جمہوریت، فاشزم اور کمیونزم
ڈاکٹر خالد سہیل کا سوال۔ محترمہ معظمہ سارہ علی صاحبہ سیمینار کے بعد میں چاہتا ہوں کہ آپ جمہوریت، فاشزم اور کمیونزم ان تینوں نظاموں کے بارے میں اپنی رائے اور ان کا فرق ان کی چند مثالوں کے ساتھ ایک مضمون میں قلمبند کر کے اپنی رائے سے آگاہ کریں
فاشزم
جہاں تک فاشزم کا تعلق ہے تو ڈاکٹر صاحب میں سمجھتی ہوں فاشزم صرف ملکوں کے حکمرانوں تک ہی نہیں ہمارے گھروں میں پدر سری معاشروں میں بھی موجود ہے مجھے لگتا یہ ہر شدت پسند انسان کی نفسیات میں فاشزم بسی ہے اور جس دن اس انسان کے ہاتھ طاقت آتی ہے تو وہ اپنے فیصلوں کو دوسروں پہ مسلط کرتا ہے۔ میرے نزدیک فاشزم ایک انسان یا جماعت کی مطلق العنانی کا نام ہے جس میں وہ صرف اپنے نظریات کو برحق اور باقی سب کو غلط سمجھتا ہے اور معاشرے کی مارجینلائزڈ کمیونٹی سب سے زیادہ ان کے غصے اور غیظ و غضب کا شکار ہوتی ہے۔
ان میں خواتین، اقلیتیں، ٹرانس جینڈر اور LGBTQ کے لوگ شامل ہیں۔ لیکن اس کی خاصیت مذہب کے نام پر ان کمیونیٹیز کا استحصال ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام طبقات جو معاشی طور پر کمزور ہیں ان کا مزید استحصال کیا جاتا ہے اور ایک ایسا طبقہ وجود میں آتا ہے جو اس حکمران کے خیالات کا پرجوش حامی ہوتا ہے اور ان خیالات سے انحراف کرنے یا کوئی متبادل نظریے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر صاحب مزے کی بات یہ ہے کہ اس کی مثال کے لیے میسولینی اور ہٹلر کی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن دنیا میں پچھلے دس سالوں میں اسی کی modified form نے جنم لیا ہے جس کو نیو فاشزم کہا جاتا ہے اس کے نتیجے میں جنم لینے والے شخصیات اور حکومتوں کی خاصیت ان کا رائٹ ونگ کے مخصوص خیالات کی طرف جھکاؤ، مذہبی جنونیت کو ہوا دینا، امیر طبقات سے ان کی قربت اور ان کو ٹیکس میں چھوٹ اور دیگر مراعات کی فراہمی تھی ان کی مڈل کلاس یا لوئر کلاس سے کوئی ہمدردی نہیں ہے اور اس ہمدردی کو جیتنے کے لیے انہوں نے ان کے خوف سے کھیلا ان کو بتایا گیا کہ ان کی پریشانیوں کی وجہ ایک غیر منصفانہ اقتصادی نظام نہیں بلکہ امیگرینٹ، ٹرانس جینڈر، لیسبین، گے، اتھیسٹ یا لیفٹ کے لوگ ہیں۔
اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مذہبی جذبات کو بھڑکایا گیا اور عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کے ایسی باتوں پر مرکوز کی گئی جن کی کوئی حیثیت نہیں ہے ان کے مسائل میں۔ نیو فاشزم اور فاشزم میں ساری چیزیں کامن ہیں سوائے ایک دو چیزوں کے۔ بیسویں صدی کا فاشزم بھی کیپٹلزم کے مضر اثرات کے اوپر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا تھا لیکن اس کا فائدہ صرف اس ملک کی اشرافیہ کو پہنچتا تھا۔ لیکن اکیسویں صدی کے نیو فاشزم میں کیپٹلسٹ متحد ہیں اور ملکوں کی سرحدیں ان کے مالی فائدے کے آگے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔
یہ ایک ٹرانس نیشنل کیپٹلسٹ فاشزم ہے جس میں عوام کے آگے دوسرے ممالک کو گالیاں دی جاتی ہیں لیکن اپنے مالی فائدے کے لیے یہ سب کیپٹلسٹ ایک ہیں۔ دوسرا جنگ اور استحصال کے ذرائع کو ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل کر دیا گیا ہے اس لیے ہم دیکھتے ہیں چاہے وہ یوکرین کی جنگ ہو یا فلسطین کی یا امیگرنٹ ڈی ٹینشن سینٹرز یہ سب وار مشینری پوری دنیا کی اقتصادی اسٹیبلشمنٹ کے لیے پیسہ بنا رہی ہے اس کی ایک جھلک ہم نے کووڈ کی وبا میں دیکھی جہاں ارب پتی اور کارپوریٹ تنظیموں کی دولت میں بلین آف ڈالرز کا اضافہ ہوا اور چھوٹے کاروبار کرنے والے تباہ ہو گئے، نوکریاں ختم ہونے کی وجہ سے جو مڈل کلاس تھے وہ بیروزگار ہوں اور بدحالی کا شکار ہوں اور غریب کھانے کے لیے ترسے جبکہ امیروں نے کووڈ پارٹیز میں اور پیسے کو اربوں سے ملٹی پلائی کیا۔
بے تحاشا اسلحہ خریدا اور فروخت کیا جا رہا ہے عوام کو ڈر بیچ کے۔ تیسرا نیو فاشزم میں اس پیسے کی ٹیک انڈسٹری میں بے تحاشا انویسٹمنٹ ہے اس کی تازہ ترین مثال آپ کو ٹرمپ کی الیکشن ریلی میں ایلون مسک کی چھلانگیں لگاتی تصویریں ہیں۔ انہوں نے ٹرمپ کی الیکشن کمپین میں بلین ڈالرز کی انویسٹمنٹ کی ہے اس کے بدلے میں ان کی خلائی کمپنی کو بلین آف ڈالرز کے خلائی کانٹریکٹ ملنے کی امید ہے کہ اب خلا میں کس کی فوجی برتری ہوگی یہ اس کی جنگ ہے۔
ڈاکٹر صاحب نیو فاشزم میں ایک پرسنٹ امرا دنیا کی 80 پرسنٹ دولت اور وسائل کو کنٹرول کر رہے ہیں جو بیس پرسنٹ بچ رہا ہے وہ مڈل کلاس کو ٹریکل ڈاؤن ہو رہا ہے اور وہ بھی معاشی بدحالی کی وجہ سے اپنا سروائیول مشکل میں پا رہے ہیں اب جب اس سفید پوش طبقے میں بے چینی کے اثرات نمودار ہونا شروع ہوتے ہیں تو ان کی بے چینی کو قابو کر نے کے لیے ٹرمپ مودی عمران خان جیسے بڑ بولے سیاستدان تعمیر کیے جاتے ہیں جو ایسی اسکیپ گوٹ عوام کے سامنے لا سکیں کہ عوام اپنے مسائل بھول کر ان کے پیچھے لٹھ اٹھا کر بھاگنا شروع کر دیتے پاکستان میں توہین کے نام پر، انڈیا میں کاسٹ گائے مذہب کے نام پر لنچنگ ہو رہی ہے اور امریکہ یورپ میں امیگرینٹ LGBTQ اور عورتوں کی شامت ہے بالکلُ کسی بھی تیسری دنیا کے ملک کی طرح سے وہاں کے اپر مڈل کلاس گورے کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ جو آسائشیں آپ کے ہاتھوں سے پھسل رہی ہیں یہ curry کی smell کرتے امیگرنٹ کی وجہ سے ہے اور جو آپ کے بچے بگڑ رہے ہیجان کا شکار ہیں اور پڑھ نہیں رہے اس کی وجہ حکومتی فنڈنگ کی عدم دستیابی سے بدحال پلک ایجوکیشن سسٹم نہیں بلکہ یہ LGBTQ والے ہیں اور آپ کی عورتوں کو اپنے جسم کا حق دینا والا ابارشن کا قانون ہے اور جو غریب ہیں وہ تو ویسے ہی آسان ہدف ہیں ان کی بیسک ویج بڑھانے کی، free universal healthcare کی، free public education، free university education کی small business کے لیے لون کی امیروں کو ٹیکس کرنے کی غریبوں کو ٹیکس سے استثنا دینے کی بات آپ کو نہ جارجیا میلونی کی کمپین میں نظر آئے گی نہ انڈیا میں مودی کی نہ امریکا میں ٹرمپ کی، نہ فرانس میں ماریہ لی پین کی کمپین میں یہ سب ایمرجنگ نیو فاشزم کی مثالیں ہیں۔ میں صرف اس میں یہ اضافہ کرنا چاہتی ہوں کہ بادشاہت اور مذہب کے نام پر قائم کی گئی حکومتیں بھی فاشزم کے زمرے میں آتی ہیں اس لیے افغانستان کے طالبان، سعودی عرب، اسرائیل اور ایران کی حکومتیں فاشسٹ ہیں اور برطانیہ میں یہ جو ڈمی بادشاہ موجود ہے یہ مدر آف ڈیموکریسی کے منہ پر طمانچہ ہے جہاں پبلک ہیلتھ کیئر بحران کا شکار ہے وہاں بادشاہت کے اوپر اربوں خرچ ہو رہا ہے روایات کے نام پر۔
