انسانیت کا قتل: کوٹلی مرلاں میں گھریلو تشدد کا لرزہ خیز واقعہ
ڈسکہ کے نواحی گاؤں کوٹلی مرلاں میں پیش آنے والا انسانیت سوز واقعہ ہمارے معاشرے کے اخلاقی زوال اور گھریلو تشدد کی بڑھتی ہوئی شدت کا ایک اندوہناک ثبوت ہے۔ اس واقعے میں ایک حاملہ خاتون، 26 سالہ زہرا، کو اس کی ساس اور نندوں نے سفاکی سے قتل کر دیا۔ زہرا سات ماہ کی حاملہ تھی اور ایک چھوٹے بچے کی ماں بھی تھی۔ وہ اپنے شوہر قدیر کی غیر موجودگی میں، جو بیرون ملک ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھا، اپنی ساس اور نندوں کے ساتھ رہ رہی تھی۔ خاندانی جھگڑوں اور نفرت کی بنیاد پر اس کی زندگی چھین لی گئی، اور اس کے قتل کے بعد اس کی لاش کے ٹکڑے کر کے نہر میں پھینک دیے گئے۔
اس اندوہناک جرم کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ ساس صغراں بی بی اور نند یاسمین نے نہ صرف زہرا کو بے دردی سے قتل کیا بلکہ اس کی شناخت مٹانے کے لیے اس کا سر چولہے پر جلا دیا اور جسم کے ٹکڑوں کو دو بوریوں میں بند کر دیا۔ رات کے وقت صغراں بی بی نے اپنے نواسے عبداللہ کی مدد سے یہ بوریاں نہر میں پھینک دیں۔ بعد ازاں، اس جرم کو چھپانے کے لیے یہ افواہیں پھیلائیں کہ زہرا اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ تاہم، جب نہر سے لاش کے ٹکڑے برآمد ہوئے، تو پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے صغراں بی بی، یاسمین، اور عبداللہ کو گرفتار کر لیا۔
یہ واقعہ نہ صرف ایک خاندان کے اندر پائے جانے والے زہر کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ ہمارے معاشرتی نظام کی کمزوریوں کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔ ایک حاملہ خاتون کو اس طرح قتل کرنا اور اس کی شناخت مٹانے کی کوشش کرنا ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں رشتوں کی حرمت اور زندگی کی قدر ختم ہوتی جا رہی ہے۔
ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے متعدد اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، سخت قانونی کارروائی کے ذریعے ایسے واقعات میں ملوث افراد کو عبرتناک سزا دی جانی چاہیے۔ انصاف کا بروقت حصول نہ صرف متاثرہ خاندان کو سکون فراہم کرے گا بلکہ یہ معاشرے کو ایک مضبوط پیغام بھی دے گا کہ جرم کی کوئی گنجائش نہیں۔ پولیس اور عدالتی نظام کو اس طرح کے کیسز میں زیادہ حساس اور فوری ہونا چاہیے تاکہ متاثرہ افراد کے ساتھ انصاف ہو سکے۔
گھریلو جھگڑوں اور تنازعات کے حل کے لیے ایک منظم مشاورتی نظام کا قیام بھی ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے میں خاندانی تعلقات کو بہتر بنانے اور گھریلو مسائل کے پرامن حل کے لیے لوگوں کو شعور دینا ہو گا۔ خاندانوں کو سکھانا ہو گا کہ تنازعات کو حل کرنے کے لیے بات چیت اور مصالحت کا راستہ اختیار کریں، نہ کہ تشدد اور انتقام کا۔
تعلیم اور معاشرتی شعور کے فروغ کے ذریعے گھریلو تشدد اور عورتوں کے خلاف جرائم کی روک تھام ممکن ہے۔ اسکولوں اور کمیونٹی سینٹرز میں ایسی تربیتی سرگرمیاں متعارف کرائی جائیں جو لوگوں کو انسانیت، برداشت، اور احترام کے اصول سکھائیں۔ معاشرتی تنظیموں اور مقامی حکومتوں کو مل کر کام کرنا ہو گا تاکہ ایسے مسائل کا تدارک کیا جا سکے۔
خواتین کے تحفظ کے لیے مضبوط قوانین اور ان پر عملدرآمد بھی نہایت اہم ہے۔ ایسے واقعات میں ملوث افراد کے لیے سخت سزائیں مقرر کی جائیں اور متاثرہ خواتین کو یہ یقین دلایا جائے کہ وہ قانونی تحفظ حاصل کر سکتی ہیں۔ حکومت کو اس حوالے سے اقدامات کرنا ہوں گے کہ عورتیں، خاص طور پر وہ جو گھریلو تشدد کا شکار ہیں، اپنی شکایات درج کرا سکیں اور انصاف حاصل کر سکیں۔
معاشرتی حمایت اور تعاون کا نظام بھی ایسے سانحات کو روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ خواتین کو یہ اعتماد دیا جائے کہ وہ اکیلی نہیں ہیں، اور اگر انہیں کسی قسم کی زیادتی یا ظلم کا سامنا ہو تو وہ اپنی بات کہنے کے لیے آزاد ہیں۔ سماجی تنظیموں، مذہبی رہنماؤں، اور مقامی کمیونٹی کے افراد کو ایک ایسا ماحول تشکیل دینا ہو گا جہاں خواتین اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر سکیں۔
یہ واقعہ ایک گہرے تجزیے کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے خاندانی نظام اور رشتوں کو کس سمت میں لے جا رہے ہیں۔ جب رشتے، جو محبت، تحفظ، اور اعتماد کی بنیاد پر قائم ہونے چاہئیں، نفرت اور تشدد کی بنیاد بن جائیں، تو یہ صرف ایک فرد یا خاندان کا مسئلہ نہیں رہتا بلکہ پورے سماج کا بحران بن جاتا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کیسا معاشرہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
کوٹلی مرلاں کا یہ واقعہ ایک تلخ یاد دہانی ہے کہ گھریلو تشدد کے مسئلے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے واقعات صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری نہیں ہیں بلکہ پورے معاشرے کی مشترکہ کوششوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے گھریلو ماحول کو بہتر بنانے، خاندانی رشتوں کو مضبوط کرنے، اور برداشت اور احترام کے جذبات کو فروغ دینے کے لیے سنجیدگی سے کام کرنا ہو گا۔
زہرا کی المناک موت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ انسانی زندگی کی قدر اور انسانیت کی بحالی کے لیے ہمیں اپنے رویوں اور نظام کو تبدیل کرنا ہو گا۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے معاشرتی اور قانونی ڈھانچے کو مضبوط کریں تاکہ ایسے اندوہناک سانحات کا دوبارہ سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس واقعے کا انجام یہ ہونا چاہیے کہ انصاف یقینی بنایا جائے اور معاشرے میں ظلم و زیادتی کے خلاف ایک مضبوط پیغام دیا جائے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).