عمران کی سیاست وزیر اعظم ہاؤس یا سڑکیں


Loading

عمران خان کے سیاست میں آنے کے صرف دو ہی مقصد ہیں وزیر اعظم ہاؤس یا سڑکیں۔ اگر بات عمران خان کے جرائم کی کی جائے تو اس کے جرائم ذوالفقار علی بھٹو سے بھی بڑے ہیں۔ بھٹو نے تو راولپنڈی کے ایک چوک میں صرف ایک کاغذ لہرایا تھا جس کو بھٹو نے امریکی سازش کا نام دیا تھا پھر اس دن کے بعد بھٹو کے لیے ہر دن مشکلات سے بھرپور ثابت ہوا۔ چھ سال پرانے ایک مقدمے میں ان کو سزائے موت سنا دی گئی پھر ان کی سزائے موت پر عمل درآمد بھی کر دیا گیا۔

عمران خان نے 2011 سے باقاعدہ طور پر جلسے، احتجاج اور دھرنوں کی سیاست کا آغاز کیا۔ اس دوران عمران خان نے ہر وہ کام کیا جو سزائے موت کی سزا کے لیے کافی ہو۔ پارلیمنٹ پر حملہ ہو اور سرکاری ٹی وی پر حملہ کرنا ہو یا پھر وزیر اعظم بن کر ایرانی صدر کے ہمراہ مشترکہ ایران میں ہی پریس کانفرنس کے دوران پاکستان پر دہشت گردوں کو پالنے کا الزام لگانا ہو یا امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ بیٹھ کر مشترکہ پریس کانفرنس میں پھر پاکستان پر ہی دہشت گردوں کو پالنے کا الزام لگانا ہو پھر آئی ایم ایف سے معاہدہ کر کے خود ہی معاہدے کو توڑنا ہو پھر وزیراعظم ہاؤس سے نکلنے کے بعد آرمی چیف کو میر جعفر کہنا ہو پھر اسی آرمی چیف کو تاحیات توسیع کی آفر کرنا ہو پھر جلسے میں کھڑے ہو کر باقاعدہ امریکہ کو للکارتے ہوئے کہنا کہ میری حکومت گرانے سے بہتر تھا تم پاکستان پر ایٹم بم گرا دیتے پھر موجودہ آرمی چیف کی تعیناتی کو روکنے کے لیے لانگ مارچ کرنا ہو پھر نو مئی کی ناکام بغاوت ہو۔ جمہوری وزیر اعظم ہونے کے باوجود بھی اسمبلی کو تحلیل کرنا ہو پھر سپریم کورٹ کی جانب سے اس عمل پر آئین شکنی کا مرتکب قرار دینا ہو۔ اب رہی سہی کسر بشریٰ بی بی نے پوری کردی کہ برادر اسلامی ملک سعودی عرب پر پاکستان میں شریعت ختم کرنے اور عمران کی حکومت گرانے کا ذمہ دار ٹھہرانا ہو۔ یہ چند ایک وہ بڑے جرائم ہیں جن پر عمران خان کو اب تک متعدد مرتبہ سزائے موت سنائی جا چکی ہوتی۔

اس کی خوش قسمتی ہے کہ ایک طبقہ آج بھی ڈھٹائی کے ساتھ اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ جو اس کو ہر جائز ناجائز مقدمے میں آنکھیں بند کر کے ریلیف دے دیتا ہے۔ ابھی کل ہی ایک رپورٹ جاری ہوئی ہے کہ 18 ماہ کے دوران تحریک انصاف کے دھرنوں اور احتجاج سے نمٹنے کے لیے حکومت پاکستان کے 2 ارب 70 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں جبکہ چھ ماہ میں ایک ارب 20 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ یہ وہ رقم ہے جو صرف حکومت نے ادا کی ہے جبکہ ملکی معیشت کو ان دھرنوں اور احتجاج کے باعث نقصان پہنچنے کا تخمینہ اربوں روپے میں ہے۔ دوسری جانب عمران خان کو جیل میں دیسی مرغی، دیسی انڈے، ڈبل روٹیاں، جیم، منرل واٹر کی بوتلیں، جوس اور تمام گرم و خشک میوہ جات بھی وافر مقدار میں دستیاب ہوتے ہیں۔ جیل رولز کے مطابق ملاقات کا دن صرف جمعرات ہوتا ہے لیکن ہتھوڑے کے زور پر ہفتے کے تمام دن جب چاہے اس کے دوستوں پارٹی رہنماؤں اور فیملی کو ملاقات کی اجازت ہوتی ہے۔ عمران خان مزے سے جیل میں بیٹھے ہیں وہ جب چاہتے ہیں ملک میں احتجاج کی کال دے دیتے ہیں اور کچھ بھیڑ بکریاں منہ اٹھا کر آنکھیں بند کر کے نکل پڑتی ہیں۔ یہ سلسلہ کب رکے گا فی الحال اس کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اس سارے ڈرامے میں پاکستان کا نقصان ناقابل تلافی ہو چکا ہے اور مزید ہو گا کیونکہ عمران خان ذوالفقار بھٹو نہیں ہے اور نہ ہی اس کو ذوالفقار بھٹو کی طرح سزائے موت دی جائے گی شاید پاکستان کی قسمت میں اب یہی کچھ رہ گیا ہے۔

اس سارے منظر نامے میں سب سے معصوم ترین شخص شہباز شریف ہے جو پوری لگن کے ساتھ پاکستان کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں لیکن ایک احتجاج ان کی چھ ماہ کی محنت پر پانی پھیرنے کے لیے شاید کافی ہوتا ہے۔ شاید شہباز شریف کی بھی مجبوری ہے کہ وہ اب طبیعتاً ڈکٹیٹر مائنڈ کے حکمران نہیں ہیں اور نہ ہی عمران خان کی طرح دھمکیاں دیتے ہیں کہ میں ان چوروں ڈاکوؤں اور غداروں کو چھوڑوں گا نہیں ان کو پھانسیوں پر لٹکاؤں گا۔ ایک بات یاد رکھیں تحریک انصاف اور عمران خان جب تک رہیں گے پاکستان میں یہی تماشے چلتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments