موسیقی کی مسیحائی
(جہاں الفاظ ناکام ہوجائیں، موسیقی کلام کرتی ہے۔ ہانز کرسچن اینڈرسن)
وقت ظالم ہے جو ایک گھر آنگن میں جیون بتانے والے بہن بھائیوں کو بیدردی سے دور پھینک دیتا ہے۔ کوئی امریکہ تو کوئی انگلینڈ تو کوئی پاکستان میں۔ دوری کے یہ داغ بہت سوں کی قسمت کا حصہ ہیں۔ لیکن فاصلے اور وقت کی سفاکی دلوں پہ لکھی انمٹ محبت کے گیتوں کو کیسے مٹا سکتی ہے۔
تین سال قبل لیڈز (انگلینڈ) سے بھابی نے بتایا کہ ان کے شوہر اور میرے بڑے بھائی محسن کو اسٹروک کے ساتھ ساتھ ڈیمنشیا بھی لاحق ہے۔ اس اسٹروک کے وقت ایم آر آئی ہوا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ انہیں اس سے پہلے بھی چھوٹے موٹے کئی اسٹروکس ہوتے رہے ہیں جن کا پتا نہیں چلا۔ بتدریج یاداشت کھونے کے ساتھ ان کی ہنسی مذاق اور ذہانت سے بھرپور گفتگو بھی نہ ہونے کے برابر ہو گئی ہے۔ جیسے اب کچھ کہنے کو باقی نہ رہا ہو۔ بس صوفہ پہ خاموشی سے بیٹھے ٹی وی کے پروگرام دیکھتے رہتے ہیں۔
مجھے دکھ ہوا۔ برسوں سے، پہلے مانچسٹر اور پھر لیڈز کے شعبہ تعلیم اور نسل پرستی کے خلاف متحرک اور بہت نمایاں سماجی شخصیت ہونے کے ناتے جب بھی وہ کہیں تقریر کرتے، ایک بڑا مجمع دم سادھے سنتا تھا۔ جانے مانے مصنف، ماہر تعلیم اور سوشل ایکٹیوسٹ محسن ذوالفقار نقوی، جو میرے بڑے بھائی ہونے کے ساتھ میرے لڑکپن میں انقلابی سوچ کی روح پھونکنے والے مینٹور بھی رہے تھے۔
میں نے فوری طور پہ اپنی مشی گن میں رہنے والی بہن کے ساتھ لیڈز میں دو ہفتے کے لیے لیڈز جانے کا فیصلہ کر لیا کہ شاید ہماری موجودگی سے بھابی کو ڈھارس اور بھائی کو خوشی ہو۔ محسن بھائی ہمیں دیکھ کے خوش ہوئے۔ پہچان لیا اور چھوٹے چھوٹے چند جملوں میں مسرت کا اظہار بھی کیا۔ لگا بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہیں مگر اپنے جذبات، محسوسات اور الفاظ کو مجتمع نہیں کر پا رہے۔ گویا کچھ کہنے سے پہلے ہی جملوں کا اسقاط ہو رہا ہے۔
مجھے دکھ ہوا کہ ڈاکٹر حسن جاوید کے ساتھ پاکستان میں ترقی پسند طلبا کی تحریک کی داستان تین ضخیم والیوم پہ مشتمل ”سورج پہ کمند“ لکھنے والا اب سارے بامعنی الفاظ اپنے وجود سے جھاڑ کے کونے میں خاموش بیٹھا ٹی وی کو نہیں گویا بے بسی سے اپنے قسمت کو تک رہا ہو۔ ہم دونوں بہنوں نے بڑے چاؤ سے ان کی پسند کے کھانے پکائے۔ بہت شوق سے گفتگو کی۔ مگر وہ گفتگو یک طرفہ اور بے ربط ہی ثابت ہوئی۔ فاصلے ہوں تو مشترکہ موضوعات ویسے بھی کہیں مر کھپ جاتے ہیں۔
دفعتا مجھے یاد آیا کہ ہم دونوں بہنیں ان سے بہت چھوٹے سہی لیکن ہم نے پرانے سدا بہار فلمی گیت تو ساتھ سنے اور گائے بھی ہیں۔ یہی سوچ کے ایک دن میں نے اعلان کیا ”بھائی آج ہم سب مل کے گانے گاتے ہیں۔“ لیجیے صاحب شروعات ہوئی پورے جوش و خروش سے گانے گانے کی، میرے خیالوں پہ چھائی ہے ایک صورت متوالی سی، کو کو کورینا، اکیلے نہ جانا اور پھر انڈیا کے وہ گیت جن کو آج کی نئی نسل بھی بڑے شوق سے گا رہی ہے۔ کشور، رفیع، مکیش وغیرہ کے کبھی نہ پرانے ہونے والے گانے۔
میں نے غور کیا کہ میرے بھائی کے لبوں سے گانوں کے بول ایسے ادا ہو رہے تھے جیسے وہ ڈیمنشیا اور اسٹروک کے مریض نہیں، بلکہ ماضی کے پر بہار دور میں دوبارہ داخل ہو گئے ہیں۔ شوخ نٹ کھٹ، زندگی سے بھرپور بانکے نوجوان، ان کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔ گانے کے بولوں اور سر و تال کی ادائیگی میں کہیں کوئی رکاوٹ نہیں۔ ہم سب گا رہے تھے ایک سرشاری کی کیفیت میں۔ ذہن کے نہاں خانوں میں بیتے دنوں کے مسحور کن سر وجد میں آ گئے تھے۔
ان لمحات میں نہ یاسیت تھی نہ انگزائیٹی اور نہ ہی بھائی کی بیماری کا دکھ اور اسٹریس۔ اس دن میں نے موسیقی کی مسیحائی کو بہت شدت سے محسوس کیا۔ کہ جس میں اتنی صلاحیت ہے کہ چند گھنٹوں کو سہی ذہنی امراض جیسے الزائمر، ڈپریشن، انگزائٹی، آٹزم، پی ٹی ایس ڈی، اسٹرس وغیرہ اور بہت سے جسمانی درد کی کیفیات سے نجات دلا سکتی ہے۔
موسیقی محض جزوقتی آرٹ کی ایک شکل نہیں یہ تو آفرینش سے ہمارے فطری جذبات سے جڑی ہوئی ہے۔ فطرت میں اس کا مشاہدہ ہم پرندوں کی چہچہاہٹ، پتوں کی سرسراہٹ، تیز باراں اور بادل کی گڑگڑاہٹ، مکھیوں کی بھنبھناہٹ یا ہلکی بوندا باندی کی نرماہٹ میں محسوس کر سکتے ہیں۔ شادی ہو یا غمی، آواز اور سرکی دولت سے مالا مال فنکار اپنے جذبات کا اظہار کبھی ساز و آواز تو کبھی صرف ساز بجا کے کرتے ہیں۔ وہ بیگم اختر کی گائیکی میں محبوب سے جدائی کا انمٹ دکھ ہو، مہدی حسن کی راگوں کی جنگل میں ہرن کی مانند چوکڑیاں بھرتی منفرد غزلیں ہوں، راگوں پہ مبنی مرثیہ سوز و سلام، جلوس میں سینہ کوبی کرتے ہوئے نوحہ خوانی، ہو آٹھ محرم کو نوحہ پہ استاد بسم اللہ خان کی سینے کو چیرتی شہنائی ہو، یا ڈھولک کی تھاپ پہ شادی اور دوسرے پرمسرت موقعوں پہ گائے جانے والے طربیہ گیت۔
یہ طاقت موسیقی میں ہی ہے کہ وہ آنکھ سے آنسو کا دریا بہائے یا دل کو مسرت سے سرشار کردے۔ موسیقی کسی بھی خطے اور قسم کی ہو، دلوں میں بسنے کے لیے وہ جغرافیائی حدود، مذہب، ثقافت اور زبان کی محتاج نہیں۔ اس کی زبان عالمگیر ہے۔ مثلاً روی شنکر کا ستار آج بھی سب کے دلوں کے تار جھنجھنا دیتا ہے۔ کچھ عرصے قبل جب راشد علی خان کی حسین آواز بند ہوئی اور حال میں استاد ذاکر حسین کا طبلہ رکا تو دنیا بھر میں ان کے چاہنے والوں کے دل دھڑکنا بھول گئے۔ جب فیض کی لکھی احتجاجی نظم ”ہم دیکھیں گے“ کو اقبال بانو نے ادا کیا تو اس کی گونج سرحد پار نوجوانوں کا بھی نعرہ بن گئی۔ کیوں نہ ہو ہم میں موسیقی جذب کرنے کی صلاحیت رنگ و نسل، مذہب اور جغرافیائی حدود سے بالا تر تو شکم مادر سے ہے۔
حاملیت کے آخری ہفتوں میں جہاں بچہ شکم مادر میں ماں کے دھڑکتے دل کی تال سے آشنا ہوتا ہے وہاں وہ پرتشدد ماحول میں اس کی روتی اور چیختی آوازیں بھی اسی طرح سنتا ہے جیسے نرم آواز میں گنگنائے ماں کے گیت اور لوریاں۔ اور یقیناً ان آوازوں کا اثر پیدائش سے قبل اس کی ذہنی نشوونما پہ پڑتا ہے۔ لہٰذا شکم مادر سے لحد تک موسیقی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔
انسانی ارتقا کی ابتدا سے آج تک موسیقی نے انسانی ذہن کی نشو و نما، زبان کی ترقی، سماجی ربط، جذبات اور محسوسات کے اظہار، رویے اور ذہنی صحت کی بہتری میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ جب انسانوں میں رابطے کی کوئی باقاعدہ زبان ایجاد نہیں ہوئی تھی اس وقت آواز ہی ربط کا ذریعہ تھی۔ حضرت عیسی کی پیدائش سے ہزاروں سال قبل قدیم یونانیوں کی تاریخ میں بھی موسیقی کے استعمال کا پتہ ملتا ہے۔ جب یونانی دیوتا اپالو کو ”اندمال کا خدا“ کہا جاتا تھا۔
ذہنی صحت کی بحالی میں موسیقی کو استعمال کرنے والے عالم فیثا غورث، افلاطون، ارسطو وغیرہ نے بطور عالم موسیقی کو بطور تھرپی استعمال کرنے کی ترغیب اور تعلیم دی، جو انسان میں توازن پیدا کرتی ہے۔ افلاطون کا قول ہے ”موسیقی ایک اخلاقی قانون ہے۔ یہ کائنات کو روح، دماغ کو پنکھ، تخیل کو پرواز، اور زندگی اور ہر چیز کو دلکشی اور مسرت دیتا ہے۔“
ماضی قریب میں ہمارا مشاہدہ ہے کہ کھیتوں کھلیانوں اور صنعتی اداروں میں جفاکشی سے کرنے والے کسانوں اور مزدوروں نے گروہ کی شکل میں لہک لہک کے گانے گاتے ہوئے سنگلاخ زمین کا سینہ چیرا، اس میں بیج ڈالے اور فصلیں اگائیں، ریل روڈ بنائیں، پٹڑیاں بچھائیں اور مضبوط پل تعمیر کیے۔ یہ موسیقی کا جادو تھا جس نے جسمانی مشقت کی سختیاں جھیلنے کی ہمت دی اور ترقی کی راہیں ہموار کیں۔ اس کے علاوہ جسمانی عوارض جیسی بلڈ پریشر، دل کی بیماریاں، ذہنی اور اعصابی بیماریاں جیسے پی ٹی ایس ڈی، انگزائٹی، ڈپریشن، آٹزم، فالج، الزائیمر، پارکنسن، ڈسلیکسیا وغیرہ کے علاج اور مختلف امراض مثلاً کینسر اور سرجری کے بعد درد کی شدت میں کمی کے لیے بھی موسیقی تھرپی بہت کارآمد ہے۔
جدید سائنسی تحقیق نے تجربات اور دماغ کی تصاویر کی مدد سے ثابت کیا ہے کہ موسیقی کا اثر ذہن کے مختلف حصوں کے افعال پہ مثبت انداز میں پڑتا ہے۔ مثلاً موسیقی سوچنے، سمجھنے، فیصلہ کرنے اور منصوبہ بندی، آواز کو پروسس کرنے، لکھی اور بولی جانے والی زبان کو سمجھنے، جسمانی حرکت اور توازن، یادداشت، جذبات کو اجاگر کرنے، مختلف قسم کے کیمیکل یا نیرو ٹرانسمیٹر مثلاً ڈوپامین (جو ذہنی لذت کا سبب بنتا ہے۔ ) کی اخراج کا محرک ہے۔
ان سائنسی شواہد کی بنیاد پہ جدید دور میں موسیقی کو دنیا کے کئی ممالک میں جسمانی، جذباتی اور سماجی ضروریات اور معاشرتی تبدیلی کی غرض سے تعلیم اداروں، ہسپتالوں (ذہنی امراض اور جسمانی بیماریاں ) ، حتی کے قید خانوں میں مجرموں اور منشیات کے عادی افراد کی ذہنی سوچ اور رویہ کو بہتر کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
آج کی دنیا وسائل اور زمین کے حصول کی جنگ میں مصروف اور مذہب رنگ و نسل کی بنیاد پہ نفرت اور دہشتگردی کی آگ کے شعلوں میں گھری ہے۔ تقسیم در تقسیم ہوتی دنیا میں موسیقی کی آفاقیت کو انسانی یکجہتی اور امن کے حصول کے لیے استعمال کرنا عالمگیر ضرورت ہے۔ ایسے گیت ایسے ساز جو ہمارے دلوں کو محبت کا گداز دے اور موسیقی کی طاقت سے ہم امن کے پیامبر اور انسانیت کے امین بن جائیں۔
”موسیقی تمام تر فلسفے اور تمام تر دانش سے بڑا الہام ہے۔“ (لڈوگ وان بیتھوون)
- موسیقی کی مسیحائی - 28/12/2024
- ماضی کی خوش مزاج جیا امیتابھ بچن اتنی چڑچڑی کیسے ہو گئیں؟ - 16/12/2024
- ہیلتھ انشورنس کمپنی کے سربراہ کا قتل: امریکہ کے کرپٹ ہیلتھ کیئر سسٹم کے لیے لمحہ فکریہ - 12/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).