ہزارہ داستان اور ادبی میلہ
خیبر پختونخوا کا ہزارہ تاریخی، سیاسی، علمی، ادبی اور ثقافتی جہتوں سے مالامال ہے۔ دوسری صدی عیسوی کے راجہ رسالو کے داستان اور ذکر، اپریل 326 قبل مسیح میں سکندر یونانی کے ضلع بٹگرام تھاکوٹ کے مغرب میں، حالاً ضلع شانگلہ میں واقع ’پِیر سر‘ یا موجودہ بونیر کے کوہ ایلم کے آخری محاصرہ، جس کو یونانی مورخین بلندی اور الگ تھلگ ہونے کے باعث ’اورنوس‘ یعنی ’ماورا پرواز‘ لکھتے ہیں، سے لے کر مانسہرہ میں اشوکا سے منسوب خروشتی، پالی، براہمی یا گندھاری رسم الخط کے کندہ چودہ تعلیمات، ترک شاہی اور ہندوشاہی، 1399 ع میں تیمور اس علاقہ کو فتح کرنے کے بعد اپنے مقامی سردار ہزارہ کرلوغ/ کرلوک کے حوالہ کرنے، اور احمد شاہ ابدالی کی سرپرستی میں پانی پت میں لڑنے والے زبردست خان تنولی/ صوبہ خان کی ریاست امب کے وجود و عروج، سکھا شاہی کے عروج و زوال اور ان کے خلاف مزاحمت کی داستانیں یہاں سنگ و خشت پر کندہ اور تاریخ کی پرتیں کھولتی نظر آتی ہیں۔
مزید برآں ہزارہ کو یہ اختصاص بھی حاصل ہے کہ اپنی آغوش کو شہدائے تحریک سید احمد شہید کے میرِ قافلہ کے مزار کے تقدس و تبرک سے بھی مزین رکھا ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد اقبال کی کتاب بانگِ درا میں شامل نظم ’ابر‘ بھی یہیں تخلیق کی گئی اور جیمز ایبٹ کی انگریزی نظم ’ایبٹ آباد‘ بھی ادھر ہی لکھی گئی۔ ڈاکٹر محمد اقبال بھی اپنی اس نظم میں اس خطہ ارضی کے قدرتی حسن کے اسیر نظر آتے ہیں اور جیمز ایبٹ بھی اسی شہر کے خارجی حسن پر فکری ارتکاز کیے بیٹھے ہیں۔
میجر ایبٹ آخری دو اشعار میں اپنے آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے اس شہر کی یادوں کو اپنے دل کا ابدی مکین بناتے ہیں۔ سیاسی اور ادبی محاسن کے علاوہ مادی ترقی کے دوڑ میں بھی اس شہر نے سرعت سے ترقی کے منازل بھی طے کی۔ مزید تاریخی حیثیتوں اور پس منظر کو سا منے لانے کے لیے پروفیسر شیر بہادر پنی کی کتاب کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔
شارحِ خیام و حافظ و اقبال مرحوم میر ولی اللہ ایبٹ آبادی، نغمہ نویس قتیل شفائی، صنائع و بدائع میں یکتا پروفیسر صوفی عبدالرشید، شیخ الہند مولانا محمود حسن کے پروردہ اور علم حدیث میں مولانا انور شاہ کشمیری کے تربیت یافتہ مولانا غلام غوث ہزاروی، شیخ الحدیث مولانا غلام نبی شاہ، علامہ سعید الرحمان خطیب اوگی، عربی، فارسی، اردو، پشتو اور شینا کے شاعر مولانا غلام النصیر چلاسی بابا، عوامی مزاحمتی شاعر محمد اسرائیل مہجور، ہندکو شاعر سلطان سکون، محقق پروفیسر محمد ارشاد، سعید ناز، آصف ثاقب، پروفیسر محمد زمان مضطر اور پشتو کے پروفیسر ڈاکٹر اسماعیل گوہر، محمد اقبال خان، پروفیسر ڈاکٹر خلیل الرحمان وغیرہم کی ایک طویل فہرست بن جاتی ہے۔ مانسہرہ اور بٹگرام میں پشتو ادب کی ترویج کے لئے بھی بہت منظم کوششیں جاری ہیں۔ جب ہزارہ کے علم و ادب کی تاریخ لکھی جائے گی تو یہی اربابِ قلم و قرطاس خشت ہائے اول کا کام دیں گے۔
ادبی تنظیم بزمِ علم و فن، پاکستان، (ہزارہ شاخ) ہزارہ کے علمی و ادبی روایت کو زندہ و تابندہ رکھی ہوئی ہے۔ ان مثبت سرگرمیوں کو عملی بنانے کے پیچھے جہاں اہم تعلیمی ادارہ ماڈرن ایج کے روح رواں عبدالواحد میر کی انتھک کوششیں کار فرما ہیں وہاں مشفق اور کہنہ مشق شاعر احمد حسین مجاہد، امان اللہ خان، نقاد و محقق ڈاکٹر عامر سہیل، قمر زمان، عبدالوحید بسمل، ڈاکٹر عادل سعید قریشی اور دوسرے رفقاء کی محنت شاقہ بھی شامل ہے۔
بزم کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ یہاں مرحوم یوسفی صاحب کے علاوہ صاحبان ِقلم و قرطاس مختار مسعود، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، احمد فراز، منیر نیازی، امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی، مستنصر حسین تارڑ، پروفیسر محسن احسان، پروفیسر خاطر غزنوی، پرتو روہیلہ، شوکت واسطی، انور مسعود اور دیگر ادبی اکابر کی تشریف آوری اور روشن افکار سے در افشانیوں کا ایک لامختتم سلسلہ جاری رہا۔
دوسرے ادبی میلہ کا انعقاد جہاں متعدد دیگر محاسن کو جنم دینے کا ذریعہ بن رہا ہے وہاں پاکستانی زبانوں، فنون لطیفہ، اور تعلیم و تعلم کی مثبت سرگرمیوں کو فروغ دینے میں ایک فیصلہ کن کردار بھی ادا کر رہا ہے۔ جن کی بدولت نوجوان لکھاریوں اور طلباء کی خفتہ صلاحیتیں ایک غیر محسوس انداز میں نکھر کر پروان چڑھتی ہیں۔ تقریب میں جہاں ملک بھر سے علم و ادب کے اہم شخصیات مدعو و موجود تھیں وہاں اردو اور انگریزی کے علاوہ پاکستانی زبانوں پشتو اور ہندکو بھی نظر انداز نہیں ہوئیں۔
ابتدائی نشست میں معروف غزل گائیک ٹینا ثانی مہمان خصوصی تھیں اور ادبی مباحثہ میں ڈاکٹر صنوبر کے افسانے کا ادبی مطالعہ مختصراً محترمہ سمیرا واحد نے پیش کیا۔ جبکہ پینل ڈسکشن ’پاکستان میں ادبی اور فنی اظہار کا ارتقاء : جدید دور میں پاکستانی خواتین کے مواقع اور دشواریاں‘ کے عنوان سے مباحثہ میں شرکائے گفتگو محترمہ ٹینا ثانی، ڈاکٹر حمیرا اشفاق اور ڈاکٹر شازیہ ناصر رہیں۔
دوسرے دن ’دربار گلہائے رنگا رنگ‘ کے عنوان سے پروفیسر نازیہ خلیل عباسی کا تحریر کردہ اردو ڈرامہ پیش کرنے اور جناب محمد اویس کے اردو افسانہ کے بعد ’الف الفاظ، ت تلفظ‘ کی سرگرمی میں تعلیمی اداروں کے بچوں اور بچیوں کے درمیان اردو تلفظ کی صحیح ادائیگی و مسابقت خوش کن اور دلکش رہی۔ ’افسانوں اور کہانیوں کی دنیا‘ کے قصہ گویان نے اردو، پشتو، ہندکو، انگریزی قصوں سے سامعین کے دل جیت لیں۔ اگر اس نشست کے منتظم محقق و افسانہ نویس ڈاکٹر عادل سعید قریشی نے اپنے افسانہ سنانے کے ذریعے سے قدیم و جدید اور روایتی قصہ گوئی کی روایت تازہ کر دی تو عبدالوحید بسمل نے بھی اپنے مخصوص انداز میں ہندکو کہانی سنا کر سامعین کو محظوظ کیے رکھا۔ اس نشست میں رفیقِ کار محمد ارشد سلیم کا انہماک دیدنی تھا۔ مختار مسعود آڈیٹوریم میں مہمانِ اعزاز اور شاعر و ادیب احمد حسین مجاہد کی نگرانی میں طلباء اور شرکاء کے مقابلہ بیت بازی میں طلباء کی فنِ شعر گوئی اور میلان شعری پر مہر استناد ثبت کی۔
آخری نشست سہ لسانی مشاعرہ کی نظامت خوش گفتار محقق اور شاعر ڈاکٹر عامر سہیل نے بخوبی انجام دیے۔ جبکہ مہمانِ خصوصی معروف شاعر حسن عباس رضا اور مہمان اعزاز نامور مترجم محبوب ظفر صاحب تھے۔ دوران مشاعرہ ڈاکٹر عامر سہیل کے نپے تلے جملوں اور پرمزاح چٹکلوں نے اس نشست کو مزید جاندار اور شاندار رکھا اور مشاعرہ نے تو ایک الگ سماں باندھ دیا تھا۔
اس طرح کی ادبی تقریبات کے انعقاد سے امید کے چراغ روشن رکھے جا سکتے ہیں اور اندھیروں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ پس ’قدم قدم پر چراغوں کو جلائے رکھنے‘ کا یہ سفر بلا کسی تعطل کے جاری رکھنا چاہیے۔
- عبدالرحیم مجذوب: شاعر خوش نوا ( 1 ) - 20/01/2025
- میر حسن بابا کے چاربیتے : مختصر تجزیہ - 14/01/2025
- پشتو ادب میں چاربیتہ نویسی : مختصر مطالعہ - 29/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).