پس چہ باید کرد اے اقوام شرق؟


حکیم الامت کی ایک تصویرمشہور مجسمہ Thinker The جیسی ہے کہ وہ ایک ہاتھ سر کے نیچے رکھے سوچ رہے ہیں۔ وہی جو اوپر لکھا ہے کہ آخر کیا کیا جائے! برادران اسلام، برادران وطن، برادرن مشرق، زیادہ متفکر وہ ہم وطنوں کے لیے تھے، کیوں کہ وہ اقوام مغرب کی طاقت اور ترقی کے پیچھے ان کی متحرک ذہنی قوت کو دیکھ بھی آئے تھے اور ان کواقوام شرق سے زیادہ ہم وطنوں کی کم علمی و کم عملی یوں نظر آرہی تھی، جیسے ماں کو بچے کی معذوری۔ جو نظربھی آتی ہے، دکھی بھی کرتی ہے۔ انہوں نے واویلا کیا کہ

نہ سمجھوگے تو مٹ جاﺅگے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

کسی نے نہیں سنی۔ مسلمان تھے کہ عظمت رفتہ کے قصوں میں منہمک۔ انگریزکو الزام دینے سے بات نہیں بنتی۔ کتابوں میں پڑھو تو کیا دبدبہ تھا، کیا شان و شوکت تھی اور کیا فتوحات کا غلغلہ تھا لیکن ہزاروں میل دور سے فرنگی کی نظر نے تاڑ لیا کہ یہ انارکلیوں کے رسیا، دربار سجانے اور رقص و موسیقی کے دل دادہ، محل مقبرے اور باغات کے شوقین دنیا کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ اچھے موسم میں ساحل کے قریب کشتی میں مچھلی پکڑنے بھی جائیں تو امام ضامن بندھواتے ہیں۔ ان کو غلام بنانا کیا مشکل ہے۔ جب بابر نے مغل حکومت کی بنیاد رکھی تو برطانیہ میں یونیورسٹی قائم ہو چکی تھی اور ہالینڈ میں بینکنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔ فرنگی کافروں کو قریب میں کوئی آسان حریف نہ تھا۔

ہزاروں میل سے برطانیہ، ہالینڈ اور فرانس سے براستہ سمندر آکے انہوں نے مغل سلطنت کو بندوق کی نہیں اسپرین کی گولی سے تسخیر کرلیا۔ مغل شہزادوں کو توپ دم کچھ دن بعد کیا۔ اسپرین کی گولی کی کہانی یہ ہے کہ جہانگیر کی کسی شہزادی یا ملکہ عالیہ کا بخار نہیں اترتا تھا۔ قوت باہ کے اسپیشلسٹ اور مرغن غذاﺅں کے ساتھ شراب ناب کے لیے تقویت جگر کے ٹانک ایجاد کرنے والے شاہی طبیب۔ کم بخت ایک مچھرکی خباثت سے آگاہ نہ تھے، جو آدمی کو ہیجڑا بنا دیتا ہے۔ (فرمایا نانا پاٹیکرنے ایک فلم میں بار بار)

سر ٹامس رو نے اسپرین کی گولی سے بخار اتار دیا تو حسب عادت شہنشاہ مکرم نے فرمایا کہ ولایتی حکیم کا منہ موتیوں سے بھر دیا جائے۔ وہ گھبرا گیا کہ اس سے تو دم گھٹ کے مرجاﺅں گا۔ اس نے کہا کہ ظل الٰہی (معنی: سایہ خدائے ذوالجلال) مجھے تو بمبئی کے ساحل پرایک دکان الاٹ کر دیں۔ درباری اس دیوانے پر ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوئے ہوں گے کہ احمق نے مانگا بھی تو کیا۔ سمندر میں جنوب سے گورا، مشرق میں کلکتہ گیا، پھر مغرب میں کراچی۔ شمال میں تو پہاڑ تھے اور پھرچشم فلک نے آخری مغل شہنشاہ کی جلا وطنی اور شہزادوں کے توپ دم کیے جانے کا منظر بھی دیکھا۔ درد ناک شاعری کے علاوہ اس پر رقت انگیز ناول ابھی تک لکھے جارہے ہیں۔ تازہ ترین ہے سید محمد اشرف کا ’آخری سواریاں‘۔ اس سے پہلے شمس الرحمن فاروقی کا ’کئی چاند تھے سر آسمان‘ ادبی دنیا میں تہلکہ مچا چکا ہے۔ دور خلافت راشدہ، سومنات کے بت شکن، فاتح اندلس طارق بن زیاد اور دنیا کے سب سے کم سن سپہ سالار محمد بن قاسم کی کہانیوں پر فخر ہمارا سرمایہ ہے۔ (ان دو کو خود ہم نے کیا درس عبرت بنایا، یہ ہم نہ پڑھتے ہیں نہ پڑھنے دیتے ہیں)۔

اصل واقعاتی تاریخ لکھنے کی روایت ہم نے ڈالی ہی نہیں۔ صرف تعریف و توصیف پر مبنی سیرت لکھنے کی البتہ اجازت اور روایت تھی، چنانچہ دین الٰہی کے بانی فلم مغل اعظم فیم اکبر اور پھر کسی بھائی اور کسی نماز کو نہ چھوڑنے والے آخری رحمت اللہ علیہ اورنگ زیب دونوں نے انچاس سال یعنی نصف صدی حکومت کی، لیکن کوئی بتا سکتا ہے کہ ان کا جنازہ کیسے اور کب اٹھا؟ یا زنجیر عدل والے اور فلم پکار فیم کے جہانگیر، دنیا کا ساتواں عجوبہ سنگ مرمرمیں غزل محبت کا لافانی شاہکار تاج محل بنانے والے فلم شاہ جہاں فیم والے انجینئر بادشاہ۔ تخت پر ان سب کے روز و شب کے ہر لمحہ شان و شکوہ کا احوال تو شاہی مورخ نے لکھا، مگر ان کی شان دار تدفین کے جلوس، رعایا کے لاکھوں افراد کی اشک فشانی اور سینہ کوبی اور سہیم چہلم تک سرکاری سوگ کی روداد پر کہیں ایک لفظ نہیں۔ اب یہ بات کسی اور طرف نکل گئی، لیکن کیا کسی مستند حوالے سے اس روایت کی تردید کوئی کر سکتا ہے کہ کسی بھی شہنشاہ کی موت کا اعلان عام نہیں ہوتا تھا؟ اس کی میت کو نئے بادشاہ کی تخت نشینی کے لیے لایا جا تا تھا۔ وہ اس پر پاﺅں رکھ کے تخت پر بیٹھتا تھا اور پھر خدام اسے کسی پچھلے دروازے سے نکال کے کسی گم نام گوشے میں گاڑ دیتے تھے۔ ان کے مقبرے بہت بعد میں بنتے تھے۔ اکبر، اورنگ زیب، شاہ جہاں کے مقبرے مشہور نہیں، جہانگیر کا نورجہاں نے بنایا تھا لیکن اس کا اپنا تو ایک شکستہ و خستہ حال کوٹھری ہے۔

یہ تھی وہ تاریخ جس کا بینڈ ہم بڑے فخر سے بجاتے رہے لیکن کب تک؟ گوروں نے آ کے ہمارا بینڈ بجادیا، مگر اس سے پہلے کا احوال کون سا مختلف ہے۔ بابر ترکی سے آیا۔ محمود غزنوی افغانستان سے، سکندر اعظم یونان سے، چنگیز خان منگولیا سے ( ہم میں ایسے بھی ہیں جو ان کو بھی مسلمان سمجھتے ہیں) آخر کیا وجہ ہے کہ جس کا دل چاہتا تھا، ہندوستان آجاتا تھا۔ یہ سونے کی چڑیا مشہور تھا۔ مگراتنا آسان ہدف کیوں رہا؟ یہ بھی واضح نہیں کہ ہندوستان تھا کیا۔ کہاں سے کہاں تک کا علاقہ ہندوستان کہلاتا تھا۔ آج کی طرح ایک ایک انچ کی جغرافیائی حد بندی تو خیر نہیں تھی کیوں کہ کہیں پاسپورٹ وغیرہ نہیں تھا۔ جس کا جہاں جی چاہے جائے۔ ان گوروں کے لیے کسی قریب کے ملک پر لشکر کشی میں کیا مسئلہ تھا؟