ڈاکٹر صاحب نیو فاشزم میں معاشی وسائل کا دفاع سب سے ضروری امر ہے ہم دیکھتے ہیں کہ یہودی لابی کے آگے سارا ویسٹ مجبور ہے اور اسرائیل چاہے کسی قسم کی بربریت کا مظاہرہ کرے ان کی حکومتیں اس کا دفاع کرنے کے لیے حاضر ہیں حتی کہ عرب ممالک بھی منہ سے چاہے کچھ کہیں وہ ایک منٹ کے لیے بھی اپنے معاشی تعلقات اسرائیل سے منقطع نہیں کرتے یہ پولیٹیکل اور اکنامیکل نیکسس ہے جو دیو بن کر تمام انسانی حقوق کو تہہ و بالا کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر صاحب اس نیو فاشزم کی سب سے خطرناک بات اس کا ایسی روایات کا فروغ ہے جس میں کام کرنے والی ورکنگ کلاس کو بھکاریوں کی مانند سمجھا جاتا ہے جبکہ اس میں ہر طرح کی لوٹ کھسوٹ کرنے والے چاہے فیوڈل ہوں سرمایہ دار یا بزنس میں ان کا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے گہرا گٹھ جوڑ ہوتا ہے اور اس گتھ جوڑ کی وجہ سے عوامی مسائل پیچھے رہ جاتے ہیں اور ان سب اتحادیوں کا پیسہ بنانا اور زیادہ سے زیادہ پیسہ بنانا اولین ترجیح ہوتی ہے۔
اس لیے آپ دیکھیں گے کہ ان سب حکومتیں میں ہر طرح کا کیپٹلسٹ پیسہ بناتا ہے اور پھر اس کو سوشل میڈیا پر گلوریفائی کیا جاتا ہے یہ اتنا خطرناک رجحان ہے کہ ساری دنیا کی نئی نسل صرف منٹوں میں ارب پتی بننا چاہتی ہے وہ بھی فوراً اور ورکنگ کلاس کی moral ethical values ایک مذاق بنتی جا رہی ہیں اور instant money by hook and crook نیا فارمولا ہے دانائی اور کامیابی کا مذہب کا تڑکہ لگا کر۔
سچ، علم دانش کی جگہ پہلے ہی کم تھی اب مزید کم ہو گئی ہے المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ان vampires کو اپنا خون پلاتا دیکھ رہے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس دنیا کو تباہی کے منہ میں چاہے وہ climate change کی صورت میں ہو یا extremism کی صورت میں ہو بے رنگ و نور ہوتا پا رہے ہیں اور لاکھ سر مارنے کے باوجود اس کا توڑ کرنے میں ناکام ہو رہیں کیونکہ اس فاشزم کی جڑ کیپٹلزم کے ہم سب دل ہی دل میں پرستار ہیں اور ہم میں سے کوئی بھی مزدور کسان لیبر یونینز کو ان کا حق نہیں دینا چاہتا ہم اپنی دولت کی منصفانہ تقسیم نہیں چاہتے ہم سب امیروں کے جوتے چاٹ کر دل ہی دل میں ان جیسا امیر بننے کی خواہش رکھتے ہیں اسی طرح کا طرز زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور کیونکہ یہ ہم سب کی چھپی ہوئی خواہش ہے اس لیے ہمیں اس نیو فاشزم کی بدولت ابھرتی ہوئی ultra rich billionaire کلاس اتنی عزیز ہے۔
اور تب حبس کے قہر ماں موسموں کے عذاب ان زمینوں پہ بھیجے گئے
اور مُنادی کرا دی گئی
جب کبھی رنگ کی خوشبوؤں کی اُڑانوں کی آواز کی اور خوابوں کی توہین کی جائے گی
یہ عذاب اِن زمینوں پہ آتے رہیں گے
- ذہن تنہائی، انٹروورٹ یا کریٹوی منورٹی - 12/01/2025
- جمہوریت، فاشزم اور کمیونزم - 29/12/2024
- جمہوریت، فاشزم اور کمیونزم - 02/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).