مطیع اللہ جان کا مسئلہ


عباس ناصر کا شمار پاکستان کے چند ان معتبر اور بڑے صحافیوں میں ہوتا ہے جن کا دامن میدانِ صحافت میں ساری زندگی تج دینے کے بعد بھی اجلا اور شفاف ہے۔ ”دی مسلم“ ، ”بی بی سی“ ، ”دی نیوز“ ، ”ڈان“ اور ”ہیرالڈ“ جیسے اداروں کے ساتھ وابستہ رہنے والے عباس ناصر 2006 سے 2010 تک ڈان کے ایڈیٹر رہے اور 2010 کے بعد لندن مقیم ہو گئے۔ تب سے عباس ناصر ڈان میں ہر ہفتے باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں اور کیا ہی شاندار لکھتے ہیں۔ ان کا کالم ہر اتوار کو چھپتا ہے۔

عمران خان کے دور میں 21 جولائی 2020 کو معروف صحافی مطیع اللہ جان جو صحافتی حلقوں میں مطیع کے نام سے جانے جاتے ہیں، اپنی ٹیچر اہلیہ کو سکول چھوڑنے کے بعد سکول کی عمارت کے باہر اپنی گاڑی میں فون پر بات کر رہے تھے کہ چھلاوں نے انہیں اغوا کر لیا۔ دورانِ اغوا تشدد کا نشانہ بنایا۔ جب شور اٹھا تو بارہ گھنٹوں کے بعد مطیع اللہ جان کو اپنے چنگل سے رہا کرنے پر مجبور ہو گئے۔

22 جولائی کو مطیع نے ملک کی اعلی ترین عدالت میں اپنے ایک ”گستاخانہ“ ٹویٹ کا جواب دینا تھا جس نے ان کے سر پر توہینِ عدالت کی تلوار لٹکا دی تھی۔ اپنے ٹویٹ میں مطیع نے سپریم کورٹ کے ان سات ججوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جنہوں نے ایک طرف جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف دائر کیا جانے والا صدارتی ریفرنس ختم کر کے دوسری طرف قاضی فائز عیسی کی اہلیہ اور بچوں کے اثاثوں کی تحقیقات کا حکم دے دیا تھا۔ دن دیہاڑے ملک کے دارالحکومت سے اغوا ہونے، اور اس اغوا پر نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں شور اٹھنے اور بارہ گھنٹوں تک چھلاووں کی حراست میں رہنے کے بعد بھی جب 22 جولائی کو مطیع سپریم کورٹ میں اپنے ٹویٹ کی پاداش میں پیش ہوئے تو قاضی نے اس اغوا کو مبینہ اغوا قرار دے کر نہ صرف مطیع بلکہ ملک کے حقیقی صحافیوں اور انسانی حقوق کا احساس رکھنے والوں کے زخموں پر نمک چھڑک دیا۔

عباس ناصر نے 26 جولائی 2020 کو ”Grateful for Mati“ کے عنوان سے کالم لکھا۔ اس کالم میں عباس ناصر نے مطیع اللہ جان کی صحافت کے لیے جنون اور لگن کی مثال دیتے ہوئے ایک واقعہ کا ذکر کیا۔

عباس ناصر ڈان کے ایڈیٹر تھے اور مطیع اللہ جان ڈان کے رپورٹر تھے۔ وقت کے آمر پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔ سپریم کورٹ پر دھاوا بول کر تمام ججوں کو گرفتار کر کے اپنی مرضی کے جج تعینات کر دیے گئے تھے۔ اس ایمرجنسی کی کوکھ سے عبدالحمید ڈوگر نامی شخص کا بطور چیف جسٹس آف پاکستان جنم ہوا۔ مطیع نے قاضی القضاۃ جسٹس ڈوگر کے متعلق ایک سٹوری فائل کر دی جو ڈوگر کی ایمانداری پر کاری ضرب لیے ہوئے تھی۔ خبر چونکہ ملک کے چیف جسٹس کے متعلق تھی اس لیے صحافتی اصولوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عباس ناصر نے وہ سٹوری ڈان کے قانونی مشیر، ملک کے معروف قانون دان منیر اے ملک کو مشاورت کے لیے بھیج دی اور مطیع کو بھی آگاہ کر دیا۔

منیر اے ملک نے اسی روز شام کو ای میل کا جواب دے دیا جس میں انہوں نے خبر کو قانونی پہلوؤں سے درست قرار دے دیا۔ عباس ناصر اگلے روز دفتر (ڈان ہیڈ آفس، کراچی) وقت سے کچھ پہلے آ گئے۔ ابھی انہوں نے اپنی ای میلز چیک کرنی ہی تھیں کہ اتنے میں اسلام آباد سے مطیع کی کال آ گئی۔ رپورٹر نے اپنے ایڈیٹر سے پوچھا کہ آیا وہ اس کی خبر شائع کریں گے یا نہیں۔ عباس ناصر نے بتایا کہ ضرور شائع کروں گا لیکن منیر اے ملک کی رائے آ جانے کے بعد۔ مطیع نے عباس ناصر کو بتایا کہ انہوں نے منیر اے ملک سے پہلے ہی معلوم کر لیا ہے۔ انہوں نے خبر اوکے کر دی ہے۔

عباس ناصر یہ سن کر آگ بگولا ہو گئے کہ ان کے ماتحت رپورٹر کی جرات کیسے ہوئی کہ وہ خود وکیل سے بات کرے۔ کیا اسے اپنے ایڈیٹر پر اعتبار نہیں تھا؟ عباس ناصر لکھتے ہیں کہ اس بات پر ان کے اور مطیع کے درمیان شدید تلخ کلامی ہوئی۔ عباس ناصر کی جگہ کوئی عام سا یا غیر پیشہ ور ایڈیٹر ہوتا تو مطیع جیسے رپورٹر کو نوکری سے فارغ کر دیتا یا اس خبر کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتا۔ لیکن اگلے دن یہ خبر ڈان کے فرنٹ پیج پر چھپی اور چھپتے ہی ہنگامہ برپا کر دیا۔ عباس ناصر لکھتے ہیں کہ وہ وقتی طور پر مطیع کی حرکت پر شدید سیخ پا ہوئے تھے۔ لیکن بعد میں انہیں احساس ہوا کہ مطیع نے یہ حرکت اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ اپنے پیشے کے ساتھ عشق اور لگن کی وجہ سے کی۔ یہ واقعہ ایک رپورٹر اور ایک ایڈیٹر کی اپنے پیشے کے ساتھ وفاداری اور کمٹمنٹ کی ایک روشن مثال ہے۔

پاکستان میں مطیع اللہ جان جیسے صحافیوں کو آپ انگلیوں پہ گن سکتے ہیں۔ عمرانی حکومت ہو یا شہبازی دور ہو، ریاست ہر دور میں مطیع جیسے صحافیوں کے ساتھ یکساں سلوک کرتی ہے۔ مطیع جیسے صحافیوں کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ انہیں اس سماج میں سچ بولنا ہے جس سماج میں سچ بولنا جرم ہے۔ مطیع وہ ہے جس کا اوڑھنا بچھونا ہی صحافت ہے۔ میدانِ صحافت میں اصولوں اور ایمانداری کی خاطر مطیع کو کیا کیا نہ جھیلنا پڑا۔ اپنا گریباں پروگرام میں مطیع نے اپنے ساتھی صحافیوں کو بھی نہ بخشا۔ کبھی ایک چینل سے بے دخلی تو کبھی کسی اخبار کی ملازمت سے ہاتھ دھوئے۔ مطیع وہ صحافی ہے جس کی تصویر پاکستان میں موجود حقیقی بادشاہت کے ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس میں لہرائی تھی۔ اس کے بعد مطیع اور اس کے بیوی بچوں کو دس سال تک مسلسل ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ کار پر اینٹوں سے حملہ ہوا۔ لمبے عرصے تک بے روزگاری برداشت کی۔ پھر 2020 میں اٹھا لیا گیا۔ لیکن مطیع تھا کہ اصولوں پر ڈٹا رہا۔ آج بھی ایک پرانی گاڑی پر سفر کر نے والا اور چھوٹے سے گھر میں رہنے والا یہ صحافی اپنے پیشے کی حرمت اور عظمت کی خاطر اپنی اور اپنے گھر والوں کی جان جوکھوں میں ڈالے ہوئے ہے۔

مطیع کا جرم کیا ہے؟ یہی نا کہ اس نے پی ٹی آئی کے حالیہ احتجاج میں ایک گاڑی کی ٹکر سے رینجرز اہلکاروں کی ہلاکت پر ایک شخص کا انٹرویو کیا جس نے خود کو ہلاک ہونے والے ایک اہلکار کا سگا بھائی بتایا۔ اگر اس شخص نے انٹرویو میں غلط بیانی کی تھی تو ریاستی اداروں کا فرض تھا کہ وہ ثبوت کے ساتھ اس شخص کے دعوے کو جھوٹا ثابت کرتے۔ اس کے بعد اگر پھر بھی مطیع اپنے کیے پر نادم ہو کر معافی نہ مانگتا تو آپ اس کا گریباں قانونی طریقے سے پکڑتے۔ لیکن ایک انٹرویو جسے ابھی آپ نے جھوٹا ثابت کرنا ہے اس کی بنیاد پر آپ ایک ممتاز صحافی پر ایک انتہائی بھونڈی اور من گھڑت ایف آئی آر درج کر دیں یہ کہاں کا اصول ہے؟

