جینیفر لوپیز اور کیمیلا کی ارض مقدس میں دھماکے دار پرفارمینس


ہماری مقدس ترین سرزمین سعودی عرب، جہاں حج و عمرہ کی ادائیگی کے لیے دنیا بھر سے اہل ایمان و یقین اکٹھے ہوتے ہیں اور اپنے ایمان کی تازگی اور حلاوت حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے ایمان کے مطابق وہاں قدرت انسانوں سے ہم کلام ہوتی ہے اور رحمتوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر گناہ گاروں کا متلاشی رہتا ہے اور ہمارے ایقان کے مطابق جو شخص بھی اس مقدس ترین سرزمین کی یاترا کر لیتا ہے وہ عمر بھر کے گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں زندگی کے فائنل پڑاؤ یعنی بڑھاپے میں جب منہ میں دانت نہیں رہتے تو لوگ حج و عمرہ کی غرض سے مقدس سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں تاکہ عمر بھر کے گناہوں اور لوگوں کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کا ازالہ اس صورت میں ممکن ہو سکے، چونکہ لوگوں کے سامنے اعتراف گناہ کرنا اور اپنی انا کو داؤ پر لگانا خاصا مشکل ہوتا ہے اور مقدس سرزمین پر یہ ازالہ چپ چپیتے ہو جاتا ہے اور بھرم بھی رہ جاتا ہے۔

ہماری نظر میں تو زوال کی سب سے بڑی وجہ ہی شاید یہی ہے کہ ہم گناہ اس وجہ سے کرتے ہیں کہ معافی سے معاف ہو جاتے ہیں، دنیا بھی اسی وجہ سے بہتر نہیں ہو پاتی چونکہ ہمارا اس دنیا کے ساتھ کوئی کنسرن ہی نہیں ہے، ہم تو دنیا میں محض آخرت کی تیاری کے لیے آئے ہیں۔

یہ جو سہولیاتی پیکجز ہوتے ہیں نا دراصل یہی ہماری ترقی کے راستے کی اصل رکاوٹ ہیں، جب معافی کا پیکیج دستیاب ہو اور ساری توجہ اخروی زندگی پر مرکوز ہو تو پھر احساس اور ذمہ داری ایسے جذبوں کا وہاں کیا کام؟ یہ جذبے تو انفرادیت اور آ زاد فضا کی چھتر چھایا میں فروغ پاتے ہیں۔ انسانوں سے پیار اور ہمسایوں کا خیال رکھنا انسانیت کا بنیادی تقاضا ہوتا ہے اس کے لیے کسی مذہب کی ضرورت نہیں ہوتی۔

رہی ہماری اوقات تو اس دنیا میں جو ہمارا حال ہے وہ سب کے سامنے ہے دہرائی کا کیا فائدہ؟ ہمیں یہ لگتا ہے کہ شاید مذہب کا سب سے زیادہ گیان ہمیں ہی حاصل ہے، دنیا بھر کے دوسرے مسلمان ممالک تو گمراہ ہیں اور اسی خود اعتمادی و نرگسیت کا اظہار ہمارے مذہبی رہنما دوسروں کے ایمان کے دائرے ناپ کر کرتے رہتے ہیں۔ کوئی مختلف بات کر لے یا ذرا سا ہٹ کر سوچ لے یا کوئی چبھتا سا سوال پوچھ لے تو ان کا خدائی چابک فوری حرکت میں آ جاتا ہے اور سوال کرنے والے پر نجانے کیسے کیسے ٹیگ چسپاں کر دیے جاتے ہیں۔ بغیر تحقیق و تصدیق ہجوم بازی یا سڑکیں بلاک کردینے کا چلن یہاں بہت زیادہ ہو چکا ہے، کیا حیرانی کی انتہا نہیں ہے کہ ارض مقدس میں امریکی حسینائیں انتہائی بولڈ انداز میں اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور والیان ارض مقدس گناہ و ثواب سے بے نیاز خوشی میں جھوم رہے ہیں جبکہ ہمارے معزز علماء کرام اہل عرب کی ان گستاخیوں پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں؟ کسی عالم دین نے کوئی بیان نہیں دیا اور نہ ہی کوئی گرفت کرنے کی کوشش کی۔

2030 ویژن کے تحت وہ بڑی تیزی سے ترقی یافتہ صفوں میں شامل ہونے کی ہر ممکنہ کوشش کر رہے ہیں، صدیوں کے جبر پر ان کی گرہ کمزور پڑنے لگی ہے، جبر سے معاشروں کو ہانکا تو جا سکتا ہے لیکن ایک بہترین سماج نہیں بنایا جاسکتا۔ آج کی دنیا معیشت بیسڈ اور نالج اکانومی کی بنیاد پر کھڑی ہے، جن کے ہاتھ میں علم اور معیشت کی مہار ہے وہی دنیا کے امام بنے ہوئے ہیں۔ اسی لیے وارثان سعودی عرب نے انسانوں کے اعمال و ایمان پر نظریں گاڑنے کی بجائے معیشت پر فوکس کرنا شروع کر دیا ہے۔ وہ جان چکے ہیں کہ انسانوں کی منہ زور جبلتوں پر جبری بندوبست کا نفاذ بے اثر رہتا ہے اسی لیے انہوں نے انسانی تقاضوں کو انفرادیت کے باب میں شامل کرتے ہوئے ان تمام تفریحات کے دروازے کھول دیے ہیں جنہیں انسان من بہلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے من بہلانے کے تمام تقاضوں کو معیشت کے دائرہ کار میں شامل کر لیا ہے۔

جینیفر اور کیمیلا کی پرفارمینس اسی معیشت کا تسلسل ہے، جبکہ ہم آج بھی جذباتی ایندھن ہیں جنہیں کبھی ریاست تو کبھی اہل جبہ و دستار اپنے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہم اس وقت تک یونہی استعمال ہوتے رہیں گے جب تک ہم سوچنا شروع نہیں کرتے، شعور کے سوتے سوچنے سے پھوٹتے ہیں نا کہ تقلید سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments