کُھل کر کھیل۔ کرکٹ ماڈل
سب سے پہلے مجھے گوگل نے مبارکباد دی۔ آتش بازی یہ سطور لکھنے تک بدستور جاری ہے۔ ( پاکستان کرکٹ سرچ کریں۔ ) حیرت مجھے بھی ہوئی لیکن پھر اسی نے بتایا بائیس سال بعد یہ خاص موقع آیا ہے۔ لیکن ابھی ٹیکنیکل تفصیلات میں جانے کا وقت نہیں ہے۔ بس یہ سمجھیں کہ ایک آدھ تمغہ، ٹرافی پر تو حق بنتا ہے ہمارا بھی۔ لیکن یہاں ہم عام فین کے طور پر اس میچ اور جیت کا جائزہ نہیں لے رہے۔ بلکہ دیے گئے حالات میں ہم کرکٹ سے کچھ ایسے سبق اخذ کرنا چاہتے ہیں جن سے ہمیں تاریخ کے اس نازک موڑ پر اپنے لوگوں کی بہتری، ملک کے امن اور قوم کی تنظیم کے لیے مدد مل سکے۔ یہاں ہم کرکٹ بورڈ، سپر لیگ وغیرہ میں کچھ وسیع تر مفاہیم اور عمیق دانش کی تلاش میں ہیں۔
یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے پاس تاریخی اسباق، مفاہیم اور دانش وغیرہ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ نہ ہی لیگ کے ترانے کی شاعری ایسی منفرد ہے جس میں عوام کے غمزدہ دلوں کو ہمت اور حوصلہ سے سرشار رکھنے کی کوئی خاص صلاحیت ہو۔ یہاں ایک سے ایک ایسے ملی نغمے موجود ہیں جن کو سن کر لگے گا کہ شاید ہم کسی بھی لمحے چاند کی سطح پر انسانیت کا پہلا قدم رکھنے جا رہے ہیں یا شاید ابھی وہاں سے واپس ہوئے ہیں۔ لیکن سلیکشن کی اڑتی خبروں سے لے کر بورڈ پر تمام پوزیشنوں سے آخری میچ کے آخری اوور تک کوئی تو ایسی شے ہے جو قوم کو چند ہفتوں تک یوں ایک کاز پر متحد رکھنے کی اہل ہے۔
اور یہ نہیں کہ کسی نے ورلڈ کپ کے بعد کوشش نہیں کی۔ ٹاک شوز نے دن رات ایک کر دیے۔ عالمی اہمیت کے مسئلے بیان کیے، فلسطین کشمیر، ہمسائے میں ہوتی جنگیں۔ احتجاجی بیانئے، نئے انقلابات کے قصے، مہنگائی کے طوفان، سیلاب، افراط زر، بجلی پانی اور گیس کی قلت کی خبریں، اداروں کی بے حرمتی، عوامی سکینڈل، اقلیتوں پر تشدد، بم دھماکوں کی رپورٹیں۔ کہیں اس قوم میں ساتھ کھڑے ہونے کی ترنگ پیدا نہیں ہوئی سوائے کرکٹ لیگ کے۔ سوائے کرکٹ اور نون لیگ کے۔ بس یہی دو اکسیر ہیں جو اس قوم میں آج تک اتفاق کی فاونڈیشن ثابت ہوئے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ کھلاڑی اور سیاست دان میں فرق ہوتا ہے۔ تیسری دنیا کے بیشتر سیاست دانوں کی عمر کا بڑا حصہ اقتدار کی غلام گردشوں میں گزرتا ہے۔ قسمت انہیں میدان میں کھیلنے کا موقع دے بھی دے تو اکثر لوگ سیاسی نعرہ بازیوں یا جلسوں میں خطابت کے پھول کھلانے سے آگے، مدلل مکالموں یا منظم مناظروں پر کم ہی مائل ہوتے ہیں۔ بیشتر کی زندگیاں، طویل بھی ہوں تو اپنے ہی مفادات کی خاطر مفاہمت کے پیرائے تراشنے میں گزر جاتی ہیں۔ اس کے برعکس کھلاڑی تیسری دنیا میں بھی ہو تو بیشتر وقت کھلے میدان میں اپنا ہنر سنوارتا ہے۔
کھلاڑی کا خود پر، اپنی مشق پر اعتماد ضروری ہے۔ ہر میچ میں ہزاروں لوگ اس کی ہر جنبش پر نگاہ جمائے ہیں۔ انہیں کھیل کی باریکیوں سے آگہی ہے۔ کھیل کے رولز اور ریگولیشن سے واقفیت ہے۔ اچھے کھلاڑی کی محنت اور لگن نے، برے کھلاڑی کے مایوس کن کارکردگی نے اور کھیل کی غیر جانبدار شفافیت نے شائقین کی تربیت کی ہے کہ ہر شخص ایمپائر کے دیے ہوئے فیصلے کو جانچنے کا اہل ہے۔ پھر وہ ری پلے میں دیکھ سکتا ہے کہ کون کہاں صحیح یا غلط تھا۔ کھیل کے میدان میں فیصلہ سب کے سامنے ہوتا ہے۔ شفافیت ہمیں سیاست کے میدان میں بھی اچھی لگتی ہے۔ لیکن اکثر ہم کھیل میں اڑتی خاک اور آنکھوں میں جھونکی دھول میں فرق نہیں کر پاتے۔
غیر تربیت یافتہ شائق کے لیے سیاست دان کی غلطی نکالنا آسان نہیں۔ اور سیاست و اقتدار کا کھیل کرکٹ سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ کرکٹ میں تو گلی کوچوں میں بھاگتے، ٹوٹے جوتوں، ادھڑے گیندوں سے ناہموار میدانوں میں کھیلتے ہمہ شمہ بھی اپنی محنت اور لگن سے نیشنل لیول تک نہ سہی کلب یا سپر لیگ تک ضرور کھیل سکتے ہیں۔ مگر سیاست میں بیشتر کھلاڑیوں کے اپنے سوا، محض ان کی اپنی ہونہار اولاد ہی اس اعلیٰ پائے کے ہنر کو سمجھ پاتی ہے۔ شاید اسی لیے اتنی دہائیوں میں اتنے کروڑ لوگوں میں یہاں کی نم مٹی جنگ اور کھیل کے میدانوں میں تو مسلسل نیا خون مہیا کرتی رہی ہے۔ لیکن اقتدار کے منصب سزاوار چند ہی سامنے آئے ہیں۔
سیاست دانوں کی قلت کے حل سے پہلے ہمیں شائقین کی تربیت کا مسئلہ حل کرنا ہے۔ اس کے علاوہ قوم میں حرکی توانائی کے بحران کا علاج بھی ضروری ہے جس کی بحالی کی تمام تر ذمہ داری کرکٹ نے اٹھائی ہوئی ہے۔ سپر لیگ ماڈل اس میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔ پہلے تو ہمیں کیٹیگریز کا تعین کرنا ہے۔ جیسے ادب و صحافت، خطابت، ثقافت، سائنس، ٹیکنالوجی ریاضی معاشیات فنون لطیفہ، وغیرہ وغیرہ۔ پھر علاقائی ٹیموں کا تعین کریں گے۔ ہم بتدریج ان بھی اضافہ و ترمیم کرتے رہیں گے۔
یہاں ہم اس کو سنٹرلائز نہیں کریں گے۔ بلکہ اکیڈیمیا حکومت کی سرپرستی اور کرپشن کے بغیر ہی، امداد باہمی یا پرائیویٹ سپانسرز سے مقابلوں کا انعقاد کرے گی۔ تمام علاقے سپر لیگ کی طرز پر ہی مقابلے کے لیے پروجیکٹ بنائیں گے۔ متعلقہ کیٹیگری کے ملکی یا غیرملکی ماہرین خیال کی جدت، منفعت، پیش کش، سکوپ وغیرہ کی بنیاد پر اس کو جج کریں گے۔ عوام اپنی اپنی ٹیموں کی کارکردگی کی سٹیڈیم میں حمایت کے لیے آئیں گے۔ میڈیا اس کو جنونی کوریج دے گا تاکہ لوگوں میں جوش جذبہ کی کمی نہ ہونے پائے۔ ترانے سپر لیگ سے ادھار لے سکتے ہیں تاکہ بات بجٹ میں رہے۔ ابھی کے لیے ”کھل کر کھیل پیارے“ ری پیٹ پر چلا لیں۔
پھر ایک دن ہر طرح کے منصوبوں کے لیے اپنی ٹیموں کو چیئر کرتے شائقین کو بھی علم کے نئے امکانات سے آگہی ہونے لگے گی۔ وہ دلیل سے بات کرنا اور تہذیب سے اختلاف کرنا سیکھ لیں گے۔ سائنسی اور ادبی فکر کے نئے رجحانات سے آگاہ ہوجائیں گے۔ درست کو اپنانے اور غلط کو رد کرنے کا فن عام ہو جائے گا۔ کھلاڑی کا اپنے ہنر اور مشق پر بھروسا ایک حد تک متعدی ہوتا ہے۔ کرکٹ کے علاوہ بھی کچھ ہو سکتا ہے جو مثبت اور غیر متعصب طریقے ایک سے زیادہ افراد کو اپنی اور اپنے ساتھیوں کی صلاحیتوں پر اعتماد کرنا اور تعمیری انداز میں چیلنج کرنا سکھا دے۔ انہی ڈومیسٹک ٹیموں کا کوئی کھلاڑی شاید اپنی کارکردگی کی بنیاد پر نیشنل لیول پر پہنچ جائے یا کسی دل برداشتہ کرپٹ سیاست دان کا بہتر متبادل بن جائے۔
- کُھل کر کھیل۔ کرکٹ ماڈل - 13/11/2024
- نوجوانوں کے سوالات 2 - 01/11/2024
- نوجوانوں کے سوالات - 24/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).