پاکستانی سیاست کا گردشی قرضہ
میرا خیال ہے کہ اگر گردشی قرضہ جیسی کوئی چیز سیاست میں بھی ممکن ہو تو وہ پاکستان ہی میں ہو سکتی ہے، توانائی میں البتہ اور ممالک بھی گردشی قرضہ میں پھنسے ہیں۔ چونکہ میرا تعلق توانائی کے شعبہ سے ہے اس لئے بھی سمجھتا ہوں کہ شاید اس کے گردشی قرضہ کے مسئلہ کا حل تو کبھی ہو جائے یا آج کل کے اٹھائے حکومتی اقدامات سے یہ اب بڑھ نہیں رہا لیکن سیاست والا حل طلب ہے اور لگتا نہیں کہ آسانی سے حل ہو گا گویا دائروں کا سفر جاری ہے۔
گردشی قرضہ کی تعریف کو پاکستانی سیاست میں گھسیٹنے سے کیا فائدہ متوقع ہے؟ بس اتنا ہی کہ سیاست کی ناکامی کے بارے میں بات کرنے اور سوچنے کا ایک اور زاویہ یا بہانہ بن سکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے پہلے توانائی کے گردشی قرضہ کو سمجھ لینا چاہیے۔ بجلی فراہم کرنے والی سرکاری کمپنیاں، آئی پی پیز کے واجبات بجلی کی ترسیل کے دوران ہوئی چوری، لائن لاسس اور محکمانہ غیر ادائیگیوں کی وجہ سے بھی مکمل ادا کرنے سے قاصر رہتی ہیں اور پھر خود آئی پی پیز ایندھن فراہم کرنے والی سرکاری کمپنیوں کو ادائیگی نہیں کر سکتیں۔ ادائیگیوں میں اس خلا کے باوجود مختلف حکومتیں عوام کو سبسڈی دیتی رہیں اور اس طرح یہ گردشی قرضہ اب تک بڑھتا ہی جا رہا تھا۔
سیاسی یا جمہوری ناکامی کی وجوہات کے تعین کی کوشش مضمون کے آخر کے لئے رکھتے ہوئے پاکستانی سیاستدانوں کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ملک کے عوام کی امنگوں پر کبھی پورا نہیں اتر سکے۔ ڈلیور نا کر سکے ہونے کا یہ عوامی احساس ایک طرح سے توانائی کے شعبہ کی غیر ادائیگیوں کے مترادف ہے۔ اور جیسے توانائی کے شعبہ میں غیر ادائیگیوں کا بوجھ آخر میں عوام ہی اٹھاتے ہیں اسی طرح سیاسی یا جمہوری گردشی قرضہ کی قیمت بھی عوام سے ہی وصول ہوتی رہی ہے۔ مثال کے طور پر ملک کا اپنی علاقائی حقیقت کے برعکس ترقی نا کر سکنا، ، معیشت پر ڈیفالٹ کے منڈلاتے سائے اور ملک کا مالیاتی قرضوں کے شدید بوجھ تلے دبے ہونا اور جس کے نتیجہ میں پیدا ہوتی رہی مہنگائی اور بہت بڑی تعداد میں لوگوں کا غربت کی لکیر کے نیچے ہونا۔
سیاست کے اس گردشی قرضہ میں مسلسل اضافہ بھی ہو رہا ہے اور بظاہر عام تاثر میں اسٹیبلشمنٹ اس سے استفادہ کرتی ہے جیسے کیپیسٹی پیمنٹ کے ہوئے معاہدوں کی وجہ سے آئی پی پی کمپنیاں مسلسل فائدہ میں رہیں۔ ایسا فائدہ اور عوام کا نقصان بہرحال آپس میں مشروط نہیں ہیں۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ایسے مشکل جغرافیائی حقیقت والے ملک کی سرحدی اور داخلی سکیورٹی کی ذمہ دار ہے جو اس خطہ میں ہے جسے عالمی قوتوں نے ایک طویل عرصہ سے اپنا نشانہ مشق بنائے رکھا ہے۔ بدقسمتی سے جس کے ہمسایہ ممالک سے تعلقات ہمیشہ سے دشمنی یا کم از کم غیر دوستانہ رہے ہیں اور جو بدترین داخلی دہشت گردی کا شکار بھی رہا ہے۔ ایسے ملک میں ان حالات کا پیدا ہونا جن میں سکیورٹی ادارے اپنی آئینی حیثیت سے تجاوز کرتے رہے یا ان حالات کو سیاست میں مداخلت کا بہانہ بناتے رہے ہیں غلط سہی مگر کوئی اچنبھے کی بات نہیں لگتی۔
جبکہ وہ بین الاقوامی کمپنیاں جو دہشت گردی کے شکار ملکوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہیں ان پراجیکٹس کی فنانشل کلوزنگ یا انوسٹمنٹ کے لئے بینکوں سے قرض کی منظوری کی خاطر کیپیسٹی پیمنٹ جیسی گارنٹیاں چاہتی ہیں اور پاکستان جیسے ملک یہ گارنٹیاں دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ویسے تو امریکہ میں بھی کچھ پاور جنریشن کے پراجیکٹس کے لئے کیپیسٹی پیمنٹ کی جاتی ہے لیکن وہاں گردشی قرضہ پیدا نہیں ہوتا۔ امریکہ میں سیاست کا گردشی قرضہ بھی نہیں بنتا اور حکومتوں اور معاشی پالیسوں کا تسلسل وہاں ایک توازن کو آخرکار قائم کر دیتا ہے چاہے ٹرمپ جیسا غیر جمہوری رویہ رکھنے والا پاپولسٹ بھی اقتدار میں آ جائے۔
ویسے اس گردشی قرضہ کے معاملہ میں سب سے آسان کام کسی ایک فریق کو مکمل مورد الزام ٹھہرانا ہے جیسے کیپیسٹی پیمنٹ کے معاہدوں کے معاملے میں آئی پی پیز کو یا ان گورنمنٹس کو جنہوں نے یہ معاہدے کیے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان معاہدوں کے باوجود یہ مسئلہ صرف اس لئے بن گیا کیونکہ پاکستان مسلسل برطرف ہوئی حکومتوں اور معاشی پالیسوں کے غیر تسلسل کے باعث اس شرح سے ترقی نا کر سکا جس سے بجلی کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوتا رہتا۔ پاور پلانٹس کو بجلی بنانے کی ادائیگی ہوتی ناکہ بجلی بنانے کی مشینوں کو لگانے اور ہر وقت تیار رکھنے کی۔ اسی طرح پاکستان میں گورننس کی تاریخ میں صرف اسٹیبلشمنٹ کو قصور وار ٹھہرانا بھی ایک ہاتھ سے بجائی جانے والی تالی کی طرح بے آواز ہی ہو گا حالانکہ یہ بات درست لگتی ہے کہ ذمہ داری کا سہرا ہمیشہ سب سے طاقتور کے سر ہی بندھنا چاہیے۔
کچھ سال پہلے تک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ اس وقت مارشل لاؑ لگائے جب سیاستدانوں کی آپسی تفریق نے (اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں ) حالات ایسی نہج پر پہنچا دیے جس سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہو چکے تھے۔ لیکن اسی کے متوازی ہمارے سیاستدان بھی پاکستان میں طاقت کے محور یعنی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ہی اپنے اقتدار کی جائز اور ناجائز خواہش کو ہمیشہ سے حقیقت کا رنگ دیتے آئے ہیں۔ اس امر میں انہوں نے اس بابت کوئی آر نہیں رکھا کہ ایک دوسرے کو کرپٹ اور غدار وغیرہ گردانیں یا ایک دوسرے کو مقدمات میں پھنسائیں اور جیلوں میں رکھیں۔ اور اس کے علاوہ اپنے بیانیے ان الزامات کے اردگرد بنائیں جو خود اسٹیبلشمنٹ نے جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹتے وقت ہمیشہ سے استعمال کیے تھے۔
لیکن اب کچھ سالوں سے ہماری اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کا طریقہ حکمرانی جمہوریت یا مارشل لاؑ کی 0 یا 1 والی کیفیت سے نکل کر ایک کوانٹم سٹیٹ یا ہائبرڈ نظام کی صورت لے چکا ہے۔ اس کیفیت نے سیاسی گردشی قرضہ کی بڑھوتی کو ایک نئی تحریک دے دی ہے اور جس میں مخالف پارٹی کے لئے سوشل میڈیا سے پھیلی نفرت نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ شاید ویسی تحریک جیسی کوانٹم کمپیوٹنگ کی ممکنہ طاقت کے آگے اب تک کی آئی ٹی ترقی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اس کوانٹم یا بے یقینی کی کیفیت کا انجام معاشی اور داخلی مسائل میں گھرے ایک ملک کے لئے کیا ہو سکتا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ کسی کے لئے بھی اس اندازہ کے لئے یہ تصور یقیناً مددگار ہو گا کہ ملک میں بجلی یا امن کی غیر موجودگی کا اثر اس کے اپنے ذاتی حالات پر کیسا ہو سکتا ہے۔
لیکن جہاں توانائی کے گردشی قرضہ میں کم از کم اب پہلے سے مزید نا بڑھنے کی امید ہو چلی ہے کیا سیاسی تناظر میں بھی یہ امید رکھی جا سکتی ہے؟ میرے بھی خیال میں پرامید رہنا ہی بہتر ہے لیکن اس کے لئے سیاستدانوں کو کچھ شرائط یا جمہوریت کے کچھ نارمز پر اتفاق کرنا پڑے گا۔ ان میں سب سے بنیادی تو یہی لگتا ہے کہ ایک دوسرے کی حقیقت کو قبول کریں ورنہ ملک مارشل لاؑ اور جمہوریت کے دائرے یا اب ہائبرڈ نظام کی بے یقینی سے نہیں نکل سکے گا۔ اور کیا اسٹیبلشمنٹ سے بھی رویہ میں تبدیلی کی کوئی امید رکھنی چاہیے؟ میرا خیال ہے بس اتنی ہی جتنی کسی طاقتور سے مذاکر ات کرتے وقت اس سے اس کے اپنے مفادات سرنڈر کرنے کی رکھنی چائیے۔
تو مجھے بھی لگتا ہے کہ جو لیڈر اپنے ذاتی عزائم بلائے طاق رکھ کر سیاستدانوں کی صف میں اتحاد یا ایک جمہوری میثاق پیدا کر سکے تو وہ تو ملک کو اس گردشی قرضہ سے نکال سکتا ہے ورنہ کسی ایک پارٹی والے کو اس کے لیڈر کی حکومت کی برطرفی یا جیل میں گزارے وقت کے حقدار ہونے پر قائل کرتے رہنے کی کوشش کرنا، کوانٹم فزکس میں ایک پارٹیکل کے کسی ایک جگہ پر موجود یا کسی ایک سمت میں گردش کر رہے ہونے کی ناممکن پیشن گوئی کی طرح ہے۔
- پاکستانی سیاست کا گردشی قرضہ - 22/12/2024
- بنگلہ دیش کا خونی آغاز 1971۔ 1981 - 04/12/2024
- بارہ اکتوبر 1999 کو پچیس سال - 02/11/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).