ثقافت کے ذریعے استحصال
استحصالی نظام کی قباحتوں میں سب سے مہلک سوچنے کی صلاحیت کو جنس، رقص، گائیکی اور نشے کے ذریعے دبانا شامل ہے۔ جس کے تحت ایسے ثقافتی پروگرام تشکیل دیے جاتے ہیں۔ جن کا بنیادی مقصد لوگوں خصوصاً نوجوانوں کو تفریح کے نام پر استحصال کے محرکات کو جاننے سے محروم کرنا ہوتا ہے۔ استحصالی نظام کے ایجنڈے میں نوجوانوں کو خاص تفریحی سرگرمیوں کے ذریعے مصروف رکھا جاتا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور اشرافیہ کی حکومت سپانسر شپ کے لیے صرف مخصوص اچھل کود کے پروگراموں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ نوجوان آہستہ آہستہ فکری و عملی طور پر معطل ہو جاتے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایسا فن و ثقافت کے نام پر ہوتا ہے۔ جن نوجوانوں کو استحصالی نظام کے خلاف محاذ پر کھڑے ہونا تھا وہ ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ فن و ثقافت کے خلاف بات کی جا رہی ہے۔ بتانا مقصود ہے کہ سرمایہ دارانہ ذہن نہایت عمدہ منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ کلچر فیسٹیولز کا انعقاد اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ کسی کلچر ایکٹیوٹی سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ان فیسٹیولز میں متنازعہ موضوعات پر گفتگو اور ذہن سازی ہوتی ہے۔ خاص طور پر مذہبی طبقے کو سامنے رکھ کر مذہب پر تنقید کی جاتی ہے۔ یوں کلچر کو مذہب کی بیخ کنی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ البتہ نظام کے استحصال پر بات نہیں کی جاتی ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارا دانشور جز وقتی مفاد کے لیے سمجھوتہ کر چکا ہے۔
ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اکثر دانشور مذہب کے خلاف استحصالی فکر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ دانشور مذہبی طبقے کو سرمایہ داروں کے نزدیک سمجھتے ہیں اور اس محاذ پر سرمایہ داروں کا ساتھ دیتے ہیں۔ جب کہ اگلا محاذ صاف طور پر سرمایہ داروں اور مذہبی حلقوں کے مابین دکھائی دیتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں سرمائے کو انسان پر فوقیت حاصل ہے۔ جس کے نتیجے میں انسان اخلاقیات سے عاری ہو گیا ہے۔ رشتے، تعلق اور رابطے میں مادیت جلوہ گر ہے۔ یعنی تعلقات کی نوعیت اخلاص، ہمدردی اور خیر کے بجائے دو طرفہ لین دین کی مرہون منت ہے۔ اخلاقیات اور سرمائے کے مابین ازل سے ہی جنگ جاری ہے۔ وہ معاشرہ کسی صورت اطمینان حاصل نہیں کر سکتا ہے جہاں انسان بے وقعت ہوتا ہے اور سرمائے کی بنا پر توقیر ہوتی ہے۔ اس صورت حال میں ہمارا ادیب کہاں کھڑا ہے؟ ادبا کی اکثریت قلمی محاذ پر انسان اور عملی محاذ پر سرمائے کے ساتھ کھڑی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ اس کی وجہ سطحی مفادات ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام سے وابستہ ہیں۔
دنیا کے چار بڑے کاروبار استحصالی نظام کے گھناؤنے مقاصد کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اسلحہ، منشیات، جوا اور جنس کی وجہ سے دنیا جہنم بنی ہوئی ہے۔ اسلحہ ساز ادارے ملکوں کے درمیان جنگیں کرواتے ہیں۔ اربوں ڈالر کے اسلحے کی خریداری کے بعد جب مذاکرات کی میز پر بیٹھتے ہیں تو اس سے پہلے تاریخ کے صفحات پر جا بجا خون کے چھینٹے رقم ہو جاتے ہیں۔ دہائیوں ختم نہ ہونے والی المناک داستانیں بیان ہوتی رہتی ہیں۔ وار انڈسٹری نے دنیا میں انسانیت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ جنگ در اصل وسائل پر قبضے کے ساتھ ساتھ دوسرے ملک کے کلچر پر فتح پانے کی خواہش قرار دی جا سکتی ہے۔ ایک ہی کلچر رکھنے والے ممالک میں جنگ کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
دنیا کے کئی حکمران، حکومتیں اور ادارے منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہیں۔ بہت سے ممالک میں منشیات کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ حالیہ کووڈ کی وجہ سے ان ممالک میں اموات کی شرح میں اضافہ منشیات کے استعمال کو گردانا گیا ہے۔ دنیا بھر میں منشیات کی وجہ سے زندہ درگور انسان کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں اور ہمارے ادیب کو دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ ثقافتی سطح پر مختلف ممالک میں منشیات ممنوع نہیں ہیں۔ جس کا بھر پور فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔
جوا کھیلنے کے مراکز میں ہمہ وقت ہار جیت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بعض ممالک میں معیشت کے بڑے حصے کا دار و مدار جوے پر عائد ٹیکسوں کی وصولی پر ہے۔ اسے قانونی حیثیت حاصل ہے اور جہاں قانونی حیثیت نہیں ہے وہاں بھی یہ دھندا عروج پر ہے۔
جنس کے کاروبار سے کروڑوں لوگوں وابستہ ہیں۔ قانونی، غیر قانونی دونوں حیثیتوں سے دنیا بھر میں یہ کام انجام پا رہا ہے۔ انسانی سمگلنگ بھی ہوتی ہے اور اس سے وابستہ تکلیف دہ واقعات بھی سامنے آتے ہیں۔ ثقافتی اعتبار سے مختلف ممالک میں جنسی آزادی کو تسلیم کیا گیا ہے اور اسے ثقافت کا درجہ حاصل ہے۔
استحصالی نظام کی کوئی اخلاقیات نہیں ہیں۔ اس کے سینے میں دل نہیں دھڑکتا ہے۔ اس وجہ سے دنیا بھر میں مسائل دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں یہی نظام رائج ہے اور اس کے اثرات دنیا کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ ادیب کسی نظام کو بدلنے کی قوت نہیں رکھتا ہے مگر وہ اپنی تخلیقات میں نظام کے خلاف آواز بلند کر سکتا ہے۔ جب وہ استحصالی نظام کا حصہ بن جاتا ہے تو اس پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔
- کچھ جنوں کے بارے میں - 21/11/2024
- ثقافت کے ذریعے استحصال - 09/11/2024
- ڈاکٹر کبیر اطہر کا تصور مسیحائی - 27/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).