رہی بات پی ٹی آئی کے کارکنوں کی مبینہ ہلاکت کی تو اس معاملے کو حکومتی بیانات اور پی ٹی آئی کے دعووں نے متنازعہ بنا دیا ہے۔ حکومت نے دعوی کیا ہے کہ مظاہرین پر ایک گولی بھی نہیں چلی۔ لیکن بی بی سی کی حالیہ رپورٹ نے حکومت کے اس دعوے کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ اس معاملے کی تہہ تک جانے کے لیے آزادانہ اور شفاف تحقیقات ناگزیر ہیں جو ایک جوڈیشل کمیشن ہی کر سکتا ہے۔ لیکن حکومت ایسا کرے گی نہیں کیونکہ دال میں کافی کچھ کالا ہے۔

21 جولائی 2020 کی صبح مطیع کو جب عمران خان کے دور میں اٹھایا گیا تو اس وقت شہباز شریف، مریم نواز اور مسلم لیگ نون کے دوسرے رہنماؤں نے مطیع کے حق میں آواز اٹھا کر عمران خان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن آج اسی مطیع کے اغوا اور اس کے خلاف ایک من گھڑت ایف آئی آر پر چچا بھتیجی جو اس وقت وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلی ہیں کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ نہ 21 جولائی 2020 کو مطیع کو اس وقت کے وزیرِ اعظم کی ہدایت پر اٹھایا گیا تھا اور نہ 27 نومبر 2024 کو موجودہ وزیرِ اعظم کے حکم پر اٹھایا گیا ہے۔

شراب یا کسی اور نشے کا ذکر ہی کیا، مطیع اللہ جان تو وہ ہے جو سیگرٹ تک نہیں پیتا۔ لیکن پھر بھی اس ریاست نے ایسے اجلے شخص پر آئس جیسی منشیات رکھنے اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت ایک مضحکہ خیز مقدمہ درج کر کے اپنی ذلت و رسوائی کا ساماں کیا ہے۔ مطیع جیسے صحافی ہر دور میں حزبِ اقتدار کے ناپسندیدہ اور حزبِ اختلاف کے پسندیدہ ہوتے ہیں۔ یہی ایک کھرے اور حقیقی صحافی کی پہچان ہے۔ عمران خان کے دور میں مطیع اللہ جان پی ٹی آئی کے لیے برا اور مسلم لیگ نون کے لیے اچھا تھا۔ آج پی ٹی آئی والے مطیع کے گن گا رہے ہیں اور مسلم لیگ نون والے اس سے ناخوش ہیں۔ عمران خان جب وزیرِ اعظم تھے تو انہوں نے ٹویٹر سے حامد میر کو بلاک کر دیا تھا۔ آج وہ جیل میں ہیں اور ان کی جماعت حامد میر کے گیت گا رہی ہے۔

جیسا کہ دنیا جانتی ہے کہ مطیع کے خلاف ایک جھوٹا اور من گھڑت مقدمہ درج ہوا ہے لیکن پھر بھی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے مطیع کو دو دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ پراسیکیوٹر صاحب نے تیس دن کا ریمانڈ مانگا تھا جیسے کوئی بہت بڑا دہشت گرد اور دنیا کا بہت بڑا منشیات فروش پکڑ لیا ہو۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے راولپنڈی کی اس عدالت کا ریمانڈ منسوخ کر دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگلے دو تین دنوں میں اس من گھڑت مقدمے سے مطیع کی ضمانت ہو جائے گی۔

کل جب مطیع کو راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا تو وہاں ملک کے ایک اور دلیر اور قابل صحافی اعزاز سید نے جہاں ایک طرف پبلک پراسیکیوٹر راجہ نوید کی مٹی پلید کر کے رکھ دی وہاں مطیع کے چہرے اور آنکھوں سے چھلکنے والی استقامت اور بلند حوصلگی دیکھ کر مجھے فیض صاحب کی یہ نظم یاد آ گئی۔

چشمِ نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشقِ پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پا بجولاں چلو
دست افشاں چلو، مست و رقصاں چلو
خاک بر سر چلو، خوں بداماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو
حاکمِ شہر بھی، مجمعِ عام بھی
تیر الزام بھی، سنگِ دشنام بھی
صبحِ ناشاد بھی، روزِ ناکام بھی
ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے
شہرِ جاناں میں اب با صفا کون ہے
دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے
رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments