یونس ایمرے۔ عشق و محبت کا تُرک شاعر
2019 میں کورونا وائرس کے پھیلتے کچھ اچھا خاصا وقت میسر آیا۔ اگر چہ ہم سے سرکاری نوکری کی وجہ سے ذمہ داری نہیں چھوٹی لیکن پھر بھی قدرے کچھ وقت ناسازگار حالات اور کو وِڈ کے پھیلنے سے بہرحال ملا۔ اس دوران پڑھنے کو کچھ خاص نہیں ملا، البتہ ترکی کے کچھ سیریل دیکھنے کا وقت ملا۔ ان میں ترکی کے عظیم قومی صوفی شاعر اور فلسفی یونس ایمرے کی زندگی، ان کے روحانی سفر اور تصوف کی تعلیمات پر مبنی ڈرامہ سیریل، ”یونس ایمرے۔
راہِ عشق“ دیکھنے کا بھرپور موقع ملا۔ یہ سیریل تُرک ٹیلیویژن پر 2015 میں پہلے نشر ہوا تھا، اور بعد میں مختلف زبانوں میں ڈب ہو کر دنیا بھر میں یو ٹیوب وغیرہ پر نشر ہوا۔ کچھ ممالک جیسے پاکستان، بنگلہ دیش، اۤذربائجان وغیرہ نے اسے اپنے قومی ٹی وی چینلوں پر بھی نشر کیا۔ اس سیریل کو ترکی کے مشہور ڈرامہ نگار محمد بوزداغ اور مصطفی تاتشی نے تحریر کیا ہے۔ اور اس کے ہدایتکار کا میل آییدن جبکہ یونس ایمرے کا کردار معروف ترک اداکار گوکخان اتالے نے ادا کیا۔
اس سیریل میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ایک عام شخص، جو پہلے ایک قاضی (جج) تھا، دنیاوی زندگی کو ترک کر کے تصوف کے راستے پر گامزن ہوا اور ایک صوفی شاعر کے طور پر امر ہو گیا۔ سیریل میں ان کی ملاقات ان کے مرشد طاپتوق ایمرے سے، ان کی روحانی تربیت، اور ان کی شاعری کی ابتدا کو تفصیلی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ شاعری، فلسفہ، تصوف اور اپنی روایات سے جڑے رہنے والوں کے لئے یہ ایک بہترین سیریل ہے اور زندگی میں ایک اہم تبدیلی لانے کا بھی سامان فراہم کرنے کا مادہ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سیریل کو بار بار دیکھنا ایک عجیب تجربے سے گزارتا ہے اور ایک خاص تسکین فراہم کرتا ہے۔
سیریل میں یونس ایمرے کے روحانی سفر اس کی باطن میں حق کی تلاش کی کشمکش اور سوالات کو دکھایا گیا ہے، جو انہیں روحانیت کی طرف لے جاتے ہیں۔ وہ اپنی انا اور دنیاوی خواہشات کو ترک کر کے صوفی بننے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یونس ایمرے کے مرشد، طاپتوق ایمرے، ان کی روحانی رہنمائی کرتے ہیں اور انہیں تصوف کے اصول سکھاتے ہیں۔ یہ تعلق سیریل کا مرکزی حصہ ہے، جو مرشد اور مرید کے رشتے کی گہرائی کو اجاگر کرتا ہے۔ سیریل میں یونس ایمرے کی شاعری اور ان کے پیغام کو نمایاں کیا گیا ہے، جو محبت، بھائی چارے، اور خدا کی عظمت پر مبنی ہے۔ ان کی شاعری کے ذریعے لوگوں کو امن اور سکون کا راستہ دکھایا گیا ہے۔
سیریل میں تیرہویں صدی کے اناطولیہ کے سماجی، سیاسی، اور ثقافتی حالات کو حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس میں اس دور کے گاؤں، خانقاہیں، اور عوام کی زندگی کو خوبصورتی سے دکھایا گیا ہے۔
مرکزی کردار ادا کرنے والے گوکخان اتالے نے یونس ایمرے کے کردار کو انتہائی خوبی سے ادا کیا ہے، جس میں ان کے اندرونی جذبات اور روحانی سفر کو حقیقت کے قریب تر دکھایا گیا ہے۔ ڈرامے میں تصوف کے اصولوں، جیسے محبت، عاجزی، اور خود شناسی، کو گہرائی سے پیش کیا گیا ہے۔ یونس ایمرے کی مشہور نظموں اور صوفیانہ موسیقی نے سیریل کو روحانی رنگ دیا ہے، جو ناظرین کو جذباتی طور پر متاثر کرتا ہے۔ یہ ڈرامہ دنیا بھر میں محبت، روحانی سفر، تصوف اور اپنی تہذیبی روایات سے جڑے رہنے کی ایک سنجیدہ تلقین ہے۔
اس ڈرامے کو بار بار دیکھ کر پوری شدت سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ بدلتے ہوئے ذرائع ابلاغ کے زمانے میں ہم کشمیریوں نے اپنے عظیم لوگوں کو پورٹریٹ کرنے اور ان کی تعلیمات کو ایک موثر طریقے سے عام لوگوں تک پہنچانے میں پوری طرح ناکام ہو کر سرنڈر کیا ہے۔ اور اس بھیانک سرنڈر کے پیچھے ہمارے سارے شاعر، ادیب، قلم کار، یونیورسٹیوں اور بڑی بڑی ”چیرز“ پر براجمان دانش ور اور ذمہ داران ہیں۔
یونس ایمرے 1240 کے آس پاس پیدا ہوئے اور تقریباً اسی سال کی عمر پاکر 1320 کے قریب وفات پائی۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے محبت، انسانیت، اور خدا کے ساتھ روحانی تعلق کے پیغام کو عام کیا۔ وہ اناطولیہ کے خطے میں پیدا ہوئے اور ان کا زمانہ سلجوقی سلطنت کے زوال اور عثمانی سلطنت کے آغاز کا تھا۔ یہ ایک ایسا دور تھا جب سیاسی عدم استحکام اور سماجی مشکلات عروج پر تھیں، اور یونس ایمرے نے اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کو امن، اتحاد، اور روحانی سکون کا درس دیا۔
یونس ایمرے کے بارے میں تاریخی معلومات محدود ہیں، لیکن یہ معلوم ہے کہ وہ ایک دیہاتی ماحول میں پروان چڑھے اور ابتدائی تعلیم مقامی علما سے حاصل کی۔ اور بعد میں علوم دینی اس وقت کے بڑے مدارس میں پڑھے۔ بعد ازاں، وہ تصوف کی طرف مائل ہوئے اور مشہور صوفی بزرگ طاپتوق ایمرے کے مرید بنے۔ انہوں نے اپنی زندگی صوفی خانقاہوں میں گزاری اور مختلف صوفی سلسلوں سے وابستہ رہے۔ ایمرے نے اپنے وقت کے بڑے صوفی اساتذہ جن میں تاپتوق ایمرے خاص طور شامل ہیں، سے تربیت حاصل کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے روحانی سفر نے ان کی شاعری کو ایک منفرد رنگ دیا، جو محبت، عاجزی، اور خود شناسی کے اصولوں پر مبنی تھی۔
یونس ایمرے کی شاعری ترکی زبان میں تھی، جو اس وقت کے علما اور شعرا کے لیے غیر معمولی بات تھی کیونکہ زیادہ تر ادبی کام فارسی یا عربی میں لکھے جاتے تھے۔ انہوں نے عوام کی زبان میں شاعری کی، تاکہ ان کا پیغام ہر خاص و عام تک پہنچ سکے۔ یونس ایمرے کی شاعری کے اہم موضوعات میں محبت، خدا کی عظمت، انسانیت کی خدمت، اور روحانی بیداری شامل ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ خدا تک پہنچنے کا راستہ محبت اور خدمت کے ذریعے ہے۔ ان کی نظموں میں صوفیانہ فکر کی جھلک واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے، جہاں وہ انسان اور خدا کے تعلق کو ایک عاشق اور معشوق کے رشتے سے تعبیر کرتے ہیں۔
یونس ایمرے کی شاعری نے نہ صرف ان کے اپنے زمانے میں بلکہ آنے والی صدیوں میں بھی لوگوں کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑا۔ ان کی شاعری نے اناطولیہ کے عوام کو تصوف کے اصولوں سے روشناس کرایا اور انہیں روحانی سکون فراہم کیا۔ آج بھی ان کی شاعری ترکی کی ثقافتی وراثت کا ایک اہم حصہ سمجھی جاتی ہے اور ان کی نظمیں ترکی ادب اور موسیقی میں زندہ ہیں۔
یونس ایمرے کی شاعری صوفیانہ ادب کا ایک لازوال حصہ ہے، جو آج بھی لوگوں کو روحانی سکون اور محبت کا پیغام دیتی ہے۔ ان کی شخصیت اور کلام ترکی کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے ادب اور تصوف کے طلبا کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ان کا کام اس بات کا ثبوت ہے کہ سادگی اور محبت کے ذریعے بڑے سے بڑا پیغام عام کیا جا سکتا ہے۔
یونس ایمرے کی شاعری نے ترکی اور دیگر علاقوں میں صوفیانہ ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ یونس ایمرے کی حیات اور شاعری پر اب تک کی موثر ترین کتابوں میں ڈاکٹر نثار احمد اسرار کی کتاب ”یونس ایمرے۔ ترکی کے عظیم عوامی شاعر کے سوانح حیات، فکر و فن اور منتخب کلام“ جسے اکادمی ادبیات پاکستان نے شائع کیا ہے، اس وقت موجود ہے۔ اس کتاب میں یونس ایمرے سے متعلق محدود سوانح حیات اور ان کے بیشتر کلام کا ترجمہ خوش اصلوبی اور محنت سے کیا گیا ہے۔ انٹرنیٹ پر اس 252 صفحوں پر مشتمل کتاب کا پی۔ ڈی۔ ایف۔ فارمیٹ موجود ہے اور تشنگان علم و تصوف اس سے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ترکی کے مصنف اور شاعر طلعت سعید حلمان کی یونس ایمرے پر لکھی گئی ایک کتاب کا اردو ترجمہ احسن علی خان نے کیا ہے اور وہ بھی انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ یونس ایمرے کے اشعار میں محبت، روحانیت، اور انسانیت کا گہرا پیغام پایا جاتا ہے۔ ان کے اشعار انسانیت، محبت، اور عاجزی کا درس دیتے ہیں اور ان کی سادگی ہر دور کے لوگوں کے دلوں کو چھوتی ہے۔ ان کے کلام کا ترجمہ آج بھی روحانی سکون کا ذریعہ ہے۔ ان کے چند مشہور اشعار کا اردو میں ترجمہ درج ذیل ہے :
1۔ آؤ، ایک دوسرے کو پہچانیں، معاملات کو آسان بنائیں،
محبت کریں اور محبت پائیں، یہ دنیا کسی کے لیے نہیں ٹھہرتی۔
2۔ میں جھگڑے کے لیے نہیں آیا، میرا کام محبت کے لیے ہے،
دوست کا گھر دلوں میں ہے، میں دلوں کو جوڑنے آیا ہوں۔
3۔ علم وہ ہے جو خود کو جاننے کا نام ہے،
اگر تم خود کو نہیں جانتے، تو یہ کیسا علم ہے؟
4۔ مال کا مالک، زمین کا مالک، پہلا مالک کہاں گیا؟
مال بھی فریب ہے، زمین بھی فریب ہے، تم بھی کچھ دیر بہل لو۔
5۔ پتھر پر پتھر رکھ کر دل بنانا چاہیے،
اگر تم کسی دل کو توڑو، تو تمہاری عبادت عبادت نہیں۔
6۔ مخلوق کو محبت سے دیکھو، کیونکہ یہ خالق کی تخلیق ہے۔
7۔ مجھ میں ایک اور میں ہے، میرے اندر۔ ہم ہر لمحہ نئے پیدا ہوتے ہیں، کون ہم سے اکتائے گا۔
8۔ میں نے یہ کیا، میں نے وہ کیا۔ میں میں کی تکرار کرنے والا کبھی سکون نہیں پا سکتا۔
9۔ اگر ہم جان بوجھ کر کسی کا دل دکھاتے ہیں۔ اگر دانستہ کسی کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ تو ہماری عبادیں، ہماری نمازیں کس کام کی۔
10۔ مجھے اپنے عشق سے محروم نہ کرنا۔ مجھے اپنے در سے دور نہ کرنا۔ اگر کبھی میں خود کو کھو دوں تو ، میری خود سے اۤشنائی میں رہبری کرنا۔
- نیا سال اور وہی پرانی دھمال - 02/01/2025
- یونس ایمرے۔ عشق و محبت کا تُرک شاعر - 28/12/2024
- انسانی تاخت و تاراج اور تہذیبی شکست و ریخت کے بیچ جنگیں اور ان سے جڑی نفسیات - 14/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).