یہ ڈی اینڈ سی کس بلا کا نام ہے؟


عام سا لفظ۔ مخفف۔ اور عرف عام میں معنی بچے دانی کھول کر صفائی کرنا ہے۔
بچے دانی کی صفائی کیوں ہوتی ہے؟ کیوں کرنی چاہیے اور اس کا درست طریقہ کار کیا ہے؟ اکیسویں صدی میں اگر آپ کو یہ سب کچھ نہ پتہ چلے تو سمجھ لیجیے کہ آپ انیس سو ڈیڑھ میں رہ رہے ہیں۔

ڈی اینڈ سی انگریزی کے دو الفاظ کا مخفف ہے Dilatation and curettage۔
Dilatation سے مراد بچے دانی کے منہ کو کھولنا ہے اور curettage کے معنی کھرچنا ہیں۔

بچے دانی کا منہ سروکس cervix کہلاتا ہے اور اسے اوزار ڈال کر کھولا جاتا ہے۔ ان اوزاروں کو Hegar Dilators کہتے ہیں اور سٹیل کے بنے ہوئے یہ اوزار مختلف سائز میں ملتے ہیں۔ عموماً ایک سے لے کر آٹھ نمبر تک کا اوزار استعمال ہوتا ہے۔ ان اوزاروں کو سروکس میں باری باری ڈال کر گھمایا جاتا ہے تاکہ سروکس کھل جائے۔

جب سروکس آٹھ نمبر تک کھل جاتا ہے تب چمچ نما اوزار کی مدد سے بچے دانی کو اندر سے کھرچا جاتا ہے تاکہ بچہ یا بچے کی باقیات باہر نکل آئیں جو بچے دانی کی دیواروں سے چپکی ہوتی ہیں۔

ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب بہت زیادہ بلیڈنگ ہو جائے تب سروکس آپ ہی آپ کھل جاتا ہے تب dilators کی ضرورت نہیں ہوتی صرف کھرچنے والے اوزاروں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس عمل کا نام مختلف ہے اور اسے عرف عام میں ERPC کہتے ہیں۔

(Evacuation of Retained products of conception )

اب یہ کھرچنے کی داستان بھی سن لیں۔ بچے دانی ویسی ہی گوشت پوست کی بنی ہے جیسے جسم کا کوئی بھی اور عضو۔ معدہ، دل، انتڑیاں۔ سو سٹیل کے اوزار سے بچے دانی کو کھرچنے میں مہارت کی ضرورت ہوتی ہے کہ کتنی طاقت استعمال کی جائے؟ ہاتھ کتنی سختی سے یہ کام کرے؟ اور اوزار کتنا اندر جائے اور کتنا باہر؟ اور ظاہر ہے کہ اس سب کے لئے ٹریننگ کی ضرورت ہے۔

بدقسمتی سے ملک عزیز میں اس کام کو معمولی سمجھتے ہوئے ہر نرس، دائی یا کوئی اور اس کام میں ہاتھ ڈال دیتی ہے۔ کبھی تکے سے کام چل جاتا ہے اور کبھی مریض کسی بڑے ہسپتال میں اس حالت میں پہنچتی ہے کہ انتڑیاں ویجائنا سے باہر لٹک رہی ہوتی ہیں۔ آپ حیران ہو کر پوچھیں گے وہ کیسے؟

کھرچنے والی مائیاں دائیاں بچے دانی یوں کھرچتی ہیں جیسے برتن مانجھ رہی ہوں اور جتنا زور لگائیں گی، برتن اتنا ہی چمکے گا۔ وہ بھول جاتی ہیں کہ یہ ان کے باورچی خانے کا برتن نہیں بچے دانی ہے۔ گوشت پوست کی ہے، انتہائی نرم و نازک۔ کیسے برداشت کرے گی اتنی محبت؟

سو دیگچہ عرف بچے دانی رگڑنے کی کوشش میں ناتجربہ کار دائی مائی کا چمچ نما اوزار بچے دانی میں سوراخ کرتا ہوا انتڑیوں تک پہنچ جاتا ہے۔ اب وہ نادان انتڑیوں کے ٹکڑے باہر نکالتے ہوئے سمجھتی ہیں کہ بچے دانی میں بہت زیادہ ”گند“ بھرا ہے جو نکلتا ہی آ رہا ہے۔ بہت زیادہ صفائی کرتے کرتے وہ آدھی سے زیادہ انتڑیاں کھرچ کر باہر نکال دیتی ہیں۔ جب باقی ماندہ انتڑیاں ویجائنا کے راستے باہر لٹکنا شروع ہوتی ہیں تب وہ ہاتھ جھاڑ کر کھڑے ہوتے ہوئے کہتی ہیں اسے بڑے ہسپتال لے جاؤ۔

اور بڑے ہسپتال میں ہم جیسے ڈاکٹر سر پیٹتے، آہیں بھرتے اس عورت کے باقی ماندہ اعضا کی سلائی شروع کر دیتے ہیں۔ رشتے داروں کو تب بھی یقین نہیں آتا کہ سب کیا دھرا ان کی اپنی دائی کا ہے۔ لیں جی وہ اتنی تجربے کار ہے، منٹوں میں بچہ پیدا کروا دیتی ہے۔ ان ڈاکٹرنیوں کا تو کام ہے ڈرانا۔ انگریزی سائنس پڑھ پڑھ کے۔

آپ سوچیں گے کہ سائنس نے اتنی ترقی کر لی پھر بھی ہم ابھی تک قدیم ڈی اینڈ سی کے طریقے پہ کیوں اکتفا کیے بیٹھے ہیں؟

سن لیجیے کہ ڈی اینڈ سی حمل کے لیے متروک ہو چکا۔ اب حاملہ عورت سے حمل کی باقیات نکالنے کا نام ہے ”سکشن اویکیوشن“ suction evacuation۔ اس طریقے کے مطابق ڈی اینڈ سی حاملہ عورتوں میں کرنی ہی نہیں چاہیے کیونکہ حمل میں بچے دانی بچے کو پالنے کے لیے بہت نرم ہو جاتی ہے اور سٹیل کے بنے اوزاروں کا استعمال محفوظ نہیں ہوتا۔

سکشن ایوکیشن میں پلاسٹک سے بنا ہوا ایک سکشن اوزار بچے دانی میں داخل کیا جاتا ہے جو سکشن مشین سے منسلک ہوتا ہے۔ سکشن کینولا نمبر آٹھ یا دس، مشین کے پریشر کی وجہ سے بچے کی باقیات باہر کھینچ لیتا ہے۔

ڈی اینڈ سی اب ان عورتوں میں کی جاتی ہے جن میں شک ہو کہ بچے دانی میں کینسر پل رہا ہے یا کینسر ہونے والا ہے۔ چالیس کی عمر کے بعد اگر ماہواری زیادہ آنے لگے تو ڈی اینڈ سی کروانا لازمی ہے اور بچے دانی سے نکلا مواد لیبارٹری تک بھی ضرور پہنچنا چاہیے۔

گائنی فیمنزم کی مدد سے اپنے جسم کی حفاظت کیجیے بالکل اس طرح جیسے آپ کپڑے اور جوتے لینے کے لیے دسیوں دکانیں پھرتی ہیں اور پھر کچھ پسند کرتی ہیں۔ جسم کے لیے بھی اتنی ہی تحقیق کریں، سیکھیں اور پھر فیصلہ کریں کہ کیا؟ کیوں؟ اور کیسے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments