خواجہ مظہر صدیقی: انسانیت کی خدمت کرنے والا بندہ حقیقی


مجھے ہمیشہ ایسے لوگوں سے ملنے کا اشتیاق رہتا ہے جن کے بارے میں لوگ کہیں کہ ”آپ کو ان سے ملنا چاہیے۔“ خواجہ مظہر صدیقی کے معاملے میں بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال تھی۔ ہمیں ملانے والے ہمارے دو مشترکہ دوست تھے، جن کی خواہش اور کوشش تھی کہ ہماری ملاقات ہو۔ میں کراچی میں جبکہ خواجہ مظہر صدیقی صاحب ملتان میں رہائش پذیر ہیں۔ پچھلے ماہ، جب میں ٹریننگ کے سلسلے میں ملتان گیا تو میرے دوست محمد عابد سعید اور محمد حسنین ریاض نے نہ صرف مجھ سے خواجہ مظہر صدیقی سے ملنے کی تاکید کی بلکہ بھرپور انتظام بھی کیا۔

آخرکار، ہماری پہلی ملاقات 17 اکتوبر 2024 کو خواجہ مظہر صدیقی کے دفتر ”ارتقاء“ میں ہوئی، جو علم اور سخاوت کا خزانہ اور درویش خانہ بھی ہے۔ اسی دوران مجھے 18 اکتوبر کو ان کے دفتر میں سافٹ اسکلز پر ایک سیشن منعقد کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ پہلے دن خواجہ مظہر صدیقی سے تعارفی گفتگو ہوئی، انہوں نے دلچسپ بات چیت اور مزیدار کھانے سے مہمان نوازی کی اور بچوں کے لیے مختصر کہانیوں پر مبنی اپنی خوبصورت کتاب پہلا قدم پیش کی۔ عام طور پر، میں کوشش کرتا ہوں کہ اس لکھاری کی پہلی کتاب ضرور پڑھوں جو وہ خود اپنے دستِ مبارک سے پیش کرتے ہیں۔

یہ مضمون جہاں خواجہ مظہر صدیقی کی شخصیت، ادبی، سماجی اور سخاوتی خدمات کا احاطہ کرتا ہے، وہیں ان کی کتاب پہلا قدم پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ 112 صفحات پر مشتمل یہ کتاب 2022 میں ارتقاء آرگنائزیشن پاکستان کے زیرِ اہتمام شائع ہوئی۔ کتاب میں بچوں کے لیے 18 طویل کہانیاں اور 8 مختصر سبق آموز کہانیاں شامل ہیں۔ کتاب کا انتساب ”ان بچوں کے نام ہے جنہیں کہانیاں پڑھنے کا شوق ہے، کیونکہ بچپن میں کیا گیا مطالعہ عمر بھر ساتھ رہتا ہے اور بچے ہمیشہ کتاب سے جڑے رہتے ہیں۔“

نیلے رنگ کے خوبصورت اور دیدہ زیب ٹائٹل پیج، پرکشش عنوان اور معیاری کاغذ پر شائع شدہ اس کتاب پر معروف سرجن اور ٹرینر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال، عالمی شہرت یافتہ مصنف اور ٹرینر عارف انیس، قاسم علی شاہ، یوسف فرید، نذیر انبالوی، محبوب الٰہی مخمور اور فہیم عالم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے مجھے خواجہ مظہر صدیقی کی زندگی کے ایک نہایت اہم پہلو کا بھی پتہ چلا کہ وہ کینسر کو شکست دے چکے ہیں۔ ملاقات کے دوران بالکل اندازہ نہ ہوا کہ ان کی زندگی میں کبھی مایوسی اور تلخ تجربات کا سامنا رہا ہے۔

پہلا قدم کے بارے میں میں زیادہ کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ آپ یہ کتاب خود پڑھیں۔ خوبصورت بات یہ ہے کہ خواجہ مظہر صدیقی نے اس میں کوئی دیومالائی کردار شامل نہیں کیا بلکہ اپنی زندگی، معاشرت اور ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہونے والی کہانیوں کو شامل کیا ہے، جن کا تعلق ہمارے معاشرے سے ہے۔ یہ کہانیاں بڑے کارناموں پر مبنی نہیں بلکہ روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے واقعات پر مشتمل ہیں، جو ہمیں اپنی زندگی میں مثبت رویے اپنانے، نیکی کرنے اور دوسروں کے لیے مشعل راہ بننے کی ترغیب دیتی ہیں۔

معروف مصنف عرفان جاوید سے گزشتہ دنوں کہانیوں کے متعلق گفتگو ہو رہی تھی تو انہوں نے کہا، ”بڑا ادب ہمیشہ چھوٹے واقعات سے جنم لیتا ہے۔ ہم میں سے اکثر لکھاری ان چھوٹے واقعات کو اہم نہیں سمجھتے اور یوں ہم اپنے ارد گرد بے شمار کہانیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔“

خواجہ مظہر صدیقی نے اس کتاب میں بڑے سادہ اور عام فہم انداز میں بچوں کے لیے سبق آموز کہانیاں پیش کی ہیں۔ محترم طاہر سلمون کہتے ہیں، ”ہم سب کہانیوں کی ہی پیداوار ہیں۔ کہانیوں میں ہمارا جنم ہوتا ہے، کہانیوں میں ہمارا وجود پنپتا ہے۔ بچپن میں ہم کہانیاں سنتے ہیں، لڑکپن میں جیتے ہیں اور بڑھاپے میں کہانیوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ کہانیاں ہمیں زندہ رکھتی ہیں اور ہم سب انسان، چاہے جس بھی عمر کے حصے میں ہوں، کہانیاں پسند کرتے ہیں!“

خواجہ مظہر صدیقی نہ صرف ملتان بلکہ پورے ملک میں ادیبوں کی قدر کرنے والے ایک شاندار انسان ہیں۔ ان کی شخصیت میں یہ کشش ہے کہ وہ علم اور انسانیت سے محبت کرنے والے لوگوں کو اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔ خواجہ مظہر صدیقی نے اپنی علمی، تدریسی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ذریعے اپنی دھرتی اور ملتان کا نام روشن کیا ہے۔ ان کی تنظیم ”ارتقاء پاکستان“ کے دفتر میں مختلف حلقہ احباب سے ملاقات کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ خواجہ مظہر صدیقی نہ صرف علمی، سیاسی، سماجی اور مذہبی شخصیات میں معروف ہیں بلکہ عام اور زمین سے جڑے ہوئے افراد کے دُکھ درد میں بھی برابر شریک ہوتے ہیں۔ خواجہ مظہر صدیقی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے مقصد کو جلدی پہچان لیا اور اپنی زندگی کو اس لیے کارآمد بنایا تاکہ دوسروں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments