پلوشہ کا سوال انجینئر محمد علی مرزا کی نظر میں


پلوشہ کا اہم ترین سوال جس کا ڈاکٹر نائیک نے خوب ٹھٹھا اڑایا، اس کی تذلیل کی گئی اور اس سے بھرے مجمع میں معافی منگوائی گئی، بھئی اوریجنل سوال تو ننگے ہی ہوتے ہیں، ان پر خوا مخواہ کا تہذیبی لبادہ اوڑھانے سے اس کی حدت یا اوریجنیلٹی مسخ ہو جاتی ہے۔ اس سوال کے حقیقی فہم و بیک گراؤنڈ کو انجینئر مرزا نے خوب سمجھا اور پلوشہ سے آن کیمرہ معافی مانگی اور انتہائی احترام سے ان کے سوال کا جواب دیا۔

آ گے بڑھنے سے پہلے پلوشہ کے سوال کی انجینئرنگ کر لینی چاہیے کہ آ خر اس سوال میں ایسا کیا تھا جس کا جواب دینے کی بجائے ڈاکٹر نائیک سیخ پا ہو گئے اور بچی کے سوال کو ہی غلط قرار دے ڈالا۔

سوال۔
1۔ ہمارا معاشرہ مذہبی ہے، خواتین پردہ کرتی ہیں اور بلا ضرورت گھر سے باہر نہیں نکلتیں۔
2۔ مرد نمازوں کی پابندی کرتے ہیں، شب جمعہ اور تبلیغی اجتماع میں باقاعدگی سے جاتے ہیں۔
3۔ مجموعی رویے عین مذہبی ہیں اور وضع قطع بھی شریعت کے عین مطابق ہے۔

اس سارے بندوبست کے باوجود ہمارے سماج میں زنا کاریاں، بچہ بازیاں اور نشہ آور اشیاء کا استعمال بھی زوروں پر ہے۔

ایسا کیوں ہے، آپ اپنے فہم و فراست کی روشنی میں بتائیں کہ اس قدر تضاد کیوں ہے۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ ایک حساس مذہبی انسان جو اپنے سامنے مذہب کے سائے میں یہ سب ظلم و ستم دیکھ رہا ہے اور اس کا شکار بھی ہے، وہ اس قسم کا سوال کس سے پوچھے گا؟ کیا ایک خالص مذہبی سوال کسی دنیا دار یا لا مذہب سے پوچھنا چاہیے؟ ممکن ہے بچی کے ذہن میں کہیں یہ امکان موجود ہو کہ اس سوال کا جواب ڈاکٹر نائیک ہی دے سکتے ہیں، کیونکہ وہ ایک بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں اور ساتھ میں بصیرت بھی رکھتے ہوں گے۔ لیکن پلوشہ کو ناکام لوٹنا پڑا۔

ہماری باشعور نسل نے ڈاکٹر نائیک کو پاکستان کی سرزمین پر خاصا پریشان کیے رکھا، ان کی مجمع بازی کا بھرم جس کا انڈیا میں کبھی خاصا طنطنہ تھا ننگا کر کے رکھ دیا۔

انجینئر مرزا کا حوصلہ اور ظرف ہے کہ جنہوں نے اس سوال میں چھپے ہوئے رازوں سے پردہ اٹھایا اور واضح کیا کہ مدارس میں بڑے پیمانے پر چھوٹے بچوں کا جنسی استحصال ہوتا ہے، لباس مذہب میں بڑے بڑے بدفعلیاں کرتے ہیں جس کا ثبوت سوشل میڈیا ہے جس پر آئے روز بدفعلی کی خبریں نشر ہوتی رہتی ہیں۔

ان کے مطابق روزانہ 12 بچوں کے ساتھ زیادتی رپورٹ ہوتی ہے۔
2023 میں تقریباً 4000 کیس رپورٹ ہوئے۔
2024 کے پہلے 6 ماہ کے دوران تقریباً 1600 کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔

اب یہ تو رجسٹرڈ کیسز ہیں جو رپورٹ نہیں ہوتے ان کی تعداد تو اس سے کہیں زیادہ ہے، اسی الارمنگ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے پلوشہ نے سوال پوچھا تھا لیکن اس قسم کا تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ خدا نخواستہ مولویوں کی آڑ میں اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا مذہب صرف مولوی کے گرد گھومتا ہے؟ یا مذہب کی اپنی بھی کوئی مضبوط بنیاد ہے؟

جس سوال کا جواب ڈاکٹر نائیک نے نہیں دیا اس کا جواب محمد علی مرزا نے حافظ ابن کثیر کی نظر سے دیا ہے جو خاصا چشم کشا ہے اور آج کے مذہبی منظر نامے کی خوب عکاسی کرتا ہے۔

ابن تیمیہ کے شاگرد رشید حافظ ابن کثیر آج سے سات سو پہلے کی مذہبی روئیداد لکھتے ہیں۔ ”ہمارے زمانے میں بھی یہ حال ہے کہ کوئی بادشاہ، امیر شخص، تاجر اور فقیہ ایسا نہیں ہے جو بچوں کے ساتھ بدفعلی ایسے قبیح گناہ میں ملوث نہ ہو سوائے ان کے جنہیں اللّٰہ تعالیٰ بچا لیں۔ اپنے بچوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھیں“

آج کیمرے کا دور ہے، سات سو سال پہلے تو کوئی کیمرا بھی نہیں تھا، اس وقت یہ حالات تھے تو آج کے حالات بھی ہمارے سامنے ہیں۔ کیمرے نے بڑے بڑوں کے تقوی و طہارت کو بے نقاب کیا ہے۔

آخر میں انجینئر مرزا نے دو سوالات کا حوالہ دیا ہے جو انتہائی مشکل اور علماء کے گلے کا کانٹا بنے رہیں گے۔ پہلا سوال تو پلوشہ خان والا ہے اور دوسرا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟

انجینئر جی! ان دو سوالات سے بڑھ کر بھی ایک چیلنجنگ سوال ہے جس کا جواب بھی انتہائی مشکل ہے اور روایتی فکر کے پاس اس کا بھی کوئی حتمی جواب نہیں ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ لوگ دھڑا دھڑ مذہب بیزار کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟

گوگل پر سرچ کر لیں یہ تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ روایتی فکر وقت سے بہت پیچھے رہ گئی ہے اور زمانے کی رفتار بہت آ گے نکل جانے کی وجہ سے مذہب غیر متعلقہ ہونے لگا ہے؟

مندر، گرجوں اور سینا گوگ کی ویرانی کی طرح ہماری عبادت گاہیں بھی ویران ہونے لگی ہیں، سوائے عیدین، رمضان المبارک یا ربیع الاول کے 12 دنوں کے علاوہ عبادت گزاروں کی تعداد نا ہونے کے برابر ہوتی ہے کیوں؟

اس سے بھی کڑوا سچ یہ ہے کہ لوگ جاوید احمد غامدی یا انجینئر محمد علی مرزا کو بھی ایک ذہنی عیاشی کے طور پر سنتے ہیں یا کھلے لفظوں میں کہیں تو چسکا لینے کے لیے سنتے ہیں۔ بہرحال مذہب کو خاصے چیلنجز درپیش ہیں جن کا جواب بہرحال مذہبی فکر کو ہی دینے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments