نوبل انعام یافتہ کورین مصنفہ ہان کانگ کا ناول شاکا ہاری


Shahzad Hussain Bhatti Lahore

ہان کانگ جنوبی کوریا کی ایک معروف اور باصلاحیت مصنفہ ہیں جنہوں نے اپنی منفرد اور تخیلاتی نثر کی وجہ سے عالمی سطح پر شہرت حاصل کی۔ وہ 27 نومبر 1970 کو جنوبی کوریا کے شہر گوانگجو میں پیدا ہوئیں، لیکن ان کا بچپن سیول میں گزرا۔ ہان کانگ کا ادبی سفر ان کے انگریزی ادب کے مطالعے اور شاعری کے شوق سے شروع ہوا، جس نے انہیں کہانیوں اور ناول نگاری کی جانب راغب کیا۔ ہان کانگ نے اپنے ادبی کیریئر کا آغاز 1990 کی دہائی میں کیا۔ 1995 میں ان کا پہلا کہانیوں کا مجموعہ شائع ہوا۔ وہ اب تک چھ ناول تحریر کر چکی ہیں۔ 2016 میں انہیں شاکا ہاری پر مین بکر انٹرنیشنل پرائز دیا گیا اور 2024 میں انہیں ادب کے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا ہے۔

شاکا ہاری 2007 میں پہلی بار کوریائی زبان میں چھپا۔ ڈیبورا اسمتھ نے 2015 میں اس کا انگریزی ترجمہ کیا اور 2024 میں اسما حسین نے اسے اردو میں منتقل کرنے کے فرائض انجام دیے۔ پاکستان سے چھپنے والے اس اردو ایڈیشن کے 210 صفحات ہیں اور یہ 3 ابواب پر مشتمل ہے۔

شاکا ہاری ہان کا ایک دل گداز اور پیچیدہ ناول ہے جو انسانی نفسیات، سماجی توقعات، اور ذاتی آزادی کے تصورات پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس تصنیف کو عالمی ادب کی ایک منفرد اور گہرائی میں ڈوبی ہوئی تخلیق کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ ایک منفرد کہانی ہے جس میں تبدیلی اور بغاوت کی داستان کو ایک غیر روایتی انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ مصنفہ نے اس میں ایک ایسا جائزہ پیش کیا ہے کہ کس طرح مرکزی کردار یونگحے کا گوشت ترک کر دینے کا فیصلہ اس کی اور اس کے آس پاس رہنے والوں کی زندگیوں میں بھونچال پیدا کر دیتا ہے۔

ناول کی کہانی جنوبی کوریا کی ایک عورت، یونگحے، کے گرد گھومتی ہے، جو اپنی زندگی کے ایک اہم لمحے میں گوشت کھانے سے انکار کر دیتی ہے۔ یونگحے کے لیے یہ فیصلہ ذاتی آزادی کا عمل ہے، لیکن یہ عمل اس کے خاندان، سماج، اور حتیٰ کہ اس کے اپنے وجود پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔

ناول کا پہلا حصہ یونگحے کے شوہر کی زبان سے بیان کیا گیا ہے۔ وہ ایک عام کوریائی مرد ہے جو اپنی شریک حیات کے گوشت ترک کر دینے کے فیصلے کی وجہ سے ورطہ حیرت میں ہے اور وہ اس عمل کو ناصرف عجیب بلکہ شرمناک بھی سمجھتا ہے۔ یونگحے فرمانبردار اور گھریلو خاتون ہے اور ہر وقت اپنے کام میں مشغول رہتی ہے لیکن اس کا خواب جس میں خون اور گوشت سے بھرے ہوئے مناظر ہیں اس کے شخصیت میں شدید تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ شوہر کی نظر میں یہ تبدیلی ایک بغاوت ہے جو سماجی اصولوں کے برخلاف ہے۔ اس حصے میں اختیارات اور روایات کی پاسداری کے علاوہ سماجی اصولوں کی کمزوری جیسے موضوعات کو نمایاں کیا گیا ہے۔

دوسرا حصہ جنونی بہنوئی کے نقطہ نظر سے بیان کیا گیا ہے۔ وہ ایک فن کار ہے۔ وہ یونگحے کو ایک آرٹ پراجیکٹ کا حصہ بنانا چاہتا ہے اور اس کے ساتھ ایک غیر معمولی رشتہ قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ یونگحے کی سماج سے بڑھتی ہوئی لاتعلقی اور اس کی غیر معمولی شخصیت سے متاثر ہو کر اس پر شدت سے قابض ہو جاتا ہے۔ وہ ایک جدید آرٹ کا منصوبہ تخلیق کرتا ہے، جس میں یونگحے کے برہنہ جسم پر پھولوں کی تصاویر بنانا اور ان کے قریبی لمحات کو کیمرے میں ریکارڈ کرنا شامل ہے۔ اس حصے میں کہانی جنسیت، جسمانی آزادی اور فنکارانہ جنون کی حدوں کو چھوتی ہے۔

تیسرا حصہ یونگحے کی بہن انحے کے مطمح نظر سے آگے بڑھتا ہے۔ یہ حصہ جذباتی طور پر کچھ زیادہ ہی پُر اثر ہے، کیوں کہ انحے اپنی بہن کی حالت پر غور کرتے ہوئے اپنی زندگی کی قربانیوں اور ناکامیوں پر غور کرتی ہے۔ اس حصے میں یونگحے نہ صرف گوشت سے نفرت کرتی ہے بلکہ انسانی وجود کے کئی پہلووں کو بھی ترک کر چکی ہوتی ہے اور درخت میں تبدیل ہو جانے کی خواہش کا اظہار کرتی ہے۔ یہ حصہ خاندانی تعلقات، گناہ کے احساس اور انفرادیت و بغاوت کے اثرات کا عمیق جائزہ پیش کرتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ یونگحے کا سبزی خور بننے کا فیصلہ محض ایک غذائی انتخاب نہیں ہے بلکہ یہ سماجی توقعات، پدرشاہی اختیارات، اور ثقافتی روایات کے خلاف بغاوت کی ایک علامتی جستجو ہے۔ یہ فیصلہ سماجی جبر کے خلاف بغاوت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ناول ذہنی صحت کے مسائل کی الجھی ہوئی گُتھی کو بھی قارئین کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یونگحے کا کردار اور اس کے خواب قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ سماجی توقعات انسان کی ذہنی حالت کو کس طرح متاثر کر سکتی ہیں۔ اس کے اردگرد موجود لوگوں کی بے حسی اور سمجھ بوجھ کی کمی معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ یہ صورت حال اختلافات کو قبول کرنے یا سمجھنے میں معاشرتی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔

دوسرے حصے میں آرٹ اور جسم کے تعلق کو ایک نئے ڈھنگ سے پیش کیا گیا ہے۔ یونگحے کے بہنوئی کا کردار یہ سوال اٹھاتا ہے کہ فنکارانہ آزادی اور انسانی اخلاقیات کے درمیان فرق کو کیسے واضح کیا جا سکتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یونگحے کا جسم مختلف قوتوں، سماجی اصولوں، فنکارانہ اظہار اور خاندانی توقعات کا میدانِ جنگ بن جاتا ہے۔ یہ اس بات کو اُجاگر کرتا ہے کہ خواتین کے جسموں کو دوسروں کے زیرِ اثر شے کو طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ ناول جنوبی کوریا کے روایتی معاشرے میں خواتین کی حالت، ان کے حقوق، اور ناجائز توقعات پر بہترین تبصرہ ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ہان کانگ کی نثر شاعرانہ اور اختصار پر مبنی ہے۔ اس کے موضوعات عام طور پر انسانی جسم، ذہنی کشمکش اور خوابوں کی علامتی تعبیر کے گرد گھومتے ہیں۔ اس کے اسلوب کی خاص بات یہ ہے کہ وہ سادہ زبان میں پیچیدہ موضوعات پر گہری گفتگو کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مذکورہ ناول میں خوابوں کی علامتیں، جیسے کہ خون گوشت اور درخت نہ صرف کرداروں کے نفسیاتی مسائل کو ظاہر کرتی ہیں بلکہ کہانی کو ایک تجریدی وسعت بھی فراہم کرتی ہیں۔

اس میں دو رائے نہیں کہ شاکاہاری کو جدت، جذباتی گہرائی، اور ممنوعہ موضوعات کی جرات مندانہ عکاسی کے لیے وسیع پیمانے پر پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ناقدین نے سماجی اصولوں کے بے باک تجزیے اور قارئین کو بے چین کرنے اور خود احتسابی پر مجبور کرنے کی ہان کانگ کی صلاحیت کو سراہا ہے۔ البتہ ڈیبورا اسمتھ کے انگریزی ترجمے پر بعض ناقدین کی تنقید بھی موجود ہے۔ ان کے مطابق ترجمہ اصل متن کی شاعرانہ نثر اور جذباتی گہرائی کو منتقل کرنے سے قاصر رہا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ثقافتی حساسیت کے فقدان کی وجہ سے قارئین کو وہ لطف نہیں مل سکا جو کورین زبان کے قارئین نے حاصل کیا ہے کیوں کہ کچھ جگہوں پر اصل متن کی اساس اور معنویت پسِ پردہ چلی گئی ہے۔

قصہ مختصر شاکا ہاری ایک غیر روایتی اور چبھتا ہوا ناول ہے جو قاری کو نہ صرف کہانی کے کرداروں بلکہ خود اپنی زندگی پر بھی غور فکر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ مصنفہ نے اس میں سماجی ضوابط اور انسانی فطرت میں پائی جانے والی کشمکش کو ماہرانہ انداز سے پیش کیا ہے۔ وہ سوال کرتی ہے کہ کیا اس سماج میں ایک شخص کو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟ بہرحال ناول میں خوابوں اور حقیقت کے امتزاج سے پیدا ہونے والی صورتحال سے قاری ایسے انسانی جذبات سے آگاہ ہوتا ہے جن سے وہ لرز کر رہ جاتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments