سفرِ کوسوو۔ 1
بوسنیا اور کوسوو میں سربوں سے آزادی حاصل کرنے کی تحریکیں اپنی اپنی جگہ بڑی یکتا تھیں۔ بوسنیا کے مسلمان نسلی طور پر سربوں سے مختلف نہ تھے۔ زبان بھی ایک تھی لیکن مذاہب مختلف تھے۔ سرب آرتھوڈکس عیسائی تھے اور بوسنین مسلمان۔ دوسری طرف کسووار ( کوسوو کے باشندے ) نسلاً البانین تھے اور 97 % مسلمان۔ البانوی زبان بولتے تھے اور سربوں سے ان کا کچھ بھی مشترک نہ تھا۔ لہذا سربوں سے ان کی نفرت بوسنین مسلمانوں کی نسبت کہیں زیادہ شدید تھی۔
ایک کوسوار اپنے کھیت میں کام کر رہا ہوتا ہے کہ اتنے میں بی بی سی کا نمائندہ مائک تھامے اس کے پاس آتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ سرب ایک بار پھر کوسوو لوٹ آئیں۔ وہ لمحہ بھر بھی سوچے بغیر جواب دیتا ہے۔ ہم تین بھائی تھے۔ دو سربوں کے خلاف لڑتے ہوئے مارے گئے۔ اگر وہ واپس آ گئے تو سرب بھی واپس آ جائیں گے۔ یہ جواب گواہی دیتا ہے کہ سربوں سے آزادی حاصل کرنا کوسوو کے لوگوں کے لیے کیا معنی رکھتا تھا۔
انہیں 1999 کے آخر میں یو این کی چھتری کے نیچے UNMIK کے نام سے مشن قائم کر کے محدود آزادی دی گئی تھی جس کا کریڈٹ وہ صرف اور صرف امریکی صدر بل کلنٹن ہی کو دیتے تھے۔ اپنی احسان مندی کے اظہار کے لیے کئی شہروں کی کسی بڑی شاہراہ کو بل کلنٹن کے نام سے منسوب کیا گیا۔
نئے انتظام کے تحت اداروں کے قیام کا آغاز ہوا تو کے پی ایس (کوسوو پولیس سروس) کے نام سے تمام ریجنل ہیڈکوارٹرز میں سینیئر افسران پر مشتمل بھرتی کے دفاتر قائم کیے گئے اور بھرتی کا آغاز کیا گیا۔ بھرتی کے چار مراحل تھے۔ جسمانی امتحان، تحریری امتحان، انٹرویو اور بیک گراؤنڈ چیک۔
پاکستانی دستہ 2 فروری 2000 کو پرشٹینا پہنچا۔ ایک ہفتہ کی مشن کے بارے میں ضروری آگاہی کے بعد ہم سب کی تعیناتی ہوئی۔ میری اور مجھ سے سینئر ایس پی اشرف نور صاحب کی پوسٹنگ پے آ، ریجن کے پولیس بھرتی کے دفتر میں ہوئی۔ ہمارے ساتھ ہی دو زمبین افسران بھی پے آ روانہ کیے گئے۔ گورڈن اور کینی دو امریکی افسران پہلے سے وہاں موجود تھے۔ گورڈن کا عہدہ ٹیم لیڈر کا تھا۔
دو ہفتے بھی نہیں گزرے ہوں گے کہ گورڈن سے میرا کسی بات پر پھڈا ہو گیا۔ جواباً اس نے مجھے دھمکی دی کہ میں تمہارے خلاف ہیڈ کوارٹر رپورٹ بھیجوں گا۔ میں نے سب کے سامنے جواب نہیں دیا اور اسے کہا آؤ ذرا آفس سے باہر بات کرتے ہیں۔ ہمارا دفتر تیسری منزل پہ تھا۔ سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہو کر میں نے کہا۔ گورڈن میرا یہ دوسرا مشن ہے جبکہ تمہارا پہلا۔ تم یو این کے نظام سے واقف نہیں ہو۔ یہاں ہر شکایت پر دونوں افسروں کو فوری طور پر تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ میں تو یہاں عام پولیس مین ہوں جبکہ تم ٹیم لیڈر ہو۔ نئی جگہ پہ تم نے بھی میری طرح عام پولیس مین ہونا ہے۔ یہ منظور ہے تو میری رپورٹ کر دو۔ وہ کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر میرا ہاتھ پکڑا اور بولا، آؤ کافی پینے چلتے ہیں۔
میرے ساتھی اشرف نور صاحب باریش افسر تھے۔ ظہر کی نماز دفتر میں ہی ادا کیا کرتے تھے۔ مقامی مسلمان سٹاف کو نماز کی تلقین بھی کرتے رہتے تھے۔ روزانہ روزہ رکھتے تھے۔ ان کے بارے میں گورڈن کا خیال تھا کہ وہ عام بندے نہیں ہیں اور ان کے قابو میں ضرور کچھ پراسرار قوتیں ہیں۔ وہ اکثر دوپہر کو گورڈن سے پوچھے بغیر آرام کی خاطر گھر چلے جاتے تھے۔ کبھی وہ مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔ پولیس کے عام ماحول کے خلاف گورڈن ڈسپلن کے نام پر ہم سے چھیڑ خانی نہیں کرتا تھا اور یوں امن شانتی کے ماحول میں ہماری 90 ڈالر کی دیہاڑی لگ جاتی تھی۔
ہمارے ترجمانوں میں باشکیم اور رفعت بریشا ذرا مختلف قسم کے بندے تھے۔ باشکیم کم گو تھا اور سرکاری کام کے علاوہ اس کی اور کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ باتیں بڑی دلچسپ کرتا تھا۔ ایک دفعہ کہنے لگا میرا والد کہتا ہے کہ مرد ایک دفعہ نہیں بلکہ تین بار مرتا ہے۔ پہلی دفعہ جب وہ بیوی کے پاس جانے کے قابل نہ رہے۔ ( مشرقی روایات کی پاسداری میں میں نے اس کے اصل فقرے میں کچھ تبدیلی کی ہے ) ۔ دوسری دفعہ جب اس کا کوئی بہت قریبی دوست مر جائے اور آخری دفعہ جب اس کا اپنا بلاوا آ جائے۔
جاری ہے۔
- سفرِ کوسوو: آخری قسط - 20/01/2025
- سفرِ کوسوو (3) - 07/01/2025
- سفرِ کوسوو (2) - 29/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).