دستِ عطا کی حنا کاری میں نقوشِ خطا


بہت دن سے تشویش تھی کہ ممتاز قومی سائنس دان، جمہوریت دشمنی کے علمبردار اور ٹیکنوکریٹ بندوبست کے داعی محترم ڈاکٹر عطا الرحمن کا نسخہ اجل مدت سے نظر نواز نہیں ہوا۔ خاکم بدہن، ڈاکٹر عطا الرحمن دیانت دار، غیر سیاسی اور ٹیکنو کریٹ صاحبان علم کے دست اعجاز سے مایوس تو نہیں ہو گئے۔ 12 دسمبر کی صبح ’ٹیکنو کریٹ جمہوریت کی ضرورت‘ کے عنوان سے ڈاکٹر صاحب کا کالم پڑھ کر دل حزیں کو گونہ اطمینان ہوا۔ یوں اس ملک میں شجر جمہوریت پر کلہاڑی چلانے والوں کی کمی نہیں۔ کوئی شورائیت کی آری لیے حملہ آور ہوتا ہے۔ کوئی خلافت کا پھاوڑا اٹھائے چڑھائی کرتا ہے۔ کوئی سرکاری منصب کی اوٹ میں ذاتی عزائم کی آبیاری کرتا ہے۔ کوئی اشتراکیت کی توڑے دار بندوق سے چاند ماری کرتا ہے۔ ڈاکٹر عطا الرحمن نے مگر قومی عوارض کا یگانہ نسخہ دریافت کیا ہے۔ قبلہ نے 1942ء میں دہلی میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا سر عبدالرحمن دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور پھر مدراس ہائیکورٹ کے منصف رہے۔ 1946ء میں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر جج رہے۔ عطا الرحمن کے والد محترم جمیل الرحمن وکیل اور صنعت کار تھے۔ تحریک آزادی میں اس خانوادے نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ ڈاکٹر عطا الرحمن نے اسی روایت میں سائنسی تعلیم و تدریس میں اندرون ملک اور بیرونی دنیا میں معرکے مارے۔ پاکستان کے سیاسی منظر پر ڈاکٹر عطا الرحمن پرویز مشرف کی آمریت میں نمودار ہوئے۔ 2002ء میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر رہے۔ پھر تعلیم کے وفاقی وزیر مقرر ہوئے۔ 2008ء تک ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بانی سربراہ رہے۔ پرویز مشرف رخصت ہوئے تو ٹیکنوکریٹ وزیراعظم شوکت عزیز کی طرح ڈاکٹر عطا الرحمن بھی پاکستان سے رخصت ہو گئے۔

پاکستانی اخبارات میں البتہ قوم کو ہدایت دیتے رہے کہ سیاست دان نا اہل، بدعنوان اور مفاد پرست گروہ ہیں۔ قوم کو ایک ٹیکنوکریٹ حکومت کی ضرورت ہے جس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لیکن غیر سیاسی کرداروں کو پالیسی ساز مناصب پر فائز کیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے ملک میں کچھ سائنسی ادارے بھی قائم کیے ہیں۔ متعلقہ شعبوں کے ماہرین بتاتے ہیں کہ یہاں بھی پانی مرتا ہے۔ ڈاکٹر عطا الرحمن عام طور پر ملکی افق پر تب جلوہ آرائی دیتے ہیں جب دستوری بندوبست اوبھی اوبھی سانسیں لے رہا ہو اور ملک میں کوئی سیاسی تجربہ کیا جا رہا ہو۔ اسی روایت میں ڈاکٹر صاحب نے 9 جولائی 2019ء کو عمران خان سے بھی ایک ملاقات کی تھی جس کا کوئی نتیجہ معلوم نہیں ہو سکا۔ سوائے اس کے کہ محترم عمران خان نے ملک میں ایک روحانی یونیورسٹی قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ روحانیت اور ٹیکنالوجی کے باطنی تانے بانے ہم خاک نشینوں کے حیطہ خیال سے ماورا ہیں۔

