فیس بک ناولز اور ادب کی بے توقیری
”تعلیم انسان کو پڑھنا سکھا دیتی ہے، لیکن یہ نہیں سکھاتی کہ کیا پڑھنا ہے اور کیا نہیں پڑھنا۔“ اس کا ثبوت دیکھنا ہو تو فیس بک پر شیئر ہونے والے اردو ناولز پر نظر کریں۔ یہ ایسے ناولز ہیں جن کو ناول کہنا ہی لفظ ناول کی توہین ہے۔ یہی ناولز، ان کے سینز، ان کے کردار انسٹاگرام ریلیز اور یوٹیوب پر آڈیو پلس پیج ویو کے ساتھ اپ لوڈ ہو کر تشہیر پا رہے ہیں۔ آپ ان کے ویوز دیکھیں، ان کی ریلیز کی شیئرنگ کے نمبرز دیکھیں تو حیران رہ جائیں۔ لٹریچر اور ناول کے نام پر کوڑا کرکٹ زی اور ایلفا جنریشن ہاتھوں ہاتھ لے رہی ہے۔
سوشل میڈیا نے جہاں اور بہت کچھ خراب کیا ہے وہاں اُردو پاپولر فکشن کا تو بیڑہ غرق کر چھوڑا ہے۔ ایسی تحریروں میں زبان اور ادب تو کیا ہی ہو گا ان میں ناول کے جز تک مکمل نہیں ہوتے۔ فیس بک پیجز اور انٹرنیٹ پر یہ ناولز کچھ اس طرز کی کیٹیگریز میں موجود ہیں :
کنٹریکٹ میرج ناولز
فورس میرج ناولز
لو آفٹر میرج ناولز
ایج ڈفرنس بیسڈ ناولز
فوجی بیسڈ ناولز
حویلی بیسڈ ناولز
وڈیرا بیسڈ ناولز
ان غلط رجحانات کی وجہ سے ادب اور فن کا معیار پست سے پست تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کوئی بھی یہ حقیقت نہیں سمجھ رہا کہ کسی معاشرے میں آرٹ اور لٹریچر کا بلند معیار انسانی زندگی کے معیار کو بلند کرنے کا راستہ ہے۔ یہ آرٹ ہی تھا جس نے یورپ کے دورِ تاریک کا خاتمہ کیا اور نشاطِ ثانیہ کو جنم دیا۔ مائیکل اینجلو کے ڈیوڈ پر نظر ڈالیں تو نظر واپس پلٹنا بھول جاتی ہے۔ ناظر اپنا سانس روک کر گمان کرتا ہے کہ یہ مجسمہ سانس لے گا، یہ ابھی اپنی غلیل سیدھی کرنے والا ہے۔ ڈاؤنچی کی مونا لیزا کو دیکھیں، اس کے ہونٹوں کا جو زاویہ مصور نے پینٹ کیا ہے محسوس ہوتا ہے کہ یہ لب ابھی کھلنے ہی والے ہیں، یہ ابھی مسکرا دے گی، یہ بس مسکرانے ہی والی ہے۔ جیفری چوسر کی کینٹربری ٹیلز کو پڑھیں، جس خوبی سے اس نے ہر کردار کی نفسیات، شخصیت اور رجحان کو بیان کیا ہے وہ بے مثال ہے۔ جس انداز سے پورے معاشرے کی آئینہ داری کی ہے ادب کے قاری اپنے سر جھکاتے ہیں، بعد کے زبان دان راہ پاتے ہیں۔ یہ ان قد آوروں کی فن اور ادب سے مخلصی تھی کہ دنیا ان کے نام کی مالا جپتی ہے۔ یہ ان کے فن کا معیار ہی تھا جس نے انہیں قومی، لسانی اور مذہبی سرحدوں کو پار کر کے عالم گیر شہرت اور مقبولیت دی۔ ان ہی کے جلائے گئے فن، علم اور ادب کے چراغوں نے اس معاشرے کو صنعتی انقلاب کے دور سے گزار کر ٹیکنالوجی اور سائنس کے میدان فتح کرنے کی راہیں روشن کیں۔
اب دوسری طرف ہمارا حال دیکھیں، ہم لوگ تعلیمی، علمی اور ادبی لحاظ سے اتنے سرمایہ دار تھے ہی نہیں کہ ہماری تخلیقات دنیا کو متوجہ کرتیں، عالم گیریت کے درجے پر فائز ہوتیں۔ اردو زبان کے سنجیدہ ادب کی کوئی تخلیق نوبل انعام نہیں جیت سکی۔
