لگاتا رہا۔ ٹھنڈے پانی سے اس کا کلیجہ تر ہو گیا۔
آسمان اندھیرا اگلنے لگا تو وہ جھیل سے نکل آیا۔ تیزی سے بدن پونچھ کر کپڑے پہن لیے۔ جھر جھر کی آواز اسے ابھی بھی بلا رہی تھی۔ پوپی کے سرخ پھول لہرا لہرا کر دیدہ بازی کر رہے تھے۔ بھنگ اور گانجے کے سفید پھولوں کی دل لبھانے والی خوشبو مستی بکھیر رہی تھی۔ راجو کے خیالات کی رو بھی اس میں گھل مل گئی۔ تلسی ناز بو کے کاسنی پھولوں کو چھو کر وہ کچھ رومانی سا ہو گیا۔ اس مندر میں کئی لوگ اس کے مہمان کے طور پر کئی کئی دن ٹھہرتے تھے۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے لیڈیز کپڑوں کے برانڈ کے کچھ لوگ ادھر آئے تھے۔ ملک کی مشہور ماڈل دو دن اس کی مہمان رہی۔ رنگ برنگے کپڑے اور جدید میک اپ میں وہ انہی مندروں کی دیوی لگتی تھی، کوئی اپسرا یا دیو داسی۔ سارا دن شوٹنگ ہوتی اور رات بھر پورا سٹاف ہاسٹل کے کامن روم یا برآمدے میں میوزک بجا کر شور و غل مچاتا رہتا۔ ان راتوں کی رنگین اٹکھیلیاں اسے یاد آ رہی تھیں۔ شرما کر اس نے اپنے خیالات کو جھٹک دیا لیکن اس کے باوجود کئی حسینائیں اس کے دل میں آ کھڑی ہوئیں۔ دست طمع بڑھا کر انہیں چھونا چاہتا لیکن آزاد عورت سے خوف زدہ تھا۔
چونسنٹھ کلاؤں کی استاد عورت، روشن خیال، بے باک، بے نیاز عورت؛ اس سے مرد خوفزدہ رہتے ہیں۔ ایسی عورت مرد کو پاؤں کی ایڑی کے نیچے روند دے تو منہ سے چوں نہ نکلے۔ یہ خوف مرد کی گھٹی میں شامل ہے۔ اسی لیے وہ عورت کی آزادی کے خلاف ہے۔ آزاد عورت کو سامنے پا کر ماں بہن کا رشتہ گانٹھنے میں اپنی عافیت سمجھتا ہے یا اسے بیٹا بیٹا کہہ کر پکارنے لگتا ہے۔ اس ڈر سے طاقتور سے طاقتور تجربہ کار مرد بھی نو عمر کنواری لڑکی کی تلاش میں رہتا ہے یا پھر کنیزوں اور طوائفوں کی زلف سیاہ کی خانہ زادی میں سکون ڈھونڈتا ہے۔ اس کے برعکس عورت نے ہمیشہ زور آور، صاحب اختیار جوانمرد کو چنا ہے۔ اس نے شہنشاہوں کے ساتھ کج کلاہی میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
پھر راجو کی آنکھوں کے سامنے جڑی بوٹیاں اکٹھی کرنے والی اور گھاس کاٹنے والی دیہاتی لڑکیاں منڈلانے لگیں۔ لڑکیاں تو سب ہی خوبصورت ہوتی ہیں خصوصی طور پر کم سن مزدور جنہیں ابھی اپنے جسم کی سچائیوں کا علم نہیں ہوتا۔ گندے گندے کپڑوں میں بھی وہ کیسی خوبصورت دکھائی دیتی ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک اس کی دلہن بن سکتی تھی۔ مگر کیسے؟ وہ ان سے اظہار محبت کیسے کرے؟
وہ اپنی عمر کے بارے میں سوچنے لگا۔ کم از کم تیس برسوں سے عورتوں کے خواب دیکھ رہا تھا۔ کسی کو اپنی بیوی بنا لے تو اس کے خواب حقیقت بن جائیں۔ اب بھی جھرنے کی جھر جھر کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ راجو کے خیالوں کی تصویر مہکی مہکی ہوا کے ساتھ لہرا رہی تھی۔ وہ گھاس کاٹنے والی لڑکی ہو یا پوست کے ڈوڈے اکٹھا کرنے والی مٹیار۔ کوئی بھی ہو جو اس کے اکیلے پن کا مداوا بن جائے۔ اس کے گھر کا اندھیرا دور کر دے۔
رات کا اندھیرا چھا چکا تھا۔ دور سڑک پر ٹریفک رواں دواں تھی۔ پھر ایک گاڑی مرکزی گیٹ کی طرف مڑی تو اسے ہوش آیا کہ آج بھی کچھ زائرین یوتھ ہاسٹل میں رات بسر کریں گے۔ کئی لڑکیاں آج کے گروپ میں بھی موجود تھیں۔ کسی کالج کا ٹور تھا۔ کچی عمر کی لڑکیاں، چست و چالاک خادمائیں اور پکی عمر کی پروفیسرز بھی۔ پر وہ بھی لڑکیوں کی طرح ہی دکھتی تھیں۔ ایک نامعلوم سے خوف یا حسرت سے اس کا دل دھڑکنے لگا۔ اس نے چال تیز کردی۔ دو دو سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے وہ پہاڑی پر واقع یوتھ ہاسٹل میں پہنچ گیا۔ کچھ دن یوتھ ہاسٹل میں رونق رہے گی اور وہ ان کے ساتھ مصروف ہو جائے گا۔ کمروں کا بندوبست، بستر ٹھیک کروانا، کھانے کا انتظام کرنا، سب اسے بھلا لگتا تھا۔
اگلا دن لڑکیاں ایک ایک کمرے، مندر اور پہاڑیوں پر تصویریں بناتی رہیں۔ وہ انہیں مندروں کی گفتہ نہ گفتہ کہانیاں سناتا رہا۔ پانڈووں کے بنائے ہوئے ست گڑھ کے چبوترے پر لڑکیاں کھیلتی کودتی رہیں۔ وہ انہیں سمجھاتا رہا کہ ان مندروں کے سامنے کا یہ چبوترہ پوجا گاہ کا استھان ہے۔ لیکن اس عمر میں کون کسی کی سنتا ہے؟ اس کے کہنے پر خادمائیں اور پروفیسرز انہیں ڈانٹتیں تو کچھ دیر سکون ہو جاتا لیکن پھر وہی شوخیاں اور کھیل کود۔
شام کے بعد ہاسٹل کے سامنے بون فائر شروع ہو گیا۔ وہ اپنے آفس میں بیٹھا شور سن رہا تھا۔ بند کمرے کی گھٹی ہوا میں اس کا دم گھٹنے لگا تو وہ بھی ان کے پاس پہنچ گیا۔ اس متبرک جگہ پر سیوک اور پوجک ایسا ہی الاؤ جلا کر اپنے دیوتاؤں کو نذرانے پیش کر کے جشن مناتے رہے ہوں گے۔ وہ جنگل سے لکڑیاں لا کر اپنے گھر میں سنبھال کر رکھتا تھا۔ جب بھی کوئی گروپ یہ الاؤ بناتا تو وہ اس کو بھڑکانے میں مدد گار ہوتا۔
جہاں لڑکیاں اور عورتیں ہوں وہاں ناچ گانا اور اچھل کود نہ ہو، یہ تو ناممکن ہے۔
ہوتے ہوتے پروفیسرز اور دوسرے ملازم بھی اس ہلے گلے میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے لگے۔ لڑکیوں نے اسے بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ وہ خود کو ہیرو سمجھ رہا تھا۔ ایک پروفیسر تھی یا کوئی اسسٹنٹ وہ تو اس کے برابر ڈانس کر رہی تھی۔ وہ حیران تھا اور خوش بھی۔ کیا خوبصورت سماں تھا۔ انہیں مندروں میں اس کی ساری زندگی گزری تھی لیکن آج کی رات سب سے انوکھی تھی۔ اپسرائیں، موسیقی اور ناچ گانا۔
تھک کر بیٹھ جاتا تو سب سے سینئر پروفیسر سمرہ بتول اس کو حوصلہ دیتی کہ جاؤ! تم کیوں بیٹھ گئے ہو؟
اس نے آہستہ آہستہ پروفیسر سمرہ کو اپنی کہانی سنانی شروع کر دی۔ اس کے ساتھ ڈانس کرنے والی بھی پاس آ کر بیٹھ گئی۔ مسرت نام تھا اس کا۔ جسم کا ہر حصہ مضبوط اور سڈول، چہرے پر ایک خاص کشش تھی۔ وہ اپنے خیالات میں ایسی ہی مسرت ڈھونڈ رہا تھا۔ پھر مسرت نے دور پہاڑی کے اوپر ست گڑھ میں جانے کی خواہش ظاہر کی۔ رات کو ان مندروں میں جانے کی ممانعت تھی۔ ساون بھادوں کے بعد ساری پہاڑیاں جنگلی بوٹیوں اور اونچی اونچی دب سے بھری ہوئی تھیں۔ بارش کی وجہ سے سانپ اور بچھو کا خطرہ بھی تھا۔ لیکن پھر بھی اس نے حامی بھر لی۔
آج بھی اسوج کے ہلکے بادل پھوار بن کر ہواؤں میں تیر رہے تھے۔ زمین سانس بند کر کے اس پھوار سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ آسمان اندھیرے میں چھپ گیا، ہرے بھرے پیڑوں کا پہچاننا مشکل ہو گیا تھا۔ جاڑا اس کی ہڈیوں کے اندر سرایت کر رہا تھا۔ جسم کانپنے لگا، دانت بجنے لگے۔ مسرت اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ دو پروفیسرز بھی ساتھ تھیں لیکن اتنی چڑھائی میں ان سے کچھ پیچھے رہ گئیں۔ مسرت اسے دوستی، ہمدردی اور محبت کے ملے جلے انداز میں دیکھ رہی تھی۔ راجو اس سے باتیں کرنا چاہتا تھا لیکن دل کی گبھراہٹ کی وجہ سے اس کے منہ سے کچھ نہیں نکل رہا تھا۔
چند منٹ یوں ہی گزر گئے۔ راجو نے محسوس کیا اس کا خاموش انداز یقیناً کسی عورت کے اعتبار کے قابل ہے۔ یہ سوچ کر راجو کو بات کرنے کی ہمت ہوئی۔ تم ادھر کیوں آنا چاہتی تھی؟ ”بہت سال پہلے میں اپنے خاوند کے ساتھ ادھر آئی تھی۔ ایسی ہی اندھیری رات تھی۔ اس وقت ان مندروں کے کھنڈرات میں خوف ہی خوف تھا اور وہ مجھے ڈراتا جا رہا تھا۔ پھر؟ آج وہ میرے ساتھ نہیں لیکن اسے بتانا چاہتی ہوں، میں اتنی بہادر ہو گئی ہوں کہ یہاں اکیلی گھوم سکتی ہوں۔ تم بھی جا سکتے ہو۔ مجھے اس وہار میں کچھ دیر بیٹھنا ہے۔ اتنے اندھیرے میں؟ میرے پاس فون ہے اگر ضرورت پڑی تو لائٹ روشن کر لوں گی۔ تم جاؤ اور ان پروفیسرز کو ادھر آنے سے روکو۔ میں کچھ دیر تنہائی میں اپنی مرحوم خاوند کو یاد کرنا چاہتی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ ایک چیتیا کے اندر گھس گئی۔ چیتیا کی الٹی ناؤ جیسی چھت اتنی نیچی تھی کہ اس کے سر کے ساتھ ٹکرا رہی تھی۔ وہ آلتی پالتی مار کر اس میں بیٹھ گئی۔
راجو واپس چل پڑا لیکن اس کا دل وہیں رہ گیا۔
پروفیسرز چڑھائی دیکھ کر حوصلہ ہار بیٹھی تھیں اور واپسی کی راہ لی تھی۔ مسرت کے بارے میں پوچھا تو اس نے جھوٹ بول دیا کہ مندر کے اندر کوئی خطرہ نہیں۔ وہ کچھ دیر ادھر بیٹھنا چاہتی تھی۔ مسرت کی بیوگی کا پتا چلا تو دل میں امید کی کرن پھوٹ پڑی۔ وہ پروفیسر سمرہ سے اس کے بارے میں پوچھنے لگا۔ دو بچے ہیں، اس کے۔ تو پھر کیا ہے؟ سمرہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
راجو اپنی جاب اور انکم کے بارے میں بتا نے لگا تو اسے گھورنے لگی۔ آج وہ ہر بات کہہ دینا چاہتا تھا۔ شور و غل کم ہو چکا تھا۔ لڑکیاں ادھر ادھر بکھر گئیں۔ سب سے آنکھ بچا کر وہ نکل آیا اور مسرت کی طرف چل پڑا۔
جھرنے کی جھر جھر اسے بلا رہی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے تمام مندروں پر اس کے تن بدن کی سردی کا کہرا چھا گیا تھا۔ پام کے باریک پتوں سے بھری ٹہنیاں جیون کی دھارا سے نہائی ہوئی تھیں۔ مندروں کے کلس کے اوپر اس کا دل دھڑکتا نظر آ رہا تھا۔ رہ رہ کر مسرت کا ڈانس یاد آ رہا تھا۔ آج کی رات اگر اس جگہ پر کام دیوتا بھی ہوتا تو مسرت کی حرکتیں، مسکراہٹ، کپکپی اور تھرتھراہٹ کے بھاؤ میں اپنی پریتما رتی کو بھول جاتا۔ مسرت راستے میں ہی مل گئی۔ لڑکیاں اپنے کمروں میں جا چکی تھیں۔ پروفیسرز اور وہ اس جگہ پر بیٹھ کر چائے پینے لگے۔ وہیں راجو نے اپنی خواہش کا اظہار کر دیا۔ سب مسکرانے لگے اور مسرت کھل کھلا کر ہنس پڑی۔
***
ساری رات جاگ کر گزاری۔ مسرت کی حرکتوں نے اسے حوصلہ دیا تھا۔ اس کی بیوگی کا سن کر وہ پر امید تھا۔ زندگی میں پہلی بار اس نے اتنی جرات کا مظاہرہ کیا تھا۔ ادھیڑ عمری کا بجھا بجھا چراغ تمناؤں کا روغن پا کر ضو فشاں ہونے لگا۔ وہ دھیان ہی دھیان میں کامنا سے بوجھل سپنوں کے سہارے سوچ رہا تھا کہ مسرت اس کے پاس ہی ہے۔ سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی وہ مندروں کی طرف روانہ ہو گیا۔ کس سے دعا کرتا؟ سڑک کے اس پار موجود مسجد اسے پکار رہی تھی، ”آؤ! ادھر، فلاح پاؤ!“ ۔
شری رام چندر کے مندر کا گنبد چڑھتے سورج کی سرخ روشنی سے نہایا ہوا تھا۔
قدیم نقش و نگار سے آراستہ نئے مرمت شدہ اندرونی کمرے میں بھگوان ہنومان کی مورتی بھی موجود تھی۔ بھگوان شنکر کا ظہور اس طاس کے پاس ہوا تھا۔
اسی کے کنارے پر دیوتا کرشنا نے ایک شیولنگ بنایا جو دھرتی پر سب سے پہلا شیو لنگ تھا۔ اشوکا نے یہاں بدھا کا بہت بڑا سٹوپا بنایا۔ بدھ بھکشو صدیوں اس دوار پر سر جھکاتے رہے۔ گرو نانک جی نے بیساکھی کے مہینے کے پہلے دن یہاں ایک خدا کی عبادت کرنے کی فضیلت پر خطبہ دیا۔ دیوی دیوتاؤں کی اس دھرتی میں وہ کس در پر بھیک مانگے کہ اس کی مراد پوری ہو جائے؟
سورج طلوع ہوا تو کچھ خواتین ہاسٹل سے نکلتی نظر آئیں۔ وہ بھی ان میں شامل تھی۔ بھاگ کر ان کے پاس پہنچا اور بتانے لگا کہ اس وقت ایک پنڈت شیو لنگ کی پوجا کرتا ہے، آئیں! آپ کو ہندووں کی پرارتھنا کے ڈھنگ دکھائیں۔ وہ کوشش کر رہا تھا کہ مسرت کے سنگ سنگ چلے۔ وہ اس سے سوالات پوچھ کر مسکرا رہی تھی۔ سب خاموشی سے پنڈت کے پیچھے بیٹھ گئے۔ پوجا پوری ہوئی تو پنڈت نے کچھ پھل اٹھا کر پوجا پتر میں رکھ کر ان کے سامنے کر دیے۔ بولا، یہ مندر کا چڑھاوہ ہے اور نہ ہی کسی بت کو بھینٹ کیا گیا۔ یہ سب حلال ہے آپ اس سے کچھ لے کر کھا سکتے ہیں۔ راجو نے پھل اٹھا کر کھا لیا اور انہیں بھی دعوت دی۔ سب نے کچھ نہ کچھ لے لیا۔ پوجا پتر میں سیندور بھی تھا۔ راجو بولا، آپ یہ بھی لے سکتے ہیں۔ سیندور سہاگنوں کا زیور ہے۔ آپ اپنی مانگ میں سجا لیں۔ پھر چٹکی بھر سیندور مسرت کی طرف کیا۔ وہ ہنستے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ راجو اس کی کنول سی آنکھوں میں ڈوب گیا پھر اس سیندور سے اپنے ماتھے پر تین لکیریں کھینچ دیں۔ سب خواتین خوش ہو گئیں۔ مسرت کھل اٹھی جیسے اس کے اندام کی کوریں مسکرا رہی ہوں۔
ناشتے کی ٹیبل پر اس نے سب کی بہت خدمت کی۔ واپسی کی تیاری تھی۔ وہ پروفیسر سمرہ بتول کے پاس بیٹھ کر اپنا مدعا بیان کرنے لگا۔ سمرہ نے مسرت کی طرف دیکھا تو وہ بھی گفتگو میں شامل ہو گئی۔ راجو کہنے لگا دھن بھاگ ہیں اس کے جس سنگ وہ کچھ دیر خاموش رہا جیسے کچھ الفاظ ڈھونڈ رہا ہو پھر بولا،
جس سنگ مسرت جیسی دیوی چلے، جسے لکشمی ملے۔ اتنا واضح پیغام یہ میرا فون نمبر ہے، آپ کی کال کا انتظار رہے گا۔ راجو نے اپنا وزٹنگ کارڈ پروفیسر سمرہ بتول کو پکڑا دیا۔
***
”کیا تم اس معاملہ میں سنجیدہ ہو؟“ پروفیسر سمرہ بتول نے بس میں بیٹھتے ہی مسرت سے پوچھا۔ نہیں۔ کیا اس سے دل لگی کر رہی تھیں؟ میں ایک بھلے گھر کی بہو ہوں اور دو بچوں کی ماں۔ اب یہ دل کسی طرح بھی نہیں بہکے گا۔ راجو سامنے سڑک پر کھڑا اس کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلا رہا تھا۔ پھر اسے ڈانٹ کیوں نہیں دیا؟
مسرت نے ہاتھ ہلا کر راجو کو خدا حافظ کہا اور اسی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی،
راجو! ان اجڑے مندروں کا رہائشی، دیو مالائی کہانیوں کا ایک کردار ہے۔ اپنے من کی کامنا کا پجاری ہے۔ اس کی محبت سچی ہے لیکن سب کچھ تصوراتی ہے۔ اس کی لکشمی بھی، مسرت بھی اور آپ بھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ نمانا اپنے مسکین خیالات میں میرا نہیں کسی اپسرا یا دیوی کا پجاری ہے۔ میں تو وجود معنوی ہوں۔ آپ نے دیکھا نہیں اس نے سیندور اپنے ماتھے پر ہی لگا لیا تھا۔ یہ مندر تو اجڑ گئے، میں اسے ٹوک کر اس کے من کا مندر کیوں مسمار کرتی؟
بس چل پڑی تھی وہ آنکھوں سے اوجھل ہوا تو مسرت پروفیسر سمرہ کی طرف دیکھنے لگی، وزٹنگ کارڈ مجھے دے دیں۔ فون کرو گی؟ نہیں کارڈ سنبھال کر رکھوں گی۔
- خصم؛ سرہانے کا سانپ - 28/11/2024
- ایک صوفی اور آزاد عورت کی محبت - 04/11/2024
- بچوں کی پرورش میں والدین کا منفی کردار - 01/11/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).