سفرِ کوسوو (2)
باشکیم کے مقابلے میں رفعت بریشا جو عرفِ عام میں رکی کہلاتا تھا بالکل ہی مختلف بندہ تھا۔ اشرف صاحب کہتے تھے بڑا مشکل آدمی ہے۔ وہ ایک ہندکو محاورے۔ او کہیڑی گلی جتھے پہاگو نہی کھلی۔ کی مکمل تصویر تھا۔ ہر الٹے کام میں اس کی دلچسپی ہوا کرتی تھی جس وجہ سے اشرف صاحب نے اس کا نام دو نمبر رکھا تھا۔ پے آ کے پاکستانی افسران سہیل، بہار اور غیاث کو ہم نے اس بارے میں سمجھا دیا تھا۔ وہ ویسے بھی اچھے بندے تھے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ پنجاب پولیس سے تعلق ہونے کی بنا پر افسرانِ بالا کی ہر بات کو حکم کا درجہ دیتے تھے۔
لہذا رکی ان سے دو نمبر کے مطلب کی ٹوہ نہ لے سکا۔ لیکن وہ بھی ایسا سادہ کہاں تھا چنانچہ اس کا شک اپنی جگہ قائم رہا۔ ایک دفعہ کسی دوسرے شہر سے ہمیں ملنے آنے والے ہم وطنوں سے اسے آخر دو نمبر کا اصل مطلب پتہ چل گیا اور ہم سے ناراض ہو گیا۔ اس موقع پر بھی اشرف نور صاحب کی دسترس میں پر اسرار قوتوں کے ہونے کا تاثر کام آیا اور ان کی تھوڑی سی کوشش سے وہ راضی ہو گیا۔
یہ دو نمبر بندہ جو نہ نماز پڑھتا تھا اور نہ روزے کا پابند تھا اور بظاہر نام کی حد تک ہی مسلمان تھا ایک موقعہ پر ہمیں شرمندہ کر گیا۔ گوروں نے سب کی دعوت کی جس میں ہمارے لیے روسٹ مرغ اور جوس کا انتظام کیا گیا جبکہ اپنے لیے شراب اور پورک کا۔ رکی نے جوس تو پیا مگر مرغ نہیں کھایا۔ اگلے دن ہمیں کہا۔ آپ لوگ بڑے مہان مسلمان بنے پھرتے ہو لیکن یہ خیال نہیں کیا کہ ممکن ہے مرغ بھی اسی تیل میں روسٹ ہوا ہو جس میں کہ پورک روسٹ ہوا۔ ہم نے تو اس طرح سوچا بھی نہیں تھا لہذا حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی۔
مقامی مسلمانوں کے ہاں ظاہری اسلام کا معاملہ بہت کمزور ہوتے ہوئے بھی اسلام اور عقیدے سے لگاؤ بہت گہرا تھا۔ ایک نوجوان جس سے ہر جمعہ کو پہلوان میدان جامعہ میں ملاقات ہوتی تھی خواہش رکھتا تھا کہ ہمارے دفتر میں اگر ترجمان کی آسامی آئے تو اس کی مدد کی جائے۔ چند ماہ بعد اتفاق سے ایسا ہو گیا۔ میں بھاگا بھاگا اس سکول پہنچا جہاں وہ استاد کے طور پر ملازم تھا۔ میں نے جب اسے یہ خوشخبری سنائی اور درخواست دینے کا کہا تو وہ میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے بولا۔ مجھے اس سکول میں اگرچہ تنخواہ بھی ہر ماہ باقاعدگی سے نہیں ملتی لیکن بڑی کوشش کے بعد چند لڑکوں کو نماز کی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہوں۔ میں یہاں سے چلا گیا تو یہ پھر پرانی ڈگر پہ چلے جائیں گے۔ لہذا مجھے یہیں رہنا ہو گا۔
ہمسائے میں مقیم ایک ایسی لڑکی نے ایک بار لاجواب ہی کر دیا جو سکرٹ کے علاوہ کچھ اور پہنتی ہی نہیں تھی۔ اس کے گھر کی سجاوٹ کو دیکھ کر میں نے پوچھا یہ سب کچھ کہاں سے آیا۔ بولی سکول کے اس کھوکھے کی آمدنی سے جہاں میرا والد بورک بیچا کرتا ہے۔ میں نے کہا وہ تو بہت چھوٹا سا کھوکھا ہے۔ بولی کھوکھا چھوٹا ہے لیکن دینے والا بہت بڑا۔
اس کے مقابلے میں ہم ظاہری اسلام کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ ہمیں بے وقوف بنانے کو ہمارے ایسے سیاسی راہنما بھی ہاتھ میں تسبیح تھامے پھرتے ہیں جسے دیکھ کر ویسی ہی حیرت ہوتی ہے جیسی غالب کو ایک موقع پر ہوئی تھی۔
کہاں میخانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا یاد ہے کہ کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
کیا شوخی ہے کیا شرارت ہے، غالب کو یونہی تو کلِ غالب نہیں کہا جاتا۔
لیجیے سلطان باہو بھی یاد آ گئے۔
تسبیح بہتی رول نہ باہو ایس تسبیح دا کی پڑھنا ہو
جہیڑا اپنے نال حساب نہ کرے اوہدے نال حساب کی کرنا ہو۔
جنگ کے خاتمے کے بعد جب زندگی سست گامی سے معمول پر آنے لگی تو ایسے لوگ جو عملی مسلمان تھے اور تعداد میں بہت کم تھے ان کی ڈھارس بندھانے کے لیے سعودی عریبیہ کی طرف سے کئی قابلِ تعریف اقدامات کا آغاز کیا گیا۔ جنگ کے دوران عثمانی دور کی بہت سی مساجد جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھیں انہیں اپنی اصل حالت میں واپس لانے کو بڑی محنت کی گئی۔ ان میں سے کچھ تو ہمارے ہوتے ہوئے آباد بھی ہو چکی تھیں۔ ان میں پہلوان میدان، جلفاتم اور حمام جامعہ نمایاں تھیں۔ ہر جامعہ کے اندر صحن کے ایک حصے میں چھوٹا یا کچھ بڑا قبرستان بھی موجود تھا جن کی قبریں تربے کہلاتی تھیں اور ان کے کے کتبوں کی اونچائی اور ڈیزائن مرحومین کے پیشے یا سرکاری حیثیت کی نشاندہی کرتے تھے۔ ان کی بھی مرمت اور بحالی کا کام کیا گیا تھا تا کہ تاریخی شناخت کا کوئی نشان مٹ نہ پائے۔
کوسوو بھر سے ایک مقامی تنظیم ہر سال حج کے لیے دس شہریوں کے نام سعودی حکام کو دیتی تھی جو حکومت کے مہمان کے طور پر حج پر بلائے جاتے تھے۔ اسی طرح زکوة کی مد میں بھی بہت سی بیواؤں اور بے سہارا عورتوں کی مدد کی جاتی تھی۔ ہر شہر میں عربی زبان اور اسلامی تعلیم کی لیے جدید مدارس بھی قائم کیے گئے۔
یہ کام بہت بڑے پیمانے پر سابق یوگوسلاویہ کے ہر شہر اور قصبے میں کیا گیا جو اب نئے ملکوں کا حصہ تھے اور جہاں مسلمان، ماسوائے بوسنیا اور کوسوو کے، مجموعی طور پر اقلیت کا درجہ رکھتے تھے لیکن ان شہروں میں وہ اکثریت میں تھے جیسے سربیا کا شہر نووی ساد۔
۔ جاری ہے۔
- سفرِ کوسوو: آخری قسط - 20/01/2025
- سفرِ کوسوو (3) - 07/01/2025
- سفرِ کوسوو (2) - 29/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).