میرا خیال ہے کہ یہ کم ہمت دماغ سے محروم کاہل، جاہل، بے عقل بے شعورافراد کے گروہ پر مشتمل اقوام کے ایک خطے کا نام تھا اور ان کی اصل کمزوری تھی ذہنی پسماندگی۔ ہندوستان ( بشمول پاکستان ) روایت پسند لکیر کے فقیر۔ کنویں کے مینڈک جیسے انسانوں کی undefined آبادی تھی، اور جہاں نہ کوئی ہومر یا ارسطو پیدا ہوا، نہ شیکسپیئر، نہ ایڈیسن نہ ابن الہیثم۔ جہاں کچھ بھی ایجاد نہیں ہوا۔ مکئی آلو سے چائے کافی سگریٹ مدافعتی ٹیکا۔ عوامی بیماریوں کا علاج، پرنٹنگ پریس، کرنسی، ٹریفک رولز تک انگریز لائے، باوا آدم کے زمانے سے جو تھا وہی چلتا رہا، Innovation صفر، یکہ تانگا، رہٹ، ہل، چکی، بیل گاڑی، پان دان، حقہ، لسی، دھوتی یا تہمد (جس کا زنانہ ایڈیشن ساڑھی ہے) سب وہی ہیں، چھوٹے قصبوں اور دیہہ کی اکثریت آج بھی گھوڑوں کے نعلیں ٹھوکتی ہے، لکڑی کے پہیوں پر لوہا چڑھاتی ہے۔ جن بھوت چڑیل اور آسیب کالے عمل اور جادو ٹونے پر یقین رکھتی ہے۔

اکثریت سوچ نہیں بدلتی۔ تبدیلی کے خلاف ہے۔ خیال کی آزادی سے خائف ہے۔ لبرل کا لفظ گالی بنالیتی ہے جب کہ اس کا مطلب آزاد خیال سے زیادہ کچھ نہیں۔ جو آقائے دوجہاں اگر نہ ہوتے تو آبا و اجداد کے پرانے مسلک پر چلتے رہتے اور غلط معاشرتی اقدار کے خلاف آواز نہ اٹھاتے۔ یہ اقدار ازلی اور ابدی کیسے ہو سکتی ہیں، جب کہ وقت ایک مسلسل تغیرکا نام ہے۔
ایسی صورت احوال میں شاعر مشرق کی فکر جائز تھی، کہ آخر کیا کیا جائے، بہت بڑی غریب اور محکوم اکثریت کے لیے؟ اسی ذہنی رویے کے باعث دنیا ایک جہنم ہے اور بہت چھوٹے دولت مند حاکم اقلیت کے لیے جنت۔ ذہن کی کشادگی کے بغیر صورت حالات ایسی ہی رہے گی۔ رکھی جائے گی۔

احمد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد اقبال

احمد اقبال 45 سال سے کہانیاں لکھ رہے ہیں موروثی طور شاعر بھی ہیں مزاحیہ کہانیوں کا ایک مجموعہ شائع ہو کے قبولیت عامہ کی سند حاصل کر چکا ہے سرگزشت زیر ترتیب ہے. معاشیات میں ایم اے کیا مگر سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ملکی تاریخ کے چشم دید گواہ بھی ہیں.

ahmad-iqbal has 32 posts and counting.See all posts by ahmad-iqbal