ڈاکٹر عطا الرحمن کے نقطہ نظر کا سیاسی تجزیہ کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ تعلیم اور سائنس میں ڈاکٹر عطا الرحمن کی خدمات کے نتیجے میں پاکستان میں کیسی رفعتیں پائی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم میں پاکستان کا عالمی درجہ اس وقت پچاس ہے۔ Global Knowledge Index 2024 کے مطابق 141 ممالک میں پاکستان کا درجہ 120 ہے۔ بالغ خواندگی کے شعبے میں دنیا کے 180 ممالک میں پاکستان 152 نمبر پر ہے۔ نوجوانوں میں خواندگی کے اعتبار سے پاکستان 180 ممالک میں 164 ویں درجے پر جگمگا رہا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ڈاکٹر عطا الرحمن عشروں سے پاکستان میں رہنما کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ Global Innovation Index (GII) کے مطابق 2024ء میں 133 ممالک میں پاکستان 91 ویں درجے پر ہے۔ تعلیم اور سائنس سے ڈاکٹر صاحب کے دلی شغف میں کلام نہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب علمی، سائنسی اور معاشی ترقی کا سیاست سے تعلق نہیں سمجھتے۔

ڈاکٹر عطا الرحمن ٹیکنوکریٹ ذہانت کے قتیل ہیں۔ سوال کرنا چاہیے کہ پاکستان بننے کے فوراً بعد چوہدری محمد علی، غلام محمد، ظفراللہ خان اور زاہد حسین سیاست دان تھے یا ٹیکنوکریٹ؟ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا رکن ہوتے ہوئے منفعت بخش سرکاری عہدوں پر فائز ہونے والے ڈاکٹر عمر حیات اور ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی سیاست دان تھے یا ٹیکنوکریٹ؟ جنوری 1951ء سے اکتوبر 58ء تک اس ملک کی پس پردہ سیاست کے بنیادی کردار سکندر مرزا اور ایوب خان سیاست دان تھے یا ٹیکنوکریٹ؟ 1958ء سے 1971ء تک اس ملک پر سیاست دان حکومت کر رہے تھے یا ٹیکنوکریٹ؟ ڈاکٹر عطا الرحمن کا تجاہل عارفانہ ہے کہ وہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح کا سیاست دان ہونا فراموش کر دیتے ہیں۔ گوادر بندرگاہ کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سیاستدان فیروز خان نون کی انہیں یاد نہیں آتی۔ وفاق پاکستان کو پارلیمانی دستور عطا کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو ڈاکٹر عطا الرحمن کے حافظے سے محو ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عطا الرحمن نے حالیہ تحریر میں سیاست دانوں کی نا اہلیوں کے ضمن میں توانائی کے معاہدوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھا ہے۔ ڈاکٹر عطا یہ نہیں بتاتے کہ جب پاکستان سیٹو اور سینٹو کا حصہ بنا، 1960 میں آئی ایم ایف کے دروازے پر پہنچا، جب پاکستان دولخت ہوا، جب پاکستان نے افغان جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو اس ملک پر ٹیکنوکریٹ حکومت کر رہے تھے یا سیاست دان؟

ڈاکٹر عطا الرحمن ادبدا کر ساٹھ لاکھ آبادی کی شہری ریاست سنگاپور کا ذکر فرماتے ہیں اور یہ بنیادی نکتہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان چار متنوع وفاقی اکائیوں پر مشتمل پچیس کروڑ عوام کا ملک ہے جن کی ایک سو چالیس سالہ سیاسی روایت ہے۔ ڈاکٹر عطا الرحمن کو چین کی ٹیکنالوجی اور معیشت کا حوالہ دینا بہت مرغوب ہے، بہتر ہو کہ ڈاکٹر صاحب 1949ء سے 1978ء تک کے چین کا تجزیہ بھی پیش کریں۔ ’طویل جست‘ اور ’ثقافتی انقلاب‘ کے حقائق بھی بیان کریں نیز یہ کہ جب ڈاکٹر صاحب انسانیت کو اپنی سائنسی قابلیت سے فائدہ پہنچانے کا ارادہ کرتے ہیں تو ٹیکنوکریٹ حکومتوں کی بجائے جمہوری ممالک کا سفر کیوں اختیار کرتے ہیں۔ پاکستان سیاسی عمل سے قائم ہونے والا ملک ہے، اس ملک کو دفتری فائل سے چلانا ممکن ہوتا تو چار براہ راست آمریتوں نے پاکستان کو ترقی یافتہ بنا دیا ہوتا۔ حیرت ہے کہ ڈاکٹر عطا الرحمن عین اس وقت ٹیکنوکریٹ جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں جب ملک ٹیکنوکریٹ اذہان کی تخلیق ’پراجیکٹ عمران‘ کے نتائج سے جھونج رہا ہے۔ پاکستان کو ٹیکنوکریٹ جمہوریت کی نہیں، دستوری جمہوریت کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments