ہوسٹل میں ”متعہ“ عارضی نکاح جائز، ڈاکٹر حسین اکبر کا بڑا دعویٰ
مذہب دنیا کا شاید واحد مظہر ہے جسے ہر کوئی اپنی اپنی بساط فکر میں اپنے حساب سے برتتا ہے اور یہ دعویٰ بھی ہوتا ہے کہ اسی کی تشریح و توضیح حقیقت کے عین مطابق ہے۔
گزشتہ دنوں ایک پوڈ کاسٹ سننے کا اتفاق ہوا، جس میں ڈاکٹر حسین اکبر جو غالباً فقہ جعفریہ سے تعلق رکھتے ہیں نے ایک چشم کشا انکشاف کر کے ہم ایسوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا، فرمانے لگے کہ ”ہوسٹل کے ایک کمرہ کے مکین لڑکا لڑکی محرم بننے کے لیے عارضی نکاح کر سکتے ہیں۔“ تفصیلی نقطہ پیش نظر ہے تاکہ سند رہے، فرماتے ہیں۔
ہمارے ہوسٹل میں لڑکے لڑکیاں اکٹھے رہتے ہیں، اگر اتفاق سے ایسا ہو گیا کہ ایک ہی کمرہ میں ایک لڑکا اور لڑکی رہتے ہیں تو انہیں محرم بننے کے لیے عارضی نکاح یعنی متعہ کر لینا چاہیے تاکہ وہ ایک دوسرے کے لیے جائز ہو جائیں۔ جب ان کا تعلیمی دورانیہ مکمل ہو جائے تو وہ الگ ہو جائیں، اس عارضی نکاح میں شرائط کی صورت میں وہ کچھ حدود قیود بھی طے کر سکتے ہیں، مثلاً کس حد تک ایک دوسرے کو چھونا ہے، بوس و کنار کی حد تک ہی رہنا ہے یا ہم بستری بھی کرنی ہے ”
سوال یہ ہے کہ کیا خواتین کے ساتھ ایک نارمل ریلیشن نہیں رکھا جاسکتا؟ کیا خاتون صرف سیکس کی کوئی مشین ہے یا انسان بھی ہو سکتی ہے؟ کیا مرد اور خاتون کا نارمل ریلیشن نہیں بن سکتا یا اس سے رشتہ صرف سیکس کی بنیاد پر ہی قائم کیا جا سکتا ہے؟ آپ کو یہ کس نے بتایا ہے کہ خواتین ہر وقت سیکس کے متعلق سوچتی رہتی ہیں اور دنیا کے باقی دھندے ان کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے؟
کیا دو اسٹوڈنٹس جو اپنے سپنوں کو پورا کرنے کے لیے نجانے کتنی اذیتوں سے گزر کر اس مقام تک پہنچتے ہیں وہ سب سے پہلے سیکس کرنے کا سوچیں گے؟ کیا دو بالغ انسانوں کے نارمل ریلیشن کو سیکس تک محدود کرنا کم ظرفی یا تنگ نظری نہیں؟ جب آپ کے ہاں اس قدر گنجائش موجود ہے تو یورپ کے ڈیٹ کلچر میں کیا برائی ہے؟ جہاں دو بالغ انسان ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتے ہیں، باہم ملاقاتوں میں ایک دوسرے کے ذوق، دلچسپیوں اور طبعی تضادات کا جائزہ لینے کے بعد سوچ سمجھ کر شعوری طور پر ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور اپنے اگلے سفر کی مشترکہ ذمے داری قبول کرتے ہیں۔ اس کا مطلب تو پھر یہ ہوا کہ عارضی رشتے بناؤ اور جب علمی سفر کی تکمیل ہو چھوڑ دو، معذرت کے ساتھ یہی تو من پرستی ہوتی ہے نا! ہاں آپ نے لحاف متعہ کا اوڑھا دیا ہے۔
پوڈ کاسٹ کے اگلے حصے میں وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر حسین اکبر کہتے ہیں
”لوگ اپنی بیویوں کو چھوڑ کر بیرون ملک چلے جاتے ہیں، لاکھوں لوگ ملک سے باہر ہوتے ہیں، اب وہ جنسی بھوک کا کیا کریں تو اس صورت میں وہ کسی بھی غیر مذہب لڑکی کے ساتھ عارضی نکاح کر کے جنسی تسکین کا سامان کر سکتے ہیں، ان کے مطابق اس کی گنجائش اور اجازت بھی موجود ہے“
سوال یہ ہے کہ سرکار کیا یہ سہولت صرف مرد کو میسر ہے یا خاتون بھی اس سہولت سے فیض یاب ہو سکتی ہے؟
ظاہر ہے جنسی ضرورت صرف مرد کی تو نہیں ہوتی نا خواتین کی بھی ہوتی ہے اور جس جنسی کرب سے مرد بیرون ملک میں جوج رہا ہے اسی کرب کی شدت و حدت سے خاتون بھی الجھ رہی ہوتی ہے، ہیں تو دونوں ہی انسان نا! تو تقاضے مختلف کیسے ہو سکتے ہیں؟ جنسی بھوک یا جنسی تسکین کا تصور مرد اور خاتون کے مابین یکساں ہوتا ہے محض جینڈر کی بنیاد پر تخصیص نہیں کی جا سکتی۔
اب ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ خاتون صرف عصمت و عفت کے سہارے پر رہے اور مرد سرکار عارضی نکاح کر کے جنسی پرلطفیوں سے فیضیاب ہو رہا ہو، یہ تو سراسر ایک مساوی انسانی جذبے کی تذلیل نہیں ہے؟
ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے نزدیک زنا کی تعریف کیا ہے اور زانی پر حد کن اصولوں کی بنیاد پر لگائی جائے گی تو ڈاکٹر صاحب کا موقف کچھ یوں تھا۔
”زنا کو ثابت کرنے کے لیے چار عادل گواہ جو نا صرف صوم و صلوٰۃ کے پابند ہوں بلکہ لوگ ان کے تقویٰ و طہارت کی گواہی بھی دیں، اس کے علاوہ موقع پر موجود وہ چار گواہ زنا ہوتے ہوئے اس انداز سے دیکھیں کہ جس طرح سوئی کے سوراخ میں دھاگہ ڈالا جاتا ہے“
مطلب ڈاکٹر صاحب کچھ یوں کہنا چا رہے ہیں کہ چاروں صاحب تقویٰ افراد اس قدر باریکی سے جنسی زیادتی کا مشاہدہ کریں کہ وہ عضو تناسل کا وجائنا میں واضح دخول دیکھیں۔ سوال یہ ہے کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا چار گواہان اور وہ بھی صاحب تقویٰ کیسے ایک جگہ کارروائی دیکھنے کے لیے جمع ہوں گے؟ کارروائی دیکھنے کی بجائے ان پر تو مظلوم کو بچانا لازم ہو گا۔
ہمیں کیوں لگتا ہے کہ ہمارے معزز علماء کرام وقت سے کٹتے جا رہے ہیں اور وقت کے حساب سے ان کا دامن خالی ہوتا جا رہا ہے، اب یہ جو باتیں ڈاکٹر صاحب نے کی ہیں ان کو عقلی بنیادوں پر پرکھا جا سکتا ہے؟ ڈاکٹر حسین اکبر کی خدمت میں مؤدبانہ التماس ہے کہ اوپر پوچھے گئے سوالات کا جواب دینے کی کوشش فرمائیں تاکہ ہماری تشنگی اور کم مائیگی کا کوئی اہتمام ہو سکے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).