پکے پیڈے ادب کو کچھ دیر کے لیے ایک طرف کر کے پاپولر فکشن پر نگاہ کریں۔ پورا یونر تباہ ہو گیا ہے۔ کیوں کہ یہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آ گیا ہے جنہیں پاپولر فکشن کی کوئی سمجھ نہیں ہے۔ پاپولر فکشن میں خرابی کا آغاز اس وقت ہوا جب اسلام اور فکشن کو ملغوبہ بنا کر اسلامی حلال ناولز لکھنے کی طرح ڈالی گئی۔ یہ کیٹیگری نیم خواندہ عوام میں مقبول ہوئی اور نتیجتاً نئے لکھنے والوں کو شہرت حاصل کرنے کا فارمولا مل گیا۔
اس کیٹیگری نے اپنی الگ ریڈر شپ بنائی جو کٹر لیول کی متعصب کمیونٹی بن گئی۔ اسی کمیونٹی کے بطن سے پیدا ہونے والے نئے لکھاریوں نے نا پختہ سمجھ اور ادھورے علم کے نشے میں دھت ہو کر قلم سنبھالے اور دھڑا دھڑا ناول پر ناول لکھ ڈالے۔ یہ ناولز خواتین کے کچھ دوسرے درجے کے مخصوص ماہانہ شماروں اور جرائد میں چھپے۔ اور پھر کتابوں کی صورت میں بھی شائع ہونے لگے۔ ناشرین کو بھی محض پیسے سے غرض تھی، لہذا وہ ناقص کتابیں اور ناول چھاپنے میں جت گئے، کیوں کہ انہی غیر معیاری، غیر ادبی دل بہلاؤ قسم کے ناولز کی مانگ تھی۔ انہوں نے بھی کتابوں کی ایڈیٹنگ، پروف ریڈنگ اور مواد کے معیار پر کوئی کام نہیں کیا اور تخلیقیت کے مقابلے میں تجارت کو افضل سمجھا۔
یعنی وہ سب لوگ جنہیں صرف پڑھنے کی ضرورت تھی وہ لکھ رہے تھے اور بے تحاشا، بے لگام و بے حساب لکھ رہے تھے۔ لکھاریوں کی اس نسل سے ایک نئے فرقے کی پیدائش ہوئی جس نے خواتین کے جرائد اور رسائل کو چھوڑا اور اپنا لکھا فیس بک پر شیئر کرنا شروع کر دیا کیوں کہ یہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ یہیں سے انہوں نے تعلیم حاصل کی تھی، یہیں سے انہوں نے تہذیب سیکھی اور ادب شناسی کی سندیں پائی تھیں۔ زیر تبصرہ ناولز کے موضوعات، ان کے مناظر ایسے کراہیت آمیز ہیں کہ کوئی صائب الدماغ انسان چند سطور سے آگے نہیں پڑھ سکتا۔ ایسے ناولز کا صرف ایک ہی ٹارگٹ میری سمجھ میں آتا ہے اور وہ ہے ناپختہ دماغوں سے کھیلنا، ان کو حقیقت سے دور تباہ کن خیالی دنیا میں رکھنا، ان کے جذبات کو غلط رخ دینا۔ مذہبی احکامات کی من مانی غلط تشریح، رومانس کے نام پر ایروٹک لکھنا، نفسیاتی بیماریوں کو اسٹائل، سویگ بنا کر پیش کرنا، بیمار ذہنیت اور ٹاکسٹی کو محبت کہہ کر جسٹیفائی کرنے کی کوشش کرنا۔ یہ اس طرح کے سی گریڈ ناولز کا خاصہ ہے۔
تشدد، اغوا، دھونس، جبر جیسی چیزوں کو یوں گلوریفائی کیا جاتا ہے کہ کم عمر پڑھنے والے کو یہ اعمال پر کشش لگتے ہیں۔ جس طرح ٹی وی میڈیا پر کسی ڈرامے میں ٹاکسک مردانگی کا مظاہرہ کرنے والا، ابیوز کرنے، چیخنے، دھاڑنے، اپنی من مانی کرنے، کسی اور کو کچھ نہ سمجھنے والا، ”ہیرو“ دکھایا جائے تو اسے زیادہ ویور شپ اور ٹی آر پیز ملتے ہیں (یہاں لفظ ہیرو معنوں اعتبار سے بحث طلب ہے ) اسی طرح ان فیس بکی، انسٹاگرامی اور ویب سائٹی رائٹرز کو بھی مندرجہ بالا خصوصی اوصاف کے حامل ہیروز متعارف کروانے پر ریڈر شپ ملتی ہے۔
ان ناولز کا پڑھنے والے کی نفسیات، اس کی عملی زندگی پر بہت برا اور دیرپا اثر ہوتا ہے۔ اس کی شخصیت تباہ، اس کی اقدار اور معیار تنزل کا شکار ہو جاتا ہے۔ بری کتاب اور کہانی پڑھنے والے کے ذہن میں اچھائی اور برائی کی لکیر کو اتنا دھندلا دیتی ہے کہ وہ برائی کو اچھائی سمجھ کر اس کے پیچھے بھاگتا ہے۔ پندرہ سولہ سال کا لڑکا ایسے کردار پڑھے گا تو اپنے اندر وہی عادتیں، انداز اور اطوار پیدا کرے گا جو ناولز کے کرداروں میں ہوں گے۔ اسی عمر کی لڑکی یہ ناولز پڑھے گی تو وہ کبھی صحت مند اور زہریلے تعلق کے درمیان فرق نہیں جان پائے گی۔ یہی لڑکی زندگی میں آگے جا کر شوہر سے مار کھاتی ہے اور کبھی اس ٹاکسک شادی سے نکلنے کا نہیں سوچتی کیوں کہ اس کے دماغ نے یہی سیکھا ہو گا کہ ”محبت میں سب چلتا ہے“ ، ”ایک بار مارا ہے تو خیر ہے، سب مرد اور شوہر ایسے ہی ہوتے ہیں، وہ میرا خیال بھی تو رکھتا ہے۔“ یہی کچرا لکھنے والے لکھ رہے ہیں، پڑھنے والے پڑھ رہے کیونکہ دونوں کو ہی اے کلاس چیز لکھنا اور پڑھنا نصیب نہیں ہوئی۔
یہ سارا مواد انسٹا گرام پر کسی نیکی کی طرح فروغ پا رہا ہے۔ ایسی باجیاں اور بچیاں جنہوں نے زندگی میں سنجیدہ اور میچور ادب کی کوئی ایک کتاب بھی نہیں پڑھی وہ ایک کے بعد ایک ایسے ناولز بکوا اور پڑھا رہی ہیں۔ وہ محض فالورز اور اکاؤنٹ ریچ بڑھانے کی خاطر ایسی ڈیجیٹل پولوشن بڑھا رہی ہیں اور انہیں اس بات کی ٹکا پروا نہیں ہے کہ ان کے اس عمل کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ ان کا اگلا مقصد پی آر بڑھا کر نو آموز پبلشرز اور رائٹرز سے مفت کتابیں حاصل کرنا ہے۔ پھر انہی ناقص کتابوں پر ریویو مہیا کرنا ہے اور اپنے فالورز کو تحریک دینی ہے کہ وہ بھی یہی ناولز شریف خرید کر پڑھیں۔ یہ لوگ ادب کے شائق نہیں ویوز کے غلام اور پی آر کے بھوکے ہیں۔ اگر ان کی تجویز کی گئی تحریروں اور معیار پر تنقید کی جائے تو ان کا پورا حلقہ ایک سکواڈ کی شکل میں گالیوں، الزام تراشیوں، زبان درازیوں کے ساتھ بات کرنے والے پر حملہ آور ہوتا ہے۔ ان کا انداز ایسا ہوتا ہے جیسے یہ جین آسٹن، جارج ایلیٹ، تھامس ہارڈی اور چارلس ڈکنز سے بھی زیادہ ادب اور ناول فہم ہیں۔
ایسی کچرا کونڈی کو سمیٹنے، تلف کرنے کوئی نہیں آئے گا کیوں کہ ایک پورے گروہ کے مفادات اس سے متاثر ہوں گے۔ ان کا واحد حل ان کی ریڈر شپ کو کم سے کم درجے پر لانا ہے اور ایسا تبھی ممکن ہے جب قارئین اس قابل ہوں کہ اچھی اور بری کتاب اور کہانی میں فرق کر سکیں۔ یہ قابلیت باشعور ہوئے بنا حاصل نہیں ہو سکتی۔
اس طرح کے ناولز کے ریڈرز کو میرا مشورہ ہے کہ اپنے دماغ اور کوڑے کی ٹوکری میں کچھ فرق کریں۔ آپ کا دماغ ڈسٹ بن نہیں ہے جس میں ہر فالتو چیز انڈیل دی جائے۔ اپنا معیار بلند کریں۔ اپنا وقت اور توانائی بہتر کتابوں، کہانیوں اور کوالٹی انٹرٹینمنٹ پر خرچ کریں، غلاظت پر نہیں۔
- گھاس چرتے خچر - 02/01/2025
- فورٹی رولز آف لو (چالیس چراغ عشق کے ) ایک موضوعاتی مطالعہ - 19/12/2024
- فیس بک ناولز اور ادب کی بے توقیری - 10/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).