انصافی لیڈر شپ خان کی رہائی نہیں اپنے لیے چَوتھ چاہتی ہے


کپتان کے فدائی ووٹر اور کارکن پہلے مرحلے میں اس کی رہائی اور دوسرے مرحلے میں اس کا اقتدار چاہتے ہیں۔ لیکن کیا تحریک انصاف کی آزاد لیڈر شپ بھی یہی چاہتی ہے؟ یا پھر اسے کپتان کی رہائی درکار نہیں بلکہ صرف اپنے لیے چوتھ چاہیے۔

تاریخ سے شغف نہ رکھنے والوں کے لیے چوتھ ایک انجانا لفظ ہو گا۔ لفظی معنی تو اس کا یہ ہے کہ کسی شے کا چوتھا حصہ، لیکن تاریخ میں اس کی خاص اہمیت ہے۔ جب مغل سلطنت کو زوال آنے کے بعد مرہٹوں نے طاقت پکڑی تو ہر دو چار سال بعد وہ دہلی کا رخ کرتے، اور چوتھ لے کر ٹلتے۔ یہ چوتھ وہ کسی ریاست کی آمدنی کے چوتھے حصے کو کہتے تھے۔ ان کے باج گزار حکمران انہیں چوتھ ادا کرنے پر مجبور تھے۔ مرہٹے فارغ بیٹھے تنگ آتے تو سوچتے کچھ مال بنایا جائے، لشکر لے کر نکلتے اور کہیں نہ کہیں سے چوتھ لے کر ہی ٹلتے۔

اس پس منظر میں کپتان کی گرفتاری کے بعد ہونے والی تمام مارچ دیکھیں۔ ایک طرف خان کے کارکنوں اور عام حامیوں کی قربانیاں ہیں، اور دوسری طرف کپتان کے نام پر ووٹ لے کر اقتدار کے مزے لوٹنے والے لیڈر۔

خان کی رہائی کی خاطر کیے جانے والے مارچ میں پنجاب سے تحریک انصاف کا کوئی لیڈر تو دکھائی ہی نہیں دیتا۔ صرف خیبر پختونخوا والے لیڈر ہی نکلتے ہیں۔ مار دھاڑ کرتے ہیں۔ کارکن آنسو گیس کے بادلوں میں آٹھ آٹھ آنسو روتے ہیں۔ کارکنوں کی جانبازی اور قربانیوں کے بل پر یہ جلوس اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے بعد لیڈر شپ کارکنوں کو وہیں چھوڑ کر اچانک غائب ہو جاتی ہے، یا پراسرار طور پر واپس پلٹ جاتی ہے۔ اور لیڈروں کے رویے سے لگتا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی سے بالکل مطمئن ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا وہ یہ یلغار محض چوتھ کے چکر میں کرتے ہیں؟ وہ کپتان کی رہائی کا مقصد حاصل کیے بغیر کس وجہ سے واپس پلٹ جاتے ہیں؟ کیا وہ حکمرانوں سے کچھ مفادات لے کر راضی ہو جاتے ہیں؟ یا انہیں کپتان کی خاطر قربانی دینے سے ڈر لگتا ہے اور وہ حکومت سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں؟ یا پھر انہیں ویسے ہی اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں کہ کپتان جیل سے باہر آئے؟

اگر معاملہ خوف کا ہوتا تو اس طرح مار دھاڑ کرتے ہوئے اسلام آباد تک پہنچتے ہی نا، اس لیے اسے تو رہنے ہی دیں۔ اگر کسی ذاتی مفاد کی خاطر واپسی ہو رہی ہے تو یہ نہ صرف کپتان بلکہ تحریک انصاف کے بے لوث اور وفادار کارکنوں سے بھی غداری ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے گوشے گوشے میں بیٹھے کسی صلے کی تمنا کے بغیر کپتان کی خاطر جدوجہد کر رہے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل صرف خان کے پاس ہے۔

ان لیڈروں کا تو مفاد اسی میں ہے کہ کپتان جیل میں قید رہے تاکہ یہ بلا روک ٹوک حکومت کر سکیں۔ کپتان اگر آزاد ہوا تو ان کی اپنی آزادی ختم ہو جائے گی۔ کپتان میرٹ پر تقرریاں کرتا ہے، اور جس کی تقرری کرے اس کا احتساب بھی کرتا ہے۔ اوپر ایماندار لیڈر بیٹھا ہو تو کسی وزیر یا افسر کی جرات نہیں ہوتی کہ ٹھیکوں میں کمیشن لے، تبادلوں کے پیسے لے، کرپشن سے مال بنائے یا میرٹ سے ہٹ کر کوئی کام کرے۔

یہ صاف شفاف نظام ہم نے 2013 سے لے کر جنوری 2023 تک خیبر پختونخوا میں دیکھا، اور 2018 کے الیکشن کے بعد وفاق اور پنجاب میں بھی دیکھا۔ اس دور میں کرپشن میں جتنی کمی ہوئی، اس کی گواہی تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹیں بھی دے رہی ہیں۔

تحریک انصاف کے لیڈروں سے تو ہم مایوس ہیں۔ لیکن شکر ہے کہ خان کے فدائی ابھی تک ثابت قدم ہیں۔ وطن سے ہزاروں میل دور پردیس میں بیٹھے خان کے سپاہی بھی اپنا اپنا کام کر رہے ہیں، وہ امریکہ میں کانگریس اور وائٹ ہاؤس کے ذریعے پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈلوا رہے ہیں۔ ان کی پیہم جدوجہد کے نتیجے میں امید تو یہی ہے کہ ڈانلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں پہنچتے ہی پہلا آرڈر یہ دے گا کہ خان کو فوراً رہا کیا جائے۔ برطانیہ کی سڑکوں پر انصافی کارکنوں کے غول بیابانی بھی ہر اس شخص کے لیے ڈراؤنے بھوت بن چکے ہیں جس کا اس حکومت سے کوئی بھی تعلق ہو۔

پردیس میں بیٹھے خان کے سپاہی یہ سب قربانیاں دے رہے ہیں تو پاکستان میں موجود خان کے فدائی بھی پیچھے نہ رہیں۔ وہ اپنی مفاد پرست لیڈر شپ کو نہ دیکھیں، وہ خان کی خاطر قربانی دیں اور فائنل کال پر لبیک کہیں۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا؟ پولیس ڈنڈے مارے گی، آنسو گیس کے شیل پھینکے گی، اسلام آباد کے سرد نومبر میں واٹر کینن سے ٹھنڈا یخ پانی پھینکے گی، بہت ہی ہو گیا تو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دے گی۔ تو کیا ہوا، کیا خان کے فدائی اس کی خاطر یہ معمولی سی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتے؟ خان بھِی تو صرف آپ ہی کی خاطر یہ جیل کاٹ رہا ہے۔

خان تو مزے سے برطانیہ میں بیٹھا تھا۔ وہ چاہتا تو جمائمہ کی دولت پر ساری زندگی عیش کرتا، یا کمنٹری کر کے اربوں کھربوں روپے کما لیتا۔ لیکن وہ تو صرف آپ کی خاطر دو برس سے جیل میں قید ہے جہاں نہ اسے اچھا کھانا ملتا ہے اور نہ ہی ایک پراپر جم۔ ایک تنگ کوٹھڑی میں اسے قید کر رکھا ہے جس کی بجلی بھی بند کر دی جاتی ہے۔ ورزش کے لیے اسے صرف ایک سائیکل دی ہے، اور وہ بھِی ایسی کہ جتنا جی چاہے زور لگاؤ وہ ایک ہی جگہ کھڑی رہتی ہے، ہل کے ہی نہیں دیتی۔ حتیٰ کہ خان کو انٹرنیٹ بھی نہیں دیا جا رہا جس کے ذریعے وہ اپنے چاہنے والوں سے خطاب کر سکتا۔ حکومت اس طرح خان کو بے بسی کی کیفیت میں مبتلا کرنا چاہتی ہے۔

ساری دنیا میں سینئیر سٹیزن کا احترام کیا جاتا ہے لیکن اس حکومت کو 72 برس کے ایک بزرگ پر یہ سب ستم ڈھاتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی؟ حالانکہ خان کی استقامت اور اصول پرستی دیکھتے ہوئے خود اسے شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔ حکومت تو شرم نہیں کر رہی، لیکن خان کے کارکن تو کچھ شرم کریں اور اس کا ساتھ دیں، کہیں وہ تنہا نہ رہ جائے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1551 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments