چتوڑ جسے چٹورگڑھ بھی کہا جاتا ہے
میری معلومات کے مطابق اس علاقے میں چتوڑ نامی ایک قلعہ بھی موجود ہے جو اپنی وسعت کی بنیاد پر ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں پیار اور محبت کی ایک لوک داستان بھی مشہور ہے۔ حال ہی میں اس موضوع پر پدماوت نامی ایک فلم بھی بنی ہے۔ یہ قلعہ کوٹا سے دو سو کلومیٹر مغرب میں واقع ہے۔ اس علاقے کی تاریخ انتہائی دلچسپ ہے اور اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتی ہے۔ اگر آپ کو تاریخ سے دلچسپی ہو تو آپ اسے ضرور پڑھیں۔ میں اس کا مختصر احوال یہاں پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو یقیناً آپ کو پسند آئے گا۔
چتوڑ اور اس کے ارد گرد کے علاقے کے بارے میں جاننے کے لیے میں نے دو کتابوں سے مدد لی۔ پہلی کتاب ابجیت سنگھ جھالا دھرمیندر کنور کی لکھی ہوئی ہے جس کا نام ہے Chittorgarh The Braveheart of Rajputana دوسری کتاب بھون سنگھ رانا کی کتاب Maharana Pratap ہے۔ ان دونوں کتابوں سے جو میں جان سکا وہ پیش خدمت ہے۔
چتوڑ، راجستھان کا ایک بڑا شہر ہے۔ اس کی تاریخ جاننے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہاں آٹھویں سے سولہویں صدی تک اس وقت کی ایک راجپوت ریاست قائم تھی جس کا نام میڈا پاٹا تھا اور اس کا دارالحکومت چتوڑ تھا۔ یہ علاقہ اب میواڑ میں واقع ہے۔ یہاں پر تاریخی چتوڑ قلعہ بھی موجود ہے جسے ہندوستان ہی نہیں بلکہ ایشیاء کا سب سے بڑا قلعہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس پر مسلمان حکمرانوں نے تین بار حملہ کیا۔ پہلی مرتبہ 1303 ء میں علا الدین خلجی، پھر 1535 ء میں گجرات کے بہادر شاہ اور آخر میں مغل بادشاہ اکبر نے 1568 ء میں اس پر قبضہ کیا۔ شکست کی صورت میں یہاں کی خواتین نے دشمن کے ہاتھ لگنے سے بچنے کے لیے جوہر یعنی بڑے پیمانے پر خود سوزی کے ذریعہ خودکشی کرنا پسند کیا۔
چتوڑ قلعہ کی تاریخ سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی اصل تاریخ کا کسی کو اندازہ نہیں ہے البتہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسے موریہ قبیلے کے بادشاہ چترنگا نے بنایا تھا۔ ایک اور بات جاننے کو ملتی ہے کہ اس وقت کی ایک ریاست گوہلا کے حکمرانوں نے آٹھویں صدی میں اس قلعے پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ سب زمانہ قدیم کی باتیں ہیں۔ ماضی قریب میں ہونے والے واقعات کے مطابق چودھویں صدی کی پہلی دہائی میں دلی کے حکمران علا الدین خلجی نے گوہلا بادشاہ رتنا سنگھ کو شکست دے کر قلعے پر قبضہ کیا۔ مسلمان حکمرانوں کی اس علاقے میں یہ پہلی پیش قدمی تھی لیکن یہ قبضہ زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکا۔ جلد ہی مقامی راجپوت سرداروں نے یہ قلعہ واپس لیے لیا۔ کسی دور میں اس قلعے پر رانا کمبھا اور رانا سانگا بھی قابض رہے۔
مغل حکومت کے مضبوط ہونے کے بعد یہ علاقے بھی مغلیہ سلطنت کا حصہ بن گئے۔ مغل شہنشاہ ہمایوں نے اس قلعے پر قبضہ کیا لیکن اس کا انتظام ایک مقامی راجپوت سردار کے حوالے کر دیا۔ مقامی راجپوتوں نے ایک مرتبہ پھر بغاوت کی اور اس دفعہ مغل بادشاہ اکبر نے اس قلعے کا محاصرہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔ یہ قبضہ مغلیہ سلطنت کے خاتمے تک برقرار رہا۔ حتیٰ کہ اس قلعے کو انگریزی صورت میں ایک نیا غیر ملکی حکمران مل گیا اور وہ صدیوں پرانی ریاست جس پر مقامی لوگ حکمرانی کرتے تھے آہستہ آہستہ مکمل طور پر غیر ملکی لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ جو کل حکمران تھے آج وہ ان کے درباری بن گئے۔
ایک بلند پہاڑی پر واقع ہونے کی وجہ سے یہاں کا موسم خاصا خوشگوار ہوتا ہے جو انگریزوں اور مغلوں کی پسندیدہ چیز تھی۔ یہاں مسلمان، آبادی کا پندرہ فیصد ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس علاقے میں سکھوں کی بھی بڑی تعداد آباد ہے اور اس کی وجہ اس علاقے کا پنجاب کے قریب ہونا ہے۔
قلعہ چتوڑ یونیسکو عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔ اس کا رقبہ سات سو ایکڑ کے قریب ہے۔ یاد رہے لاہور کے شاہی قلعے کا رقبہ پچاس ایکڑ ہے اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ قلعہ کتنا بڑا ہے۔ یعنی لاہور کے شاہی قلعے سے چودہ گنا بڑا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ قلعہ ایک دریا میں گرنے والی ندی کی وادی میں ایک اونچی پہاڑی پر واقع ہے جو زمین سے چھ سو فٹ بلند ہے۔ اس سے یوں لگتا ہے کہ یہ قلعہ ہر لحاظ سے محفوظ تھا۔
اس قلعے کی تاریخ کے بارے میں کئی متضاد باتیں ملتی ہیں جن میں سب سے اہم علا الدین خلجی کی چتوڑ فتح کرنے کے لیے ایک فوج کی قیادت کرنا ہے۔ اس جنگ میں اس قلعے کا آٹھ ماہ طویل محاصرہ کیا گیا۔ کچھ لوگوں کے بقول فتح کے بعد یہاں پر کئی ہزار مقامی ہندوؤں کو قتل کیا گیا اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بات درست نہیں ہے۔ تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ خلجی نے ایک راجپوت سردار کی خوبصورت ملکہ پدمنی جسے پدماوتی بھی لکھا جاتا ہے کو حاصل کرنے لیے چتوڑ پر حملہ کیا تھا اور اکثر مؤرخین نے اسے بھی افسانہ قرار دیا ہے۔
اس کہانی کے ساتھ یہ بات بھی جڑی ہوئی ہے کہ اس جنگ میں شکست کھانے کے بعد ہندو خواتین جن میں رانی پدمنی اور دیگر خواتین بھی شامل تھیں نے بڑے پیمانے جوہر کے ذریعے خودکشی کرلی تھی۔ اس واقعے کی صداقت پر بھی کئی لوگوں نے سوال اٹھائے ہیں۔ کیا سچ ہے کیا نہیں؟ لیکن ایک بات واضح ہے کہ یہ علاقہ صدیوں تک ہندوؤں کے ماتحت رہا اور جب دلی میں مسلمان حکمران آئے تو یہ علاقہ بھی ان کے ماتحت ہو گیا۔
ایک دیرینہ روایت یہاں بھی دہرائی گئی یعنی جس علاقے کو فتح کرنا اس کا نام بھی بدل دینا۔ علا الدین نے بھی اس علاقے کا نام اپنے چھوٹے بیٹے خضر خان کے نام پر ”خضر آباد“ رکھ دیا۔ اس کا بیٹا ابھی چھوٹی عمر کا تھا اس لیے اصل انتظام ملک شاہین نامی ایک غلام کے ہاتھ میں دیا۔ اس قلعے کی تاریخ بہت طویل ہے جس میں جنگوں کے علاوہ کچھ اور نہیں ملتا لیکن میں یہاں آپ کو اس قلعے کی تعمیر سے متعلق کچھ ایسا بتانا چاہتا ہوں جو میری نظر میں نہایت ہی حیران کن تھا۔
اس قلعے کی شکل مچھلی جیسی ہے۔ اس کی بیرونی دیوار کی لمبائی 13 کلومیٹر ہے۔ ایک پُل کے بعد ایک میدان اور ایک کلومیٹر سے بھی طویل دشوار گزار زِگ زیگ راستے سے گزرنے کے بعد یہ قلعہ واقع ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے ایک مشکل ترین راستے سے ہو کر جانا پڑتا تھا۔ دفاعی نقطۂ نظر سے یہ قلعہ انتہائی محفوظ تصور کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اس کے ارد گرد بے شمار مندر بھی موجود تھے جو اسے ناقابل تسخیر بنانے میں اہم کردار کرتے تھے۔ رانا کمبھا نے یہاں سات بڑے گیٹ بھی تعمیر کروائے، جنہوں نے اسے مزید مضبوط بنایا۔
اس قلعے کو ایک کمپلیکس کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ یہاں ستر کے قریب تاریخی عمارتیں موجود ہیں جن میں محلات، مندر، یادگاریں اور تالاب وغیرہ شامل ہیں۔ کہتے ہیں کہ پہلا پہاڑی قلعہ پانچویں صدی میں بنایا گیا تھا اور بعد میں کچھ تعمیرات بارہویں صدی میں بھی کی گئیں۔ سب سے اہم تعمیر پندرہویں صدی میں سیسودیا راجپوتوں نے کی۔ ان سب سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جہاں راجپوت میدان جنگ میں بہادری دکھاتے تھے وہیں تعمیرات میں بھی وہ کسی سے کم نہ تھے۔ میں یہ بات بھارت میں قائم مختلف عمارتوں کے بارے میں پڑھنے کے بعد کہہ رہا ہوں۔ اس قلعے کا سب سے مشہور مندر کالی ماتا کا مندر ہے جو آٹھویں صدی میں بنایا گیا۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایسے مندر ہیں جو ہزار سال سے بھی زیادہ پرانے ہیں۔ ان سب کے ساتھ دو اونچے ٹاور بھی موجود ہیں جن کی اونچائی چوبیس میٹر اور سینتیس میٹر ہے۔ ان سب کی تعمیر ٹیکنالوجی کا ایک ایسا شاہکار ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ صدیوں قبل بھی لوگ اتنی اونچی عمارتیں بنانے کے فن سے بخوبی آگاہ تھے۔
- ریاست الور: جس کے راجہ نے چھ رولز رائس کاریں خرید کر صفائی پر لگا دی تھیں - 07/01/2025
- کوٹہ: ایک انوکھی وجہ شہرت کا حامل قدیم اور جدید شہر - 19/12/2024
- راجھستان - 